وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید پاسپورٹ کی عمر محض سو برس ہے۔جب پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں جنگ سے متاثر لاکھوں لوگوں کی نقلِ مکانی اور آبادکاری کا مسئلہ درپیش ہوا تو لیگ آف نیشنز کے انیس سو بیس کے ایک خصوصی اجلاس میں رکن ممالک نے اس مسئلے سے بخوبی نپٹنے کے لیے راہداری کے اجازت نامے سے متعلق طرح طرح کی تجاویز پیش کیں۔
طے پایا کہ ایک ایسی دستاویز ریاستی سطح پر متعارف کروائی جائے جسے لیگ کے تمام رکن ممالک باہم تسلیم کریں۔اس سفری دستاویز پر شہری کی تصویر اور بنیادی معلومات درج ہوں اور اس میں اتنے صفحات ہوں کہ آمدورفت کے ریکارڈ کی خاطر مہر لگانے یا تحریری نوٹ درج کرنے کی گنجائش ہو۔
یوں امریکا انیس سو چوبیس کے امیگریشن ایکٹ کے تحت پہلا ملک بنا جس نے جدید پاسپورٹ اپنایا۔ اس پہل کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کسی بھی بحران کے سبب یا بہتر زندگی کی تلاش میں سب سے زیادہ پناہ گزین امریکا کا رخ کرتے تھے۔
بھانت بھانت کے ان لوگوں کے بارے میں اندازہ نہیں تھا کہ کتنے جرائم پیشہ ہیں اور کتنے قانون پسند۔ چنانچہ نہ صرف امریکا نے اپنے شہریوں کے لیے بلکہ غیرملکیوں کے لیے بھی ایسی دستاویز کی شرط عائد کر دی جو ان کی ریاست نے جاری کی ہو۔جو بھی یہ دستاویز دکھاتا اس پر نیویارک اور سان فرانسکو سمیت کسی بھی امیگریشن کے لیے نامزد بندرگاہ یا سرحدی راہ گزر پر پہنچتے ہی آمد کا ٹھپہ لگا دیا جاتا۔ ابتدا میں آنے والوں کے قیام کی مدت غیر معینہ تھی۔ رفتہ رفتہ ویزہ جاری ہونے لگا۔
اس سے پہلے ہزاروں برس سے انسان سرحدوں کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کے عادی تھے۔ سیاحت و تفریح کے لیے بیرونِ ملک جانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ فاصلے طویل اور انجان تھے۔ اقوام ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ تر سنی سنائی معلومات رکھتی تھیں۔ تاجر طبقہ ، سرکاری عہدیدار ، ظلم و ستم کے مارے یا پھر مفرور لوگ ہی ایک ملک سے دوسرے ملک آتے جاتے تھے۔ان کے کوائف متعلقہ کوتوال یا ناظم کے پاس درج ہو جاتے اور یوں انھیں قیام اور پناہ کا حق مل جاتا۔
پاسپورٹ دراصل بیسویں صدی میں انسان کے انسان پر شکوک و شبہات اور بین الاقوامی بدظنی کی دستاویزی پیداوار ہے۔مگر پاسپورٹ پر سفر چند عشروں پہلے تک بہت آسان تھا۔ویزے کے لیے اتنے زیادہ دستاویزی ثبوت مہیا نہیں کرنے پڑتے تھے۔زبان پر زیادہ اعتبار تھا۔ اور ویزہ پیشگی لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔
پاکستانی پاسپورٹ پر انیس سو پینسٹھ کی جنگ تک سوائے سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی کیمونسٹ ریاستوں کے بھارت سمیت ہر ملک کے لیے پیشگی ویزے کے بغیر سفر کیا جا سکتا تھا۔ پینسٹھ کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے شہریوں کے لیے پیشگی ویزہ حاصل کرنے کی شرط عائد کی اور وقت کے ساتھ ساتھ شرائط میں سختی بڑھتی چلی گئی۔
انیس سو بہتر میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے عام آدمی کے لیے پاسپورٹ کے حصول کا طریقِ کار انتہائی سہل بنا دیا۔اس کے سبب خلیجی ممالک میں روزگار کے حصول کے لیے عام پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد سفر کرنے کے قابل ہوئی۔بھٹو سے پہلے عام شہری کو بین الاقوامی پاسپورٹ اتنی آسانی سے جاری نہیں ہوتا تھا۔اسے صرف حج پاسپورٹ سہل انداز میں جاری ہوتا تھا۔
انیس سو چوہتر میں پاکستانی پاسپورٹ پر ایک اضافی مہر لگنا شروع ہوئی کہ یہ دستاویز سوائے اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے ہر ملک کے سفر کے لیے کارآمد ہے۔ ( آج اسرائیل واحد ملک ہے جہاں پاکستانی پاسپورٹ پر جانے کی اجازت نہیں )۔
انیس سو اناسی میں افغان خانہ جنگی کے دوران مغربی ممالک اور ضیا حکومت میں ایک طرف یاریاں بڑھیں تو دوسری جانب انیس سو تراسی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کے لیے آن ارائیول ویزے کی سہولت ختم کر دی۔اور پھر رفتہ رفتہ یہ سہولت برادر خلیجی ممالک نے بھی واپس لے لی۔ نائن الیون کے بعد یہ بے توقیری مزید بڑھی۔ جیسے جیسے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے یا انسانی اسمگلنگ و منشیات کی گذرگاہ کا تاثر جڑ پکڑتا گیا۔ پاکستانی پاسپورٹ کا اثر بھی سکڑتا چلا گیا۔
وہ پاسپورٹ جو چالیس برس پہلے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے پاسپورٹ کا ہم پلہ تھا۔آج یہ حال ہے کہ اس پر ایک سو ننانوے ممالک میں سے صرف بتیس ممالک کے لیے بغیر پیشگی ویزے کے سفر ممکن ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش کے پاسپورٹ پر اکتالیس اور بھارت کے پاسپورٹ پر اکسٹھ ممالک کا بنا پیشگی ویزہ سفر ممکن ہے۔
پاکستان سے نیچے صرف شام، عراق اور افغانستان ہیں۔جن کے شہری علی الترتیب تیس ، انتیس اور ستائیس ممالک میں بنا پیشگی ویزے کے داخل ہو سکتے ہیں۔دو ہزار اٹھارہ کی فہرست میں ہم نیچے سے پانچویں تھے مگر ایک اور ملک نے پیشگی ویزے کی سہولت واپس لے لی اور اب ہم نیچے سے چوتھے نمبر پر ہیں۔ اور یہ رینکنگ کم و بیش دو ہزار سولہ کے بعد سے مسلسل برقرار ہے۔
پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز اس وقت اٹھائیس ممالک کے پیشگی ای ویزہ کے لیے آن لائن اپلائی کر سکتے ہیں (اینٹی گوا اینڈ باربادوس ، سورینام، بولیویا، سینٹ کٹس اینڈ نیوس ، ساوتھ تومپ اینڈ پرنسپی، ایتھوپیا ، کانگو ، ڈی آر سی ، آئیوری کوسٹ ، گنی ، جنوبی افریقہ ، زمبیا ، زمبابوے ، بینن ، کینیا ، مڈغاسگر ، روانڈا، لیسوتھو ، ملاوی ، یوگنڈا ، کرغزستان ، تاجکستان ، آذر بائیجان ، ملیشیا ، میانمار ، کمبوڈیا ، یواے ای ، بحرین )۔
بیس ممالک میں ای ویزے کے ساتھ ساتھ ویزہ آن آرائیول کی سہولت ہے ( بینن ، کینیا ، مڈغاسگر ، روانڈا ، یوگنڈا ، پالاو ، برونائی ، برونڈی ، کیپ ویردی ، کوموروز ، گنی بساو ، مالدیپ ، ماریطانیہ ، نیپال ، سیشلز ، سیرالیون ، صومالیہ ، ٹوگو ، توالو ، بولیویا )۔
جب کہ دس ممالک میں پاکستانی ویزا فری داخل ہو سکتے ہیں ( قطر ، بیلاروس ، ڈومنیکا ، ڈومینیکن ری پبلک، ہیٹی ، مائکرو نیشیا ، سینٹ ونسنٹ اینڈ دی گریناڈائز ، سمووا ، ٹرینڈاڈ اینڈ ٹوباگو ، ونوتو )۔
دل پے ہاتھ رکھ کے بتائیے گا کہ مذکورہ ویزہ فری دس ممالک میں سوائے قطر کے کتنے پاکستانی باقی نو مقامات کی سیر ، روزگار یا تعلیم کے لیے جانا چاہتے ہیں۔
جب کہ پاکستان میں پینسٹھ ممالک کے باشندے ویزا آن آرائیول کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اپنے باشندوں کے لیے ان پینسٹھ ممالک سے بھی ویزا آن ارائیول کی سہولت نہ منوا سکے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر