عمران خان کے چاہنے والوں کے دل آج کل اُردو عزل کے عاشقوں کی طرح اِتنے دُکھی ہیں کہ حال بھی پوچھو تو رونے لگتے ہیں اور پھر وہی پرانی گالیاں دینے لگتے ہیں۔
خان صاحب کی تعریف کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ عاشق دُکھی ہو جائیں گے۔ خان صاحب نے میڈیا کی آزادی کے بارے میں ہوئے سیمینار میں فرمایا کہ شہباز گِل پر تشدد کر کے ان سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ عمران خان کھانے میں کیا کھاتا ہے۔
عمران خان کے سجن دشمن سب جانتے ہیں کہ خان کُھل کے کھاتا ہے، مزہ لے کر کھاتا ہے، لیکن مشکل سے مشکل وقت میں بھی ورزش نہیں چھوڑتا۔ خان صاحب کی عمر کا فِٹ انسان اگر آپ نے پاکستان میں دیکھا ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔
خان صاحب کے دشمن اُن کی ماضی کی محبتوں کی تصویر نکال کر اُن پر کیچڑ اچھالتے ہیں، خان صاحب کو جو چیز باقی سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے کہ انھوں نے محبتیں بھی راز نہیں رکھیں اور جو بھی کھایا سب کے سامنے بیٹھ کر کھایا۔ ہمارے روایتی سیاستدانوں کی طرح دوسروں کو کھلایا نہیں۔
جو یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی سے چائے بھی نہیں پوچھی تو یہ ان کے کردار کی بلندی ہے ورنہ ہمارے سیاستدانوں کی ڈیرے داری تو صرف روٹی شوٹی کھلانے پر ہی چلتی ہے، اور آج بھی چل رہی ہے۔ پنجاب کا تخت گجرات کے چوہدری کے پاس ہے جن کے خاندان کی سیاسی فلاسفی صرف یہی ہے کہ ’روٹی کھاؤ تے مٹی پاؤ۔‘
ایک بزرگ اور جید صحافی نے کئی بار لکھا ہے کہ جب عمران خان سیاست کے بیابانوں میں گھوم رہے تھے اور جو بھی بلاتا تھا وہاں اپنا پیغام لے کر پہنچ جاتے تھے اور میزبان سب بھول کر دیسی مرغی ڈھونڈنے نکل جاتے تھے۔
خان صاحب کے ایک کھانے کی تصویر پوری قوم نے دیکھی ہے۔ لاہور سے لانگ مارچ سے پہلے وہ ناشتہ کر رہے ہیں ساتھ میں بیٹھے جنون والے سلمان احمد حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
میز پر ایک پلیٹ میں چنے، ایک میں آم اور ایک میں دہی پڑی ہے۔ نہ کوئی روٹی، نہ کوئی چاول۔ تصویر دیکھ کر میرے دل سے بے ساختہ نکلا تھا:
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
آپ نے کبھی کیچ اپ کا ساشے کھولا ہے، اکثر دیکھا ہو گا کہ ہماری عمر کے لوگ کبھی ناخنوں سے، کبھی دانتوں سے کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے ایک دفعہ عمران خان کو ایک ساشے کھولتے دیکھا تھا۔ ریستوران میں اُن کے دیوانوں کا ہجوم تھا وہ سب کو توجہ دے رہے تھے، تصویر کھنچوا رہے تھے، باتیں بھی کر رہے تھے۔
ان کے سامنے سینڈوچ اور چپس کی پلیٹ رکھی گئی انھوں نے پلیٹ کی طرف نظر ہی نہیں ڈالی، ساشے اٹھایا اور کسی جیب کترے کی سی مہارت سے (خدارا ناراض مت ہوں، تعریف کر رہا ہوں) ساشے کھولا، چپس پر ڈالا اور کھانا شروع ہو گئے۔
میں نے زندگی میں بڑے کھانے والے دیکھے ہیں لیکن اتنی رغبت اور بے اعتنائی کا حسین امتزاج میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ اور مجھے کیچ اپ کا وہ ساشے کُھلتے ہی یقین آ گیا تھا کہ ایک دن ساری قوم کا نصیب بھی خان صاحب کے ہاتھوں ایسے ہی کُھلے گا۔
سیاست کے حرکیات کو میں اتنا نہیں سمجھتا لیکن خان صاحب کا اسٹیبلشمنٹ یا جسے وہ آج کل نیوٹرل کہتے ہیں بڑا مسئلہ یہی ہے کہ خان کھاتا بھی کُھل کے ہے، فٹنس کسی کمانڈو میجر والی ہے لیکن کھلاتا کسی کو نہیں بلکہ چائے بھی نہیں پوچھتا۔
عمران خان نے اپنے حامیوں کو ایک نکتہ سمجھا دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں کے ساتھ تو بیٹھ سکتے ہیں، لیکن چوروں لٹیروں، یعنی وہ جو خود بھی کھاتے ہیں اور کھلاتے بھی ہیں، کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔
کھانے کھلانے کے کیس میں ایک وزیرِ اعظم زندگی بھر کے لیے نااہل ہو چکا ہے۔ اس کے بارے میں بھی عمران خان نے کہا کہ وہ اس لیے نااہل ہوا کہ جے آئی ٹی میں شامل بریگیڈیئر ڈٹ گئے تھے۔
اچھا ہوا کوئی تو ڈٹا لیکن یہ تھوڑا سا خطرناک رجحان ہے۔ کل کوئی کرنل اگر بریگیڈیئر کے سامنے ڈٹ گیا، تو پھر میجر کرنل کے سامنے اور اگر بات یہاں تک پہنچی کہ صوبیدار لفٹین کے سامنے اور سپاہی صوبیدار کے سامنے تو کون کس کے بوٹ پالش کرے گا۔
اور جن کو سیاستدانوں کے دسترخوانوں سے روٹی شوٹی کھانے کی عادت ہے وہ تو عمران خان کے خلاف اکھٹے ہوں گے ہی کیونکہ وہ تو چائے بھی نہیں پوچھتا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر