نور الہدیٰ شاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک ہی ایسا محسوس کیا ہے میں نے!
بالکل ہی اچانک!
ورنہ لمحہ بھر پہلے تک تو مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں دنیا کے اسٹیج پر اپنی بھرپور پرفارمنس کے ساتھ کھڑی ہوں اور کھچا کھچ بھرے ہال میں سب کی نگاہ مجھ پر ہے اور تالیوں کی ایک گونج ہے جو مجھے اڑائے لیے جا رہی ہے!
مگر ابھی ابھی، اس لمحۂ موجود میں مجھے احساس ہوا ہے کہ میں تو پچھلے ایک عرصے سے اسٹیج پر ہوتے ہوئے بھی دراصل پردے کے پیچھے بٹھائی جا چکی ہوں!
اپنا کردار ادا کر چکنے کے بعد اسٹیج پر موجود رہتے ہوئے بھی پردے کے پیچھے بے سبب بیٹھے رہنا اور محض تماشا ختم ہونے کا انتظار کرنا، بالکل ایسا ہی ہے جیسے مردہ جسم آخری رسومات کے انتظار میں رکھا ہو!
یوں بھی چونکنے سے پہلے ہم اکثر یہ جان ہی نہیں پاتے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں! ؟
کہ ہم خود اسٹیج پر برپا تماشے کا حصہ ہیں یا ہال کے ہجوم میں موجود محض ایک بے چہرہ تماشبین، جس کا کام سوچے سمجھے بنا محض تالیاں بجانا اور داد دینا ہے!
یا پھر ہم کب سے اسٹیج کے سیاہ پردے کے پیچھے بیٹھے ہیں اور ہمیں اب خبر پڑی ہے!
سیاہ پردے کے پیچھے، جہاں سے نہ آڈیئنس دکھ رہی ہوتی ہے اور نہ اسٹیج پر تماشے کے کردار!
اسٹیج کے سیاہ پردے کے پیچھے تو کرداروں کے مکالمے بھی بس بھن بھن کی مانند سنائی دیا کرتے ہیں!
پتہ ہی نہیں چل رہا ہوتا کہ کون کیا کہہ رہا ہے اور کس سے مخاطب ہے!
بس جیسے مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں!
جیسے بہت سارے بھنورے پورے باغ کا رس چوس رہے ہوں!
یا جیسے بہت سارے کتے آپس میں الجھ پڑے ہوں اور مشترکہ شکار کو بھنبھوڑتے ہوئے ایک دوسرے پر غرا رہے ہوں!
مگر تالیوں کی گونج ثابت کر رہی ہوتی ہے کہ کھیل تماش بینوں کی پسند کے مطابق چل رہا ہے!
تم کہو، ایسے منظر میں کبھی بیٹھے ہو!
ایسا منظر، جو منظر ہے ہی نہیں!
ایک اندھا منظر، جو انسان کی بینائی کو نابینا بنا دے
گھپ اندھیرے جیسا ایک سیاہ پردہ آدمی کو روک رکھے کہ دنیا کے اسٹیج پر بس اتنا سا ہی کردار تھا تمہارا اور اب دوبارہ اسٹیج پر پرفارم کرنے کے لیے تمہاری باری نہیں آنی!
اب صرف یہ انتظار کرنا ہے کہ کب اسٹیج کے سامنے کا پردہ گرتا ہے اور کب اسٹیج پر برپا تماشا ختم ہوتا ہے!
جب آپ اپنا کردار ادا کر کے تماشا ختم ہونے کے انتظار میں پردے کے پیچھے جا بیٹھتے ہیں تو اچانک بگ بینگ کی طرح پہلی بار آپ پر یہ راز بھی فاش ہوتا ہے کہ اسکرپٹ میں آپ کا کردار لکھا ہی نہیں گیا تھا!
دراصل ڈائریکٹر کو اہم کرداروں کی آمد کے درمیان پانچ منٹ کا وقفہ بھرنا تھا اور اس نے محض پانچ منٹ کے لیے!
جی ہاں فقط پانچ منٹ کے لیے آپ کو اسٹیج پر آڈیئنس کے سامنے پیش کر دیا تھا!
آپ کا تو مکالمہ بھی نہیں لکھا گیا تھا اسکرپٹ میں!
وہ جو پرچی پر لکھ کر دیے گئے چند بول شدید گھبراہٹ اور عجلت کے عالم میں آپ نے اسٹیج پر پانچ منٹ کے لیے کھینچ لیے تھے اس نے آڈیئنس کو تالیاں بجانے پر اس لیے مجبور کیا تھا کہ ان الفاظ کا کوئی سر پیر سرے سے تھا ہی نہیں، اس لیے آڈیئنس اسے فلسفہ سمجھی تھی!
اور ابھی آپ کے بے تکے مکالمے پر تالیاں بج ہی رہی تھیں کہ ڈائریکٹر نے آپ کو پردے کے پیچھے چلے جانے کا اشارہ دے دیا!
کہ اہم کرداروں کی آمد کا وقت ہو چکا تھا!
اوہ میرے خدا!
اتنی جلدی!
ابھی تو پانچ منٹ مکمل بھی نہ ہوئے تھے!
آخری مکالمہ بھی ادھورا رہ گیا تھا!
مگر آپ کو پردے کے پیچھے بھیج دیا گیا!
میں بھی اب اس سیاہ، دبیز پردے کے پیچھے بیٹھی کسی نابینا کی طرح بقایا تماشے کو بھنبھناتی آوازوں کے ذریعے دیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں اور خود کو یقین دلا رہی ہوں کہ جو آوازیں میں سن رہی ہوں، وہ انسانی کرداروں کی ہی آوازیں ہیں!
کہ سیاہ پردے کے دوسری طرف اسٹیج پر ابھی تک انسانی بستی ہی سجی ہوئی ہے، جنگل نہیں ہے!
یہ دبیز، سیاہ پردہ تو ہوتا ہی اس لیے ہے کہ سامنے کی آڈیئنس کو یہی دنیا کی آخری حد محسوس ہو!
کہ جیسے اس کے پیچھے کچھ بھی نہیں ہے!
کچھ۔ بھی۔ نہیں۔ فقط لامتناہی خلا ہے!
یہ سیاہ دبیز پردہ تماش بینوں کی بینائی کو محدود کر دیتا ہے اور وہ لاشعوری طور پر یقین کرلیتے ہیں کہ جو بھی کچھ ہے، یہی تماشا ہے!
میں بھی اب اس خلا کی مانند ”کچھ بھی نہیں“ کے پیچھے موجود ہوں!
اور مجھے اسٹیج سے ایسا سنائی دے رہا ہے، جیسے بے شمار کوے کائیں کائیں کر رہے ہیں اور لوگ کائیں کائیں کی آوازوں پر تالیاں پیٹ رہے ہیں!
کہیں ایسا تو نہیں کہ اسٹیج پر انسانی کرداروں کی جگہ کووں نے لے لی ہے؟
ابھی ابھی جیسے گدھا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا اسٹیج پر سے گزر گیا ہے اور مجھے لوگوں کی واہ واہ سنائی دے رہی ہے!
کیا لوگ انسانی کرداروں سے زیادہ گدھے کی آواز میں معنی پانے لگے ہیں!
اور یہ جو زلزلے کی مانند اسٹیج لرز لرز اٹھا ہے!
جیسے اسٹیج پر سے بہت سے ہاتھی پھنکارتے ہوئے گزر رہے ہوں اور لاتعداد انسانی جسم ہاتھیوں کے پیروں تلے روندے جا رہے ہوں!
مگر لوگ تو قہقہے لگا رہے ہیں!
لوگ شاید ہاتھیوں کے پیروں تلے انسانی جانوں کے روندے جانے کو مزاح سمجھ رہے ہیں!
تبھی شاید پس پردہ موسیقی ایسی ہے، جیسے لاتعداد گدھ پھڑپھڑاتے ہوئے انسانی لاشوں پر اتر رہے ہوں!
شاید اب انسانی آہ و بکا اور آخری سانسوں کی سرسراہٹ ہی موسیقی سمجھی جاتی ہو!
شاید انسانی روح کو اب یہی غذا درکار ہو!
تبھی تو تماشبین اور بھی شدت سے تالیاں پیٹ رہے ہیں!
اور قہقہے بھی لگا رہے ہیں!
خدا جانے اسٹیج پر جاری تماشا طربیہ ہے یا المیہ!
خدا جانے کیسے انسانی کرداروں کی جگہ جانوروں نے لے لی اور کیوں اسٹیج پر انسانی بستی کی جگہ جنگل بچھا دیا گیا ہے!
خدا جانے اسکرپٹ میں بھی یہی لکھا تھا یا اسکرپٹ ہی بدل دیا گیا ہے!
کچھ بھی ہے، مگر میرا کردار ختم ہو چکا ہے!
اب مجھے صرف کھیل ختم ہونے کا انتظار ہے!
اسٹیج کے سامنے کا سرخ پردہ گرنے کا انتظار ہے!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر