ان کی ساری محنتیں، ریاضتیں، عبادتیں صرف اسی مقصد کے لیے تھیں کہ انصاف ہو اور انصاف پانے والا جو بھی ہو وہ ملک ریاض کے پرائیویٹ جہاز میں بیٹھ کر اپنی منزل پر پہنچے۔ باقی پوری قوم بارش میں بھیگتی، موٹر سائیکل سڑک پر لٹائے اور دو چار قطرے پیٹرول کے لیے دعا کرے۔
محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے بچپن سے پہلے پاکستان میں ایک مشہور فلم بنی تھی، وہ فلم تو نہیں دیکھی لیکن اُس کا ایک ڈائیلاگ ہمیں سُنایا جاتا تھا کہ ایک چور چوری کرنے کے لیے کسی کے گھر میں گُھستا ہے، واردات کے دوران کہیں قریب سے آذان کی آواز آتی ہے، چور وہیں پر مصلیٰ بچھا کر نماز پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔
نماز کے بعد چور کے ایمان سے متاثر ہو کر اہلِ خانہ پوچھتے ہیں چور صاحب یہ کُھلا تضاد نہیں ہے۔ چور کہتا ہے کہ نماز میرا فرض ہے اور چوری میرا پیشہ ہے۔ یہ فلم کا ڈائیلاگ تھا، ہم نے تقریباً اسے اپنا قومی نصب العین بنا لیا ہے۔
یہ ڈائیلاگ اس وقت یاد آیا جب کراچی کی دل دہلا دینے والی بارش میں سڑک کے ایک سگنل پر ایک نوجوان کو موٹر سائیکل لٹائے ہوئے دیکھا۔ پہلے یاد آیا کہ ہم بھی اپنی جوانی میں جب چلتی موٹر سائیکل میں پٹرول ختم ہو جاتا تھا تو اسے فٹ پاتھ پر لٹا کر بیٹھ جاتے تھے اور امید کرتے تھے کہ کہیں سے پائپ میں بچے دو، چار قطرے پٹرول انجن تک پہنچ جائے گا، موٹر سائیکل چل پڑے گی اور کم ازکم اگلے پٹرول پمپ تک پہنچ جائے گی۔
کراچی کی بارش میں موٹر سائیکل کو لٹائے شخص کو کچھ ایسی امید بھی نہ تھی کیونکہ جیب خالی تھی اور بارش میں کام پر جانے کے لیے نکلا تھا کہ کام پر پہنچ گیا تو مزدوری ملے گی جس سے اور پٹرول ڈلوا کر واپس گھر جا سکے گا۔
میں نے صحافیانہ تجسس سے پوچھ ڈالا کہ آخری پٹرول کتنے کا ڈلوایا تھا، اس نے کہا ساٹھ روپے کا، میں نے کہا تصدیق کے لیے چالیس روپے کا بھی ڈلوا کر دیکھو۔ پٹرول پمپ کے مزدور دردمندانہ دل رکھتے ہیں حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے، ڈال دیتے ہیں، پٹرول پمپ کی نال ٹینکی میں تھوکتی ہے اور پھر بند ہو جاتی ہے۔
اس بارش میں جب میرا شہر کراچی ’ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں‘ گُنگنا رہا تھا ٹی وی پر ٹکر چلا کہ ایک بڑے منصف نے فرمایا ہے کہ ہم اپنا کام عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہ بھی یاد آیا کہ ہم ڈوبیں یا بچیں قوم کی نظر میں یا کم ازکم ہمارے میڈیا پر ایک گھمسان کا رن چل رہا ہے جس میں یہ فیصلہ ہونا ہے کہ پنجاب کا حکمران ’پرانے چوروں کا بیٹا‘ بنے گا یا ’ڈاکوؤں کا باپ‘۔
قانونی اور آئینی دلائل سر سے گزر گئے لیکن کام اور عبادت والی بات ذہن میں اٹک گئی۔
سوچا اگر یہ کام کو عبادت کی طرح کرتے ہیں تو کیا عبادت کام کی طرح کرتے ہوں گے۔ کام کو کام کی طرح کرنے سے کس مذہب نے منع کیا ہے۔
اگر یہ سارے کام عبادت ہی ہیں تو ایک بےگناہ کو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے اور بعد میں کتنے نفل پڑھنے سے کام عبادت بن جاتا ہے۔
آدھی رات کو عمران خان کو گھر بھیجنے کے لیے کتنے منصفوں کی تہجد قضا ہو گئی ہو گی اور اب اس کے کفارے کے لیے کتنے سجدے اور کرنے پڑیں گے۔
ہمارے ملک کے زیادہ تر بالغ لوگ بلکہ کروڑوں بچے بچیاں بھی یا کام کرتے ہیں یا کام کی تلاش میں رہتے ہیں، عبادت بھی وہ نہیں کرتے جن کو مزدوری سے فرصت نہیں ملتی۔ میں نے کسی کو یہ دعویٰ کرتے نہیں سُنا کہ میری مزدوری کو ہی میرا سجدہ سمجھو۔
یہ وقت بھی گزر جائے گا لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ جب سفید پوش لوگ بچوں کو سکولوں سے نکلوا رہے تھے کہ فیس کے پیسے نہیں ہیں، جب سیلاب میں گھرے لوگ ویڈیو بنا کر اپنے بچے دکھانے پر مجبور تھے کہ کوئی آ کر ہمیں بچائے، جب کوئٹہ کے بیچ میں ایک خیمے میں پردہ دار بچیاں صرف یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ کوئی سرکاری اہکار، کوئی سیاستدان، کوئی نرم دل رکھنے والا خفیہ ادارے والا آ کر انھیں یہ بتا دے کہ ان کے گھر والوں کو کیوں اغوا کیا گیا تو ہمارے ملک کے سب سے طاقتور سب سے سیانے لوگ اس بحث میں مصروف تھے کہ ہمارے سب سے بڑے صوبے کا تاج ایک ’چور‘ کے سر پر رکھا جائے یا ’ڈاکو‘ کے۔
ان کی ساری محنتیں، ریاضتیں، عبادتیں صرف اسی مقصد کے لیے تھیں کہ انصاف ہو اور انصاف پانے والا جو بھی ہو وہ ملک ریاض کے پرائیویٹ جہاز میں بیٹھ کر اپنی منزل پر پہنچے۔ باقی پوری قوم بارش میں بھیگتی، موٹر سائیکل سڑک پر لٹائے اور دو چار قطرے پیٹرول کے لیے دعا کرے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر