عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصلے تحریر ہوں یا تشہیر، نوشتہ دیوار ہوں یا پس دیوار۔۔۔ نتائج سے ماورا ہونے چاہیے۔ خوف سے پناہ اور ڈر سے محفوظ رہنے کی دعائیں مانگیں یا حصار کے تعویذ باندھیں۔۔۔ بے خوف ہی اسکندر ہوتے ہیں۔
خوف ریاست کی دیواروں سے لپٹا ہو تو دلیری سوال بن جاتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ دلیرانہ فیصلوں کے لیے بھی نتائج سے بے پرواہ اور نڈر لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیانتداری بے خوف بناتی ہے۔ یہی وہ بُنیاد ہے جس کی کمی اس وقت محسوس کی جا رہی ہے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں نہ صرف ’بیرونی فنڈنگ‘ سامنے آ چکی ہے بلکہ انڈیا اور امریکہ سے فنڈنگ کے شواہد بھی سامنے آ گئے ہیں۔ عمران خان صاحب کا بیان حلفی جھوٹا قرار پایا ہے، بات الزام سے آگے نکل گئی ہے۔
کل تک جو جماعت دوسروں پر چوری کا محض الزام لگاتی تھی اُس کا اپنا بیان حلفی جھوٹا ثابت ہوا۔ اب گیند حکومت اور عدالت کے کورٹ میں ہے کہ وہ صداقت اور امانت کی سند واپس لیتی ہے یا نہیں۔
ممنوعہ غیر ملکی چندے پر کھڑی جماعت کیا اب بھی غداری اور چوری کے سرٹیفیکیٹ بانٹے گی اس کا فیصلہ اداروں اور حکمرانوں کو کرنا ہو گا۔ بہرحال چیف الیکشن کمشنر نے بے پناہ دباؤ اور خوف کو مات دے دی ہے۔
یہ غیر معمولی حالات ہیں، غیر معمولی واقعات ان غیر معمولی حالات پر حاوی ہو سکتے ہیں۔ وطن عزیز میں گزشتہ چند سال میں جو فیصلے کیے گئے اُنھوں نے ملک کو تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے۔ یوں تو گزشتہ پچھتر برسوں سے ملک تجربوں سے گُزر رہا ہے تاہم اب تجربے ملک سے گزرتے ہوئے سانحے بن رہے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے اداروں کی سیاست میں مداخلت اور خود کو ریاست کے اعلیٰ عہدے پر فائز کر کے حکومت پر بے تاج حکمرانی کا جو تجربہ حال ہی میں ہائبرڈ رہ کر کیا گیا اُس نے ملک کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔
اداروں میں میرٹ کی بجائے ذاتی مفاد کو قومی مفاد اور شخصی عناد کو قومی وقار بنا کر جس طرح پیش کیا گیا اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔
اس کی ایک مثال سابق چئیرمین نیب کی تعیناتی ہے۔ خوف کے ہتھیار سے جس طرح انصاف اور احتساب کا قتل ہوا اُس کی جیتی جاگتی مثال ایک بے بس عورت کی صورت آج بھی ویڈیو کہانیوں میں موجود ہے۔
کیا کوئی ایسا معاشرہ بھی دیکھا ہے جہاں سائلہ کو انصاف کے نام پر یرغمال بنا کر احتساب کو ہی ڈرایا گیا ہو۔ اخلاقی کمزوری، خوف کا خول چڑھا کر احتساب کو انتقام بناتی رہی اور حکمران ریاست مدینہ کے نام پر کوفہ سجاتے رہے۔
یہ صرف ایک ادارے کے بپتا ہے، آج کوئی بھی اینٹ اُٹھائی جائے تو اس کے نیچے وہ وہ فائلیں، ویڈیوز اور آڈیوز دفن ہیں جو انصاف، احتساب اور نظام کی بنیادیں ہلانے کو کافی ہیں۔
عدلیہ کے حالیہ فیصلوں اور اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم اُسی لڑائی اور محاذ آرائی کا شاخسانہ ہے جو ذاتی اور شخصی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح کا باعث بن رہی ہے۔ اب بھی اگر اعلیٰ ججوں کی تعیناتی میں میرٹ کا خیال نہ رکھا گیا تو نظام کو گرنے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔
سیاستدان تقریروں میں سچ بتانے اور سچ سامنے لانے کا اعلان تو کرتے ہیں مگر خوف کا شکار ہیں اور اُس خوف سے باہر نکلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک ایک تجربے کے نتیجے میں جس معاشی بحران کا شکار ہوا ہے کیا مناسب نہ ہو گا کہ سچ سامنے لایا جائے۔
ادارے اور معاشرہ جس وجہ سے تقسیم در تقسیم ہو رہا ہے، ضروری ہے کہ اُسے روکنے کے لیے سچ سامنے لایا جائے۔ فسطائیت کو روکنے کے لیے جمہوریت، میرٹ پر فیصلے اور خوف سے آزادی بھی ضروری ہے۔
کیا وقت نہیں آ گیا کہ پچھتر سال کی نہیں تو کم از کم گزشتہ چار سال کا سچ ہی سامنے لے آیا جائے۔
موجودہ پارلیمان ملک کی معیشت، سیاست اور سماج کے ساتھ ہونے والی گہری سازش پر سچائی کمیشن تشکیل دے اور پچھتر سال سے ہونے والی سازش کا سراغ ڈھونڈنے کا کمیشن بنائے مگر اُس کے لیے خوف سے آزاد باغیوں کو ڈھونڈیں جن کی دیانت خوف سے آزاد ہو۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر