خلیل کنبھار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اردو تنقید کو تخلیقی روش پر ڈال دیا ہے۔ ان کی تنقید پڑھتے ہوئے جہاں کسی فن پارے کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے وہیں اس فن کی تاریخ اور اس کے ارتقا کا عمل بھی اجاگر ہونے لگتا ہے۔ اس طرح ان کی تحریر مسلسل انکشافات کا باعث بنتی ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ”یہ قصہ کیا ہے معنی کا“ اپنے قاری کو سوچ کی ایک نئی راہ پر ڈال دیتی ہے، جہاں ”مطالعہ کیسے کریں“ جیسا بھید کھلنے لگتا ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر سنجیدہ اور مقبول شاعری میں تفریق کرتے ہیں لیکن ہر دو قسم کو دہشت گردی کے مقابل معاشرے کے لیے یکساں اہم اور کارگر مزاحمت سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری کا نامقبول ہونا معاشرے کے لیے ایک المیہ ہے۔ وہ نوبل انعام یافتہ کریبیئن شاعر ڈیرک والکوٹ کے حوالے سے اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ ذمہ داری سونپنے والی شاعری سے قاری بھاگتا ہے اور ذمہ داری اٹھانے کی حامی نہیں بھرتا کیونکہ قارئین کی اکثریت شاعری سے مسرت کی طالب ہوتی ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں شاعری کو برانڈ یا پراڈکٹ کے طور پر استعمال کرنے والے شعراء ایک ماہر بیوپاری کی طرح وقت کی مانگ کو پورا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اپنی مارکیٹنگ کے تصادم میں ایک دوسرے کی پراڈکٹ میں نقص بھی نکالتے رہتے ہیں۔ اس کتاب میں شاعری اور شعرا کے مطالعے کے علاوہ ”نئے استعماری بیانیے اور ادب“ عالم گیریت ثقافت اور ترجمہ ”،“ عالم گیریت صارفیت اور ادب ”،“ کورونا اور ادب ”، الف لیلہ و لیلہ شہرزاد اور جدید فکشن“ سمیت جدید و قدیم ادب اور اردو ادب پر دوسرے خطوں کے اثرات کے حوالے سے معاصر شعور کے حامل فکر انگیز مضامین شامل ہیں۔
اس کتاب کے مطالعہ سے کھلتا ہے کہ ہمارے ہاں کسی شاعر یا کہانی کار کے فن پارے میں فنی یا فکری کوتاہی کو اس تخلیق کار کی ذاتی نا اہلی قرار دے کر اس کو تنقیدی سطح پر اس طرح آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے کہ وہ ڈپریشن میں چلا جاتا ہے۔ ناصر عباس نیر کا تجزیاتی یا تنقیدی رویہ فن کار کی شخصی سطح سے بلند ہو کر ادب اور تنقید کے ایک بڑے منصب کو اجاگر کرتا ہے۔ اس حوالے سے وہ معنی کی تلاش میں ناقدانہ اظہار کے نئے نشانات دریافت کرتے ہیں۔
اس کتاب میں ان شعرا کے رویوں پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے کہ جنہیں قدیم اور معاصر شعرا کے عظیم ادبی کارناموں کے سامنے اپنی تخلیقی کوششیں لاحاصل دکھائی دیتی ہیں۔ یہ احساس کسی عہد کی تخلیقی اڑان میں کوتاہی پیدا کر دیتا ہے۔ اس بحث میں سامنے لایا گیا ہے کہ اپنے آپ کو تاریخ کے مقابل لانے سے آدمی کے حصے میں تنہائی، مایوسی اور بیگانگی آتی ہے۔ ڈاکٹر ناصر اس رویے سے نجات پانے پر زور دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کسی فن پارے کی ناکامی ایک شخص سے ہٹ کر ادیبوں کے کسی گروہ یا پوری ایک نسل کی ناکامی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ ادبی
ناکامیابی کا مفہوم بدل دیتے ہیں اور تنقید کے منصب کو سماجی اور تہذیبی عوامل سے جوڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر شاہ لطیف بھٹائی کے بعد شعرا یہ کہ کر بیت لکھنا چھوڑ دیں کہ اب ان سے بہتر کہنا محال ہے تو ہمارے ہاں شعر لکھنے کی روایت ہی ختم ہو جائے جبکہ شاہ لطیف کے بعد بھی شاعری کا تسلسل بحال رہا اور کتنی ہی نسلوں کی ناکامی کے بعد شیخ ایاز نے جنم لیا۔ اس طرح ہمیں ان ناکامی ہونے والے اپنے خاموش ہیروز کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے سندھ کی شعری روایت کو ایک بڑے شاعر سے دوسرے بڑے شاعر تک آگے بڑھایا۔
اس کتاب کا ایک موثر ترین مضمون ”الف لیلہ و لیلہ، شہرزاد اور جدید فکشن نگار“ ہے۔ اس تحریر میں واضح کیا گیا کہ دنیائے ادب کا یہ واحد قصہ ہے جس میں نسلی، قومی، جغرافیائی اور زمانی حدود عبور کرنے کی صلاحیت ہے۔ عربی زبان کے اس قصے میں ہندستان، ایران اور مصر سمیت دوسرے کئی خطوں کی کہانیوں کے دریا شامل ہیں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے مطابق فن اس فانی دنیا کا حصہ ہونے کے باوجود لافانیت حاصل کر لیتا ہے۔ فاضل نقاد شہر زاد کی قصہ گوئی کے حوالے سے اس حقیقت کو بھی بیان کرتا ہے کہ سامنے کے حقائق کی عکاسی ادب نہیں ہے اور لوئی بورخیس کی کہانیوں، گارشیا مارکیز کے ناول ”تنہائی کے سو سال“ سمیت بے شمار فکشن نگاروں کی تحریروں پر تیسری صدی ہجری سے شروع ہو کر دسویں صدی ہجری میں مکمل ہونے والی اس داستان کے اثرات ہیں۔
یہ مضمون واضح کرتا ہے کہ سترہویں صدی کے آخر میں جن اصولوں کو یورپی ادب کی اساس قرار دیا جا رہا تھا انہیں یورپ میں ”الف لیلہ و لیلہ“ کے تراجم کی مقبولیت نے تہ و بالا کر دیا۔ ان ادبی اصولوں میں حقیقت نگاری، فطرت نگاری اور پلاٹ کا مستقیم تصور خاص طور پر اہم تھے لیکن اس قصے نے حقیقی اور غیر حقیقی کے تصور کو بدل کے رکھ دیا۔ اس قصے کی مرکزی کردار شہرزاد کی وسعت اور اس کے عمل کی بڑائی کو سمجھانے کے لیے ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے فاطمہ مرنیسی کی کتاب میں اٹھایا گیا اعتراض بھی بیان کیا ہے کہ ”مغرب کی مصوری اور آپرا میں شہرزاد کو دانشور عورت کے طور پر نہیں جنسی طور پر لبھانے والی حسینہ کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔“ جب کہ ڈاکٹر ناصر شہرزاد کو اپنے ملک اور ملک سے باہر کی عورتوں کی نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ شہر زاد نہ صرف فکشن کی طلسمی طاقت کی نمائندہ ہے بلکہ وہ ادب کے ذریعے کٹھور اور قاتل پدرشاہی نظام کو بدلنے کا استعارہ بھی ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر بر صغیر پاک و ہند میں ایک جدید اور معتبر نقاد کے طور پر ابھرے ہیں۔ انہوں نے عالمی ادبی تحریکوں کے تناظر میں اردو ادب کی تخلیقانہ پرکھ کی ہے۔ ان کی تنقیدی تحریروں میں ایک ایسی تخلیقی سرشاری ملتی ہے جو قاری کی ذہنی بالیدگی کا باعث بنتی ہے۔ ”یہ قصہ کیا ہے معنی کا“ اگرچہ اردو زبان میں لکھی گئی تنقیدی کتاب ہے اور زیادہ تر اردو ادب کا ہی احاطہ کرتی ہے لیکن شعر و ادب کی نئی تفہیم کے حوالے سے یہ کتاب پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کا مشترکہ ادبی اثاثہ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر