وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہنگائی عام لوگوں کی آمدنی اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں تناسب کا نام ہے۔ مہنگائی کا واویلا بڑھنے لگے تو جان لیجئے کہ عام شہریوں کی آمدنی جامد ہو گئی ہے جبکہ منڈی میں اجناس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ان دنوں بھی غریب اور سفید پوش طبقہ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے۔ وسائل کم ہیں اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ 2016ءمیں افراط زر کی شرح 3.8 فیصد تھی جو پچھلے مہینے 24 فیصد کو جا پہنچی۔ مہنگائی کے اس سیلِ بلا میں ایک جنس البتہ سستی ہوئی ہے، دانشور۔ شام ہوتے ہی نئی فصلوں کے کڑوے بادام حماقت کے ڈبے پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں تو ضیاالحق اور ان کے چیلوں چانٹوں کی مہربانی سے دانشور کا لفظ گالی قرار پایا لیکن دنیا میں اکثریت کی جہالت سے منحرف دانش ایسی بے مایا چیز نہیں۔ دانش اور جنون میں ناقابل سمجھوتہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ فلسفی جارج سنتیانا نے جنون کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان لوگوں کی کیفیت کو کہتے ہیں جو اپنے مقصد کی واضح نشان دہی نہ کر پائیں تو مزید زور و شور سے ہاتھ پاﺅں مارنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف دانش ایک واضح ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے ذاتی نفع نقصان، مقبولیت یا دشنام کی پرواہ کئے بغیر اپنے ضمیر کی آواز بیان کرتی ہے۔ ابن رشد سے والٹیئر، کارل مارکس، کارل پوپراور سخاروف تک آتے آتے ایک مختصر سی فہرست ہے۔ ایک پیچیدگی یہ بھی ہے کہ مخالفت برائے شہرت اور حقیقی دانشورانہ اختلاف میں فرق کرنا آسان نہیں۔ اس ضمن میں البرٹ کامیو کا ایک جملہ بہت بامعنی ہے۔ ’گمراہ کن خیالات ہمیشہ خونریزی پر منتج ہوتے ہیں اور اس کھیل میں کسی اور کا خون بہتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ بہت سے نام نہاد دانشور جو منہ میں آئے، کہہ دیتے ہیں‘۔
پچھلی صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں پنجاب نے تین سیاسی دماغ پیدا کئے۔ ایک تو 1924 سے 1928 تک پنجاب کے گورنر میلکم ہیلی تھے جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ’تابندہ رہے یا رب ہیلی کا ستارہ/ پنجاب کی کشتی کو دیا جس نے سہارا‘۔ اس کار خیر میں لارڈ ہیلی کے دائیں بائیں دو مقامی رہنما بھی شریک تھے۔ ایک تو روہتک سے آنے والے سر چھوٹو رام تھے جو جاٹ برادری کے سرخیل تھے۔ دوسرے جالندھر سے تعلق رکھنے والے سر فضل حسین جو راجپوت شناخت رکھتے تھے۔ ہر دو حضرات خوبیوں سے خالی نہیں تھے۔ چھوٹو رام نے زرعی اصلاحات میں قابل قدر کوششیں کیں جبکہ فضل حسین نے پنجاب میں تعلیم نیز مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کا حصہ مختص کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گزشتہ ایک صدی میں پنجاب کی سیاست جاٹوں اور راجپوتوں کے دو سیاسی دھاروں کے مدوجزر کی کہانی ہے۔ اللہ کے فضل سے یہ روایت اب رانا ثنااللہ اور چوہدری پرویز الٰہی تک آ پہنچی ہے۔ رانا ثنااللہ کے فضائل بیان کرنے کا موقع بھی آئے گا۔ آج چوہدری پرویز الٰہی کے اس دانش مندانہ ارشاد پر خامہ فرسائی کی جائے گی کہ ’ووٹ کو عزت دو کا کھوکھلا بیانیہ اپنی موت آپ مر چکا‘۔ اگر پرویز الٰہی کا بیان درست ہے تو واقعی یہ جھکولے کھاتے تانگے میں بیٹھ کر سڑکوں پر ڈھول اور شادیانے بجاتے ہوئے نکلنے کی گھڑی ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے 1983 کے بلدیاتی انتخابات سے انتخابی سیاست کا آغاز کیا تھا۔ 1985، 88، 90 کے انتخابات جیت کر آٹھ برس تک پنجاب کے وزیر بلدیات رہے۔ 1993سے 96 تک پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے۔ 1997 میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنے۔ اکتوبر 99 میں نیب کی نظر کرم ان پر پڑی لیکن چوہدری صاحب فوجی آمر سے ہاتھ ملا کر مسلم لیگ ق کی گلی سے نکل گئے۔ 2002 کے انتخابات میں چھٹی مسلسل انتخابی کامیابی کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ سوال ہے کہ اگر ووٹ کی عزت کا بیانیہ کھوکھلا ہے تو 1985 سے 2018 تک پرویز الہٰی عوام سے ووٹ کے نام پر کیا مانگتے رہے؟ اگر ووٹ کی عزت اپنی موت آپ مر چکی تو پرویز الہٰی آئندہ کیا آبرو باختہ ووٹ مانگا کریں گے؟ 2007 میں پرویز الٰہی اپنے لیے وزارت عظمیٰ اور صاحبزادے مونس الٰہی کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے خواہش مند تھے۔ دربار خوشامد کے پشتینی قلم کاروں سے الٹے سیدھے کالم بھی لکھوائے گئے۔ آمریت کا ظاہری شکوہ سلامت تھا لیکن عصائے سلیمانی کو محلاتی سازشوں کی دیمک لگ چکی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی سب جانتے تھے لیکن اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل۔ پرویز مشرف اکتوبر 2007 کا صدارتی انتخابات وردی میں لڑنا چاہتے تھے۔ جانتے تھے کہ ان کا انتخابی نشان،اثاثہ اور زرضمانت یہ وردی ہی تو ہے۔ اسی تدبر کی روشنی میں پرویز الٰہی نے خوشامد کی ڈور پر مانجھا لگاتے ہوئے بیان دیا کہ پرویز مشرف کو ایک بار نہیں، دس بار وردی میں صدر منتخب کرائیں گے۔ پرویز الٰہی نے اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا۔ 29 نومبر 2007 کو پرویز مشرف للو پتو کر کے وردی سے تو نکل آئے مگر حقیقت یہ تھی کہ آنکھیں تو کھلی رہ گئیں پر مر گئی بکری۔ پرویز الٰہی کا یہی المیہ ہے۔ آخری لمحے میں ایسا کرتب دکھاتے ہیں کہ ’چھلکا سڑک پہ تھا، میری ٹانگیں ہوا میں تھیں‘ کا سین پارٹ کر دیتے ہیں۔ پرویز الٰہی کا خانوادہ 1958 کی ایوب آمریت کے ساتھ سیاست میں نمودار ہوا تھا۔ پشتینی رئیس نہیں ہیں، متروکہ املاک کے کرشمے ہیں۔ کنونشن مسلم لیگ کی چھتری تلے فاطمہ جناح کی مخالفت کی تھی۔ بھٹو سے مراسم کی راہ میں مصطفیٰ کھر حائل ہو گئے۔ آمریت کی واپسی ہوئی تو گجرات ہاو¿س کی رونق بھی بحال ہوئی۔ عمران خان نے چار سال اسپیکر کے چاہ ماروت میں معلق رکھا۔ بظاہر اب لیلائے وزارت اعلیٰ سے وصال ہو چکا لیکن چار دن کی چاندنی ہے۔ الیکشن کمیشن کی تلوار اور کم بخت بے وقعت دس متنازع ووٹوں کا طوق…. پنجاب میں ابھی ایک بڑی سیاسی کروٹ باقی ہے۔ فی الحال اٹھارہویں صدی کا احمد شاہ ابدالی ہے اور بلھے شاہ کا نوحہ…. برا حال ہویا پنجاب دا….
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر