دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ناول زندیق بارے رائے||ڈاکٹر مجاہد مرزا

انسان دوستی اپنی جگہ مگر کیریرزم اپنی جگہ وہ بس ایسا ہی تھا، اس نے کیریر کو فوقیت دی اور باقی ساری سوچیں اضافی ہو گئیں۔ شہناز جب بیوی بنتی ہے یا کشمیری بنتی ہے تو وہ بھی مرد بن جاتا ہے یا فوجی افسر بن جاتا ہے۔ اسے شہناز کا کہا غلط لگتا ہے اور اپنا رویہ درست۔ ایک لمحہ کو دوسرے فریق کو سپیس دیتا ہے مگر اپنی ذات اول ہوتی ہے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناول زندیق بارے رائے
ڈاکٹر مجاہد مرزا
لوگ فحش فلمیں کیوں دیکھتے ہیں؟ بہت سی نفسیاتی ، سماجی وجوہ کے علاوہ ایک بصری وجہ بھی ہے کہ اپنی جنسی زندگی کے بہت سے ایسے زاویے ہوتے ہیں جنہیں انسان خود نہیں دیکھ سکتا جیسے اگر اپنی پشت دیکھنی ہو تو آئینے کی مدد لے کر گردن کو درد پہنچنے کی حد تک موڑ ماڑ کے بھی پوری طرح نہیں دیکھا جا سکتا لیکن اگر فلم بنی ہو تو کوئی بھی اپنی کمر کو بغور دیکھ سکتا ہے ، اگر چاہے تو۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ دوسروں کی کرنی میں اپنی کرنی دیکھنے کے لیے متجسس ہوتے ہیں۔
ناول وسیع پیمانے پر مرتب کی ہوئی وہ فحش یعنی عیاں فلم ہوتی ہے جسے نہ صرف یہ کہ آپ لفظوں میں دیکھ اور سن سکتے ہیں بلکہ اگرچاہیں تو خود کو کسی کردار کی جگہ رکھ بھی سکتے ہیں یا کم از کم سائیڈ رول تو سوچا ہی جا سکتا ہے۔ ناول کو آپ دو سے دو سو تک کرداروں ، دو میٹر سے دس ہزار کلومیٹر تک کے علاقہ یعنی مکان میں مکمل، اگر اس کے اختتام کو مکمل کہا جا سکتا ہو، کرتے ہیں۔ مکان کے علاوہ زمان کو بھی وہیں تک کھینچا جا سکتا ہے جہاں تک کا علم موجود ہے، چاہیں تو اس سے پہلے کے زمانوں کو بھی فرضی طور پر سوچ لیں۔
ناول زندیق کا ایک کردار ہے ثناٗاللہ جس کی ماں نے اسے میراجی یعنی ثناٗاللہ ڈار کی نظمیں سنائی بلکہ ازبر کروائی تھیں۔ وہیں سے اس کے دماغ کی بس کوئی ایک گھنڈی گھوم گئی تھی البتہ اس کی باقی دماغی ساخت بالکل دنیا داروں کی سی رہی۔ وہ تعیش پرست یعنی ہیڈونسٹ نہیں تھا مگر تنوع سے تلذذ کشید کرتا تھا۔ وہ منشیات کا عادی نہیں تھا لیکن نشہ آور مواد سے کیف، تخئئل اور تکلیف کا سامان کرنے کو بھی پسند کرتا تھا۔ ان سب کے باوجود وہ تھا ہندوستان کا مایہ ناز فوجی افسر اوپر سے لبرل مسلمان والد اور لبریٹڈ ہندو ماں کا فرزند۔
ناول کی کہانی اس کے گرد ہی گھومتی ہے جبکہ باقی کرادار سارے کے سارے اضافی ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی جیسی چاہیں بسر کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ایک ذہین معمر مگر طرحدار خاتون پرسنا نے ثناٗ کو بدن شناسی کی راہ دکھائی اور چند روز بعد مر گئی۔ اب یہ انیتا، عارفہ سے ملتا ہے۔ شہناز اور شاہین سے ملتا ہے۔ بادوشاہ سے ملتا ہے۔ بسنت اور مقبول سے دوستی کرتا ہے۔زندگی اور ماورائے زندگی کے تمام پہلو یعنی جتنے اس کے لیے ممکن تھے یا اس کے مقدر میں لکھے تھے سہتا ہے، ان میں رہتا ہے۔ داخل ہوتا ہے نکلتا ہے۔
انسان دوستی اپنی جگہ مگر کیریرزم اپنی جگہ وہ بس ایسا ہی تھا، اس نے کیریر کو فوقیت دی اور باقی ساری سوچیں اضافی ہو گئیں۔ شہناز جب بیوی بنتی ہے یا کشمیری بنتی ہے تو وہ بھی مرد بن جاتا ہے یا فوجی افسر بن جاتا ہے۔ اسے شہناز کا کہا غلط لگتا ہے اور اپنا رویہ درست۔ ایک لمحہ کو دوسرے فریق کو سپیس دیتا ہے مگر اپنی ذات اول ہوتی ہے۔
کسی بھی ناول میں میں اور آپ نہ تو ساری دنیا دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سارے انسانوں کی سوچ کے زاویے مجھ اور آپ پر کھل سکتے ہیں مگر کردار اپنے آپ کو دکھا جاتے ہیں جن سے مماثل آپ خود ہوں یا کسی اور پر ان کا انطباق کریں وہ آپ کے سامنے کھلتے محسوس ہوتے ہیں۔ تو زندیق پڑھنے والا اگر فلسفہ وجودیت سے ناشناس ہے یا اس نے وجودیت پسند ادیبوں کی مغربی تحریریں نہیں پڑھیں تو اسے یہ ناول گھمچال ہی لگے گا مگر جس نے یہ سب پڑھا ہو اس کے لیے یہ ناول مزیدار ہے۔
کشمیر اور بلوچستان کے معاملات سے لے کر جرمنی میں ہٹلر کی یہود دشمنی تک، دہشت گردی کے پیچ و خم سے لے کر انتہاپسندی کی نفسیات تک جس جس کا بھی رحمان نے احاطہ کیا کم از کم مجھے ایسا لگا کہ وہ چاہے ایک اچھے کہانی کار نہیں ہیں مگر ایک اچھے صحافی اور محقق ضرور ہیں۔
پھر چونکہ ناول کے نسخہ پہ لکھا ہے کہ اس کے لیے جرمنی کی کسی این جی او نے گرانٹ دی تھی شاید اس باعث ہولوکاسٹ کے پروپیگنڈہ کے پہلو کو سامنے رکھا گیا اور فراموش کر دیا گیا کہ اتحادیوں نے کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے تھے۔ ڈریسڈن میں کارپٹ بمباری کرکے سارے شہر کو پگھلا دینے ، جس میں ایک دن رات میں اڑھائی لاکھ انسان مرے تھے، سے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر جوہری بم پھاڑنے تک کو ایک طرف نہیں رکھا جا سکتا۔
ہولوکاسٹ میں ڈرامائی پن ویسے بھی زیادہ ہے چونکہ جرمنی اور اس کے زیر قبضہ علاقوں میں اس قدر بم برسائے گئے تھے کہ انفراسٹرکچر برباد ہو گیا تھا۔ اغذیہ اور ادویہ کی کمی سے بھی بہت زیادہ لوگ مرے تھے۔ برائی البتہ ہر جانب سے برائی ہے۔ انسان نہیں مرنے چاہییں نہ ہی انسانوں پہ ظلم کرنا روا ہے مگر اتحادی بہر طور فاتح تھے جنہوں نے واقعات کی تاریخ لکھی۔
“ مہبل کے داخلی اور بیرونی لبوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چومنے “ جیسی ہمارے ہاں مانی جانے والی فحش نگاری اور مذاہب کو ادھیڑ کر رکھ دینے کو بنیاد بنا کر اس ناول پر پاکستان میں پابندی کیوں نہیں لگی، میں حیران ہوں۔ شاید سنسر والے اتنا ضخیم اور غیر دلچسپ، ان کی نظر میں ناول پڑھنے کا تردد کرتے ہی نہیں۔ رحمان نے جہاں اردو کے دقیق لفظ لکھے ہیں وہاں ہندی اردو بھی استعمال کی ہے جیسے فوٹو نکالنا اور اس کو لے کر وغیرہ۔ خیر یہ کوئی نقص نہیں ہے۔ مجھے تو ناول اچھا لگا تبھی تو یہ سب لکھ ڈالا۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author