عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری والدہ کے انتقال کے بعد سے میرے والد بہت بدل گئے ہیں، اب وہ زیادہ رقیق القلب ہو گئے ہیں، ان کو اب چھوٹی چھوٹی باتیں دیر تک رنجیدہ رکھتی ہیں۔ پہلے بہت سے معاملات کی فکر امی کو رہا کرتی تھی کہ کس بچے کی نوکری کیسی چل رہی ہے، کون مالی مشکلات کا شکار ہے، کس کی صحت کیسی ہے، کس کے گھر میں خوشی کا کوئی موقع ہے، کس کو سفر درپیش ہے۔ امی کے انتقال کے بعد اب یہ ذمہ داریاں ابو نے سنبھال لی ہیں، وہ دن میں کئی کئی بار ہر بچے کو فون کر کے اس کی خیریت دریافت کرتے ہیں، کوئی بیمار ہو تو بارہا بیمار پرسی کرتے ہیں، خوشی غمی میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ کام ساری زندگی ان کے کرنے کے نہیں رہے، اب وہ ہر وقت یہی کام کرتے رہتے ہیں۔ یو ٹیوب پر موجود امی کی ایک وڈیو جو اکیڈمی آف لیٹرز میں ریکارڈ کی گئی وہ وڈیو بار بار فرمائش کر کے دیکھتے ہیں اور پھر بار بار یہی کہتے ہیں کہ ”تمھاری والدہ میرے لیے بہت دعائیں کرتی تھیں“
میری والدہ اہل زبان میں سے تھیں۔ ابو کا تعلق گجرات سے تھا۔ دونوں گھرانوں کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ لیکن میرے والدین نے کبھی اس لسانی اختلاف کو وجہ عناد نہیں بننے دیا۔ ہمیں دونوں زبانیں سکھائیں۔ دونوں طرح کی اقدار کا احترام سکھایا۔ بس یہ ایک اختلاف تھا جو کبھی حل نہیں ہوا۔ امی کو مرزا غالب کی شاعری سے بے حد لگاؤ تھا اور ابو حضرت اقبال کے دلدادہ۔ دونوں کبھی ایک دوسرے کو ساری عمر قائل نہیں کر سکے۔ حالانکہ یہ بحث قریبا روز ہی ہمارے گھر میں ہوتی تھی۔
میری والدہ اور والد انیس سو باسٹھ میں اورینٹل کالج میں کلاس فیلو تھے۔ وہیں مراسم اور محبت کا آغاز ہوا۔ محبت کا یہ دیا آج بھی جل رہا ہے۔ اس دور میں وٹس ایپ کی سہولت میسر نہیں تھی اس لیے خطوط لکھے جاتے تھے۔ میری والدہ اور والد بھی شادی سے پہلے ایک دوسرے سے خطوط کے ذریعے رابطہ رکھتے تھے۔ امی نے یہ سب خطوط سنبھال کر رکھ لیے ۔ ان کی شادی کی پچاسیوں سالگرہ آئی تو ابو نے خطوط چھپوا کو امی کو پیش کیے۔ اب بک کارنر جہلم نے بہت احتشام سے ان نادر خطوط کو چھاپا ہے۔ اس مجموعے کا نام ”صرف تمہارا۔ ۔ ۔انور مسعود“ اس لیے تجویز کیا گیا کیونکہ ابو کے ہر خط کے اختتامی کلمات یہی تھے۔ آپ کو اگر اس مجموعے کو پڑھنے کا موقع ملے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ محبت کرنا کوئی جرم نہیں لیکن محبت میں شائستگی، احترام اور عقیدت لازم ہے۔
خطوط کی اس مجموعے ”صرف تمہارا۔ انور مسعود“ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خطوط صرف وہ خطوط ہیں جو میرے والد نے میری والدہ کو لکھے۔ جو خطوط میری والدہ نے ابو کو لکھے وہ انہوں نے شائع نہیں کروائے۔ یہ کمیونکیشن یک طرفہ ہے لیکن اس کے ایک ایک لفظ سے آپ دو طرفہ حظ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ ایک کے حالات اور حال دل سے واقفیت کے بعد آپ کو دوسرے کا حال خود بخود معلوم ہو جاتا ہے۔
ابو کا اسی زمانے کا قطع ہے جو امی پر ہی لکھا گیا تھا بہت معروف ہوا کہ
قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے
دیار دل میں بڑا احترام ہے تیرا
ریاض شعر میں قائم ہے آبرو تیری
توقعات کے گھر میں مقام ہے تیرا
میری والدہ کا نام قدرت تھا۔ اس قطعے کی خوبی یہ ہے کہ اس کے چاروں مصرعوں کہ ابتدائی حروف کو جمع کرنے سے جو لفظ تشکیل ہوتا ہے وہ قدرت ہی ہے۔ ق۔ د۔ ر۔ ت۔ قدرت
ہر شخص زندگی میں کم از کم ایک بار محبت میں مبتلا ضرور ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو محبت کا یہ جشن پچپن برس تک منانے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ اس کتاب سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ التفات کا جو سلسلہ چھ دہائیوں پہلے شروع ہوا وہ آج تک قائم ہے اور شاید اس کتاب کے توسط سے اب ہمیشہ قائم رہے گا۔ بک کارنر جہلم کی سعی کی وجہ سے یہ لفظ پامال نہیں ہوں یہ عشق رائیگاں نہیں جائے گا۔ یہ خطوط نہیں ایک داستان عشق ہے جس کا حرف حرف الفت اور احترام سے گندھا ہوا ہے۔
یہ نادر کتاب خطوط کے ذریعے ایک محبت کی ایسی عجب داستان سناتی ہے جس کا ایک سرا ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آج کی جواں سال نسل اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرے تاکہ قرینے اور سلیقے سے محبت کرنے کا ڈھب جان سکیں۔
ہم نے ساری عمر دیکھا کہ امی کو ابو کے بغیر چین نہیں پڑتا تھا اور ابو سے امی کی غیرموجودگی برداشت نہیں ہوتی تھی۔ ابو کہیں باہر گئے ہیں تو ہر پندرہ منٹ کے بعد فون کر کے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے رہتے۔ ابو نے امی کو سب حقوق دیے۔ میری والدہ بتیس برس تک فارسی کی پروفیسر رہیں۔ گھر کے سب معاملات امی کے سپرد تھے۔ میرے والد نے جو کمایا امی کے ہاتھ پر رکھا۔ ان کے فیصلوں کو اہمیت دی۔ کبھی بے دھیانی میں بھی میاں بیوی کے رشتے کا مذاق نہیں اڑایا۔ امی بیمار ہوتیں تو ابو ان کے سرہانے دعاؤں میں مشغول رہتے اور اگر ابو کی طبیعت ناساز ہوتی تو امی سے جائے نماز نہ چھٹتی۔ ان خطوط کو پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے جو وعدے فیصلے لڑکپن میں کیے وہ پچپن برس تک کس خوبی سے نبھائے۔ امی اکثر کہتیں کہ ہماری زندگیوں میں جو کچھ ہے تمہارے والد کی وجہ سے ہے اور ابو اکثر کہتے کہ میں جو کچھ آج ہوں تمہاری والدہ کی دعاؤں کی برکت کی وجہ سے ہوں۔
اب بھی ابو کسی مشاعرے کے بعد گھر آتے ہیں نماز اور تلاوت کے بعد اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ کر کہتے ہیں، ”بیٹا اپنی امی کی وہ یوٹیوب وڈیو تو مجھے لگا دو، وہ ہر مشاعرے سے پہلے میرے لیے بہت دعا کرتی تھیں۔ چند دنوں سے ابو کی زندگی کی ترتیب میں صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ اب ان کے سرہانے ادویات، خلال، تسبیح اور جائے نماز کے ساتھ یہ کتاب“ صرف تمہارا۔ انور مسعود ”بھی دھری ہوتی ہے۔ وہ اس میں شائع اپنی اور امی کی زمانہ طالبعلمی کی تصاویر کو بہت شوق سے بار بار دیکھتے ہیں۔
میرے والدین کی محبت کی شدت کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے جو ابو نے امی کے انتقال پر لکھا
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپرد خاک کیا
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر