میں اور آپ جمہور کی طاقت کے جتنے بھی گُن گا لیں، سچ تو یہ ہے کہ ہم اُس دوراہے پر ہیں جہاں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ آمریت اور فسطائیت میں کس کے ساتھ کھڑا ہوا جائے؟
عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسا اوقات لکھی گئی تحریر مٹانے میں بہت وقت لگتا ہے جبکہ بعض اوقات تحریر مٹائے بنا نئی تحریر ناممکن ہو جاتی ہے۔ لکھنے والا حالات موافق لکھے تو درست اور حالات مخالف لکھے تو باغی۔
ہمارے ہاں سٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کے حوالے سے ایک تاریخ رہی ہے اور زیادہ دیر کی بات نہیں جب ایک صفحے کی حکومت ترتیب دی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ طاقت کے بطن سے نکلنے والی طاقت زیادہ طاقتور ہو گئی اور ہائبرڈ نظام سے جنم لینے والی فسطائیت اب طاقتوروں کے لیے ہی ایک آزمائش بن چکی ہے۔
طاقت کا اصل سر چشمہ عوام ہیں، کسی چوراہے میں کی گئی اس تقریر کو سُننے والا مجمع اس پر نعرے تو لگا سکتا ہے لیکن حقیقت میں عوام نہ تو طاقتور ہیں اور نہ ہی کبھی سمجھے گئے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جیسے عوامی رہنما کی طاقت کا زعم جس طرح نکالا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے نظریے اور اصول کی سیاست پر تختہ دار کی زینت بنے تو آج بھی امر ہیں۔
پھانسی کے پھندے کو چوم کر جھول جانے کی طاقت ذوالفقار علی بھٹو کو عوام کے ماتھے کا جھومر بنا گئی مگر طاقت کا سر چشمہ عوام پھر بھی نہ بنے۔
طاقت اور اختیار جس ہاتھ ہو وہ کب اپنی مٹھی کھول سکتا ہے اور کیسے اپنے اختیار کو ہاتھ سے جانے دے سکتا ہے؟
پاکستان میں گذشتہ اپریل سے اختیار کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اُس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ طاقت کا مرکز اب سٹیبلشمنٹ ہے یا عمران خان۔ طاقت عوام کی ہوتی تو بات الگ تھی یہاں ارتکاز ایک شخص کی ذات میں ہے اور کیا واقعی عمران خان یہ لڑائی عوام کو طاقت کا سر چشمہ بنانے کے لیے لڑ رہے ہیں؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر