دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سترہ اگست 1988 اور کچھ یادیں || آفتاب احمد گورائیہ

الیکشن تو جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیا اپنی زندگی میں ہی اناونس کر چکا تھا جو کہ غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے تھے۰ ضیا کی موت کے بعد سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی کی رٹ پر فیصلہ سناتے ہوئے جب الیکشن جماعتی بنیادوں پر کروانے کا فیصلہ دیا تو اس کے ساتھ ہی نومبر 1988 میں ہونے والے الیکشن کی گہما گہمی میں تیزی آ گئی۰

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے آج بھی 17 اگست 1988 کا دن بہت اچھی طرح یاد ہے۰ سکول کی چھٹیوں کے دن تھے اور ہم لوگ گرمیوں کی چھٹیوں کا بیشتر وقت گاوں میں گزار کر کچھ روز پہلے ہی لاہور پہنچے تھے۰ 17 اگست کی سہ پہر گزرنے والی تھی ہم لوگ شام کی چائے وغیرہ میں مصروف تھے جب یہ خبر ملی کہ بہاولپور کے نزدیک جنرل ضیا کا طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا ہے اور جنرل ضیا سمیت بہت سے افراد جن میں امریکی سفیر ، امریکی فوجی اتاشی اور پاک فوج کے بہت سے افسران حادثے کا شکار ہو چکے ہیں۰ شروع شروع میں تو کسی کواس خبر کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا۰ ٹی وی آن کیا تو یہ خبر کنفرم ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی ایسا محسوس ہونے لگا کہ فضا میں گھٹن ختم ہو گئی ہے اور فضا ایک دم بدلی بدلی سے محسوس ہونے لگی۰

جنرل ضیا کی موت پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جانب سے سامنے آنے والا ردعمل بھی بی بی شہید کی عظیم شخصیت کے شایان شان ہی تھا جب بی بی شہید نے کہا کہ جنرل ضیا ایک بدترین آمر تھا جس نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر ناجائز قبضہ کیا، منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور دوسرے جمہوریت پسند افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں لیکن ایک انسان کے مرنے پر میں خوشی کا اظہار نہیں کر سکتی۰

ہم جیسے لوگ جنہوں نے جنرل ضیا کے دور میں ہوش سنبھالا ان کے لئے جنرل ضیا کے بغیر کسی حکومت کا تصور ایک بالکل نیا تجربہ تھا۰ اگرچہ ضیا کی موت کے بعد غلام اسحاق خان کا صدر کا عہدہ سنبھالنا اور جنرل مرزا اسلم بیگ کا چیف آرمی سٹاف بن جانا جنرل ضیا کی باقیات کا ہی تسلسل تھا۰ اس کے علاوہ جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیا کی طرف سے بنائی جانے والی نگران کابینہ بھی وزیراعظم کے بغیر ایک سنئیر وزیر کی قیادت میں کام کر رہی تھی اس کو بھی برقرار رکھا گیا۰ لیکن پھر بھی جنرل ضیا کی چھتری کے بغیر یہ جنرل ضیا سے بہرحال ایک مختلف سیٹ اپ تھا۰ اس کے ساتھ ساتھ 1988 کا الیکشن اناونس ہو جانے کی وجہ سے بھی کچھ کچھ سیاسی ہلچل شروع ہو چکی تھی۰

جونیجو حکومت کی مئی 1988 میں برطرفی کے بعد جنرل ضیا ایک بار پھر اسلامائزیشن کے نعرے کا سہارا لے چکا تھا جس کا اثر ٹی وی پر سخت سنسرشپ کی صورت میں سامنے آیا تھا۰ تمام اداکاراوں کے لئے ان کے کردار کی نوعیت سے قطع نظر دوپٹہ اوڑھنا لازمی قرار پا چکا تھا۰ اس کے علاوہ پی ٹی وی پر گانوں کے نشر ہونے پر بھی سنسرشپ نافذ تھی۰ ضیا کے مرنے کے بعد ایک ماہ کےاندر ہی ٹی وی ڈرامہ جب نارمل انداز میں پیش ہونے لگا تو یہ بھی ایک بہت ہی خوشگوار تبدیلی محسوس ہوئی۰

الیکشن تو جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیا اپنی زندگی میں ہی اناونس کر چکا تھا جو کہ غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے تھے۰ ضیا کی موت کے بعد سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی کی رٹ پر فیصلہ سناتے ہوئے جب الیکشن جماعتی بنیادوں پر کروانے کا فیصلہ دیا تو اس کے ساتھ ہی نومبر 1988 میں ہونے والے الیکشن کی گہما گہمی میں تیزی آ گئی۰

پیپلزپارٹی گیارہ سال کے بعد کسی الیکشن میں حصہ لے رہی تھی اور میرے لئے بھی ہوش سنبھالنے کے بعد کسی الیکشن کو فالوکرنے کا یہ پہلا موقع تھا۰ اگرچہ اپنی عمر کے مطابق اس وقت ہماری دلچسپی صرف پیپلزپارٹی کے جھنڈوں، بیجز اور اسٹکرز تک محدود تھی۰ نہ تو امیدواروں کا اتنا پتہ تھا اور نہ ہی الیکشن کے دوسرے لوازمات کا۰ چونکہ والد صاحب اور دوسرے بزرگوں کی ہمدردیاں اور سپورٹ ہمیشہ سے پیپلزپارٹی سے وابستہ رہی تھیں اس لئے ہم لوگ بھی قدرتی طور پر پیپلزپارٹی کے ہی سپورٹر تھے۰ ہمارے گھر ان دنوں پیپلزپارٹی کا اخبار مساوات بھی باقاعدگی سے آیا کرتا تھا جس سے پیپلزپارٹی کے بارے مزید آگاہی پیدا ہونی شروع ہوئی۰ ان دنوں بی بی شہید کی کتاب ڈاٹر آف ایسٹ نئی نئی شائع ہوئی تھی جس کا اردو ترجمہ مشرق کی بیٹی کے نام سے مساوات اخبار میں قسط وار شائع ہوتا تھا جس کو میں پڑھنے کے بعد سنبھال لیتا تھا۰ میرے پاس آج بھی ان تمام اقساط پر مشتمل اخبارات کا ریکارڈ مخفوظ ہے۰

نومبر 1988 میں ہونے والے الیکشن کا دن بھی مجھے اچھی طرح سے یاد ہے۰ الیکشن والے دن میں اور میرے کزنز اپنی چھت پرکھڑے ہو کر سامنے سڑک سے گزرنے والی پیپلزپارٹی کے جھنڈوں والی گاڑیوں کو دیکھ کر پیپلزپارٹی کے جھنڈے لہراتے اور وی کا نشان بناتے تھے۰ الیکشن والی رات کو دیر تک الیکشن نشریات دیکھتے رہے جس میں ہماری دلچسپی الیکشن رزلٹ کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر چلنے والے پروگرام بھی تھے۰

الیکشن سے اگلی صبح جب ہم لوگ سو کر اٹھے تو جمہوریت کی ایک نئی صبح طلوع ہو چکی تھی ہر طرف پیپلزپارٹی کی دھوم تھی کیونکہ پیپلزپارٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی قیادت میں الیکشن جیت چکی تھی اور پیرپگاڑہ، جونیجو، جتوئی سمیت پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے مخالف پیپلزپارٹی کے عام کارکنوں کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہو چکے تھے۰ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا پاکستان کی وزیراعظم بننا نوشتہ دیوار بن چکا تھا۰ آمریت کی زنجیریں ٹوٹ چکی تھیں اور سلطانی جمہور کا دور شروع ہونے والا تھا۰

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author