مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن گئے||ظہور دھریجہ

چوہدری پرویز الٰہی نے (ق) لیگ کی طرف سے وسیب کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک بھی شروع کی اور ملتان سمیت وسیب کے دیگر شہروں میں بڑے بڑے جلسے کئے،

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کالعدم قراردیتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب قرار دیدیا، گورنر کے انکار کے بعد صدر عارف علوی نے چوہدری پرویز الٰہی سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف پی ڈی ایم رہنمائوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پنجاب کی منتخب حکومت کو گھر بھیجا گیا، دوسری طرف عمران خان نے نہ صرف یہ کہ فیصلے کو سراہا بلکہ فیصلے کے حق میں جشن منانے کا اعلان کیا، جیسا کہ میں نے گزشتہ روز کے کالم میں لکھا کہ فیصلہ عمران خان کے خلاف آیا تو (ن) لیگ اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے جشن منایا، آج وہ احتجاج کر رہے ہیں اور عمران خان جشن منا رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ پی ڈی ایم کے خلاف فیصلہ آنے پر پی پی کے فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کئے جائیں ،بلاول بھٹو او رمریم نواز نے اس بیان کی حمایت کی، عجب بات ہے کہ جب پی ڈی ایم کے حق میں فیصلہ آیا تو اس طرح کی کوئی تجویز سامنے نہ آئی؟،اس سیاسی کلچر کو ختم ہونا چاہئے، اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہئے۔ عدالتی جنگ جیتنے کے بعد بالآخر چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن گئے ، مشرف دورمیں انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ پانچ سال پورے کئے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی موجودہ وزارت اعلیٰ سال سوا سال کی مدت پوری کرتی ہے یا پھر سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی طرف جاتی ہیں۔ پرویز الٰہی کے پچھلے دور میں بہت سے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے، ریسکیو 1122 کا صوبے کیلئے خاص تحفہ تھا ، سرائیکی وسیب کیلئے ملتان میں کارڈیالوجی ہسپتال بنایا گیا ، وسیب کے لوگ آج بھی دعائیں دیتے ہیں، ملتان میں صحافی کالونی بھی ان کے دور میں ملی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے (ق) لیگ کی طرف سے وسیب کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک بھی شروع کی اور ملتان سمیت وسیب کے دیگر شہروں میں بڑے بڑے جلسے کئے، اب ان کو موقع میسر آیا ہے کہ صوبے کا وعدہ (ق) لیگ کے منشور میں بھی شامل ہے اور تحریک انصاف کے منشور میں بھی۔ ان کو چاہئے کہ مختصر وقت میں اس اہم مسئلے کو آگے بڑھائیں ، اگر (ن) لیگ ، پیپلز پارٹی یا پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں مخالفت کریں گی تو آئندہ الیکشن میں وسیب کے ووٹروں کا سامنا نہیں کر سکیں گی اور اگر وہ حمایت کریں گی تو قومی سطح کے اتنے بڑے کام کا کریڈٹ عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی کے حصے میں آئے گا اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ چوہدری خاندان میں کبھی دراڑ یا رنجش پیدا نہیں ہوئی ، پہلا موقع ہے کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے راستے جدا ہو چکے ہیں، چوہدری خاندان کی اکثریت کا کہنا ہے کہ تفریق پیدا کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ چوہدری طارق بشیر چیمہ کا ہے، چوہدری طارق بشیر چیمہ عمران خان کی کابینہ میں بھی اقتدار کے مزے اڑاتے رہے اور موجودہ کابینہ کے بھی وفاقی وزیر ہیں، اصول کہاں گئے؟۔ چوہدری پرویز الٰہی کے سیاسی پس منظر کو دیکھتے ہیں تو انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز 1983ء میں ضلع کونسل گجرات کے چیئرمین کی حیثیت سے شروع کیا، 1999ء میں گرفتار ہوئے، 2002ء کے الیکشن میں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ 2008ء کے الیکشن میں انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست سے کامیابی حاصل کی، 2013ء کے الیکشن میں بھی وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، 2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقہ سے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں صوبائی اسمبلی کے حق میں چھوڑ دیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی جس کے نتیجے میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے چوہدری پرویز الٰہی کو سپیکر پنجاب اسمبلی کے لئے مشترکہ امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا ۔ عمران خان پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ان کے پاس وزارت اعلیٰ کا کوئی دوسرا امیدوار نہیں تھا کہ دس نشستوں والے چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ دیدی گئی، دیکھا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے نامزد کرنے سے پہلے پی ڈی ایم نے خود چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کی آفر کی تھی، سارے معاملات آصف زرداری نے طے کرائے تھے ،(ن) لیگ کی طرف سے ہچکچاہٹ آئی تو چوہدری پرویز الٰہی کو عمران خان نے آفر کر دی، اس کے بعد وزارت اعلیٰ کے مسئلے پر اس قدر جھگڑے ہوئے کہ پارلیمانی تاریخ کا ایک سیاہ باب رقم ہو گیا۔ تھوڑا پس منظر میں جائیں تو منظور وٹو اور عارف نکئی وزیر اعلیٰ بنے حالانکہ ان کے پاس معمولی نشستیں تھیں، پیپلز پارٹی مخدوم الطاف کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی تھی اور وہ وزارت اعلیٰ کے قریب پہنچ ہی چکے تھے مگر اصل حاکم راضی نہ ہوئے ، مخدوم الطاف باہمت، باصلاحیت ،وضعدار اور ایماندار آدمی تھے، افسوس اس بات کا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ تو نہ بن سکے البتہ کابینہ میں سینئر وزیر تھے اور رات کو سوئے پھر نہ اٹھ سکے، ان کی غیر طبعی موت کا مسئلہ آج تک معمہ ہے ۔ وفاداریاں تبدیل کرنے کا کلچر بہت پرانا ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد کچھ روک تھام ہوئی مگر اب بھی ارکان اسمبلی اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں، سیاسی بحران منحرف ارکان کے باعث پیش آیاتھا، منحرف ارکان ڈی سیٹ ہوئے اور خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی الیکشن بھی کرائے گئے۔ اب پی ڈی ایم مطالبہ کر رہی ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کے خط کو اس طرح اہمیت دی جائے جس طرح عمران خان کے خط کو دی گئی، بہرحال جو بھی کر لیں وفاداریاں تبدیل کرنے والے وفاداریاں تبدیل کرتے رہیں گے ۔

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: