نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہاول نگر..زخم کے کینسر بننے کا انتظار نہیں علاج کیجئے||جام ایم ڈی گانگا

پنجاب اور سرائیکی وسیب سمیت پورے ملک میں مویشی پال حضرات کو اب تک کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے.ضلع رحیم یارخان اور بھارت کی سرحد کے ساتھ تین اضلاع میں پھیلے ہوئے روہی چولستان میں لمپی سکن کی بیماری صوبہ بلوچستان اور سندھ کے راستے وارد ہوئی ہے

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وطن عزیز پاکستان میں ایک سنگین اور بڑا بحران دستک دے رہا ہے. جی ہاں محکمہ لائیو سٹاک کی غفلت اور حکمرانوں کی مسلسل لاپرواہی سے لمپی سکن نامی بیماری بے لگام ہو کر بڑی تیزی سے پھلتی جا رہی ہے. سردست تو اس کے نقصان کا شکار مویشی پال حضرات ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں. لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رفتہ رفتہ اب اس کے منفی اثرات نے لائیو سٹاک سے وابستہ دیگر طبقات اور شعبہ جات کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے.اس کے اثرات بد سے مستقبل میں لاکھوں لوگوں کا روزگار ہونے کا خطرہ بھی موجود ہے.

ملک بھر کی طرح پورے سرائیکی وسیب میں روہی تھل دمان میں لمپی سکن بیماری کی تباہ کاریاں نہ صرف جاری ہیں بلکہ اس میں خطرناک اضافے کی خبریں آ رہی ہیں. جس کی وجہ سے پورے ملک میں جانوروں کی شرح اموات خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اگر صورت حال یہی حال رہی تو اس بات کا خطرہ ہے کہ پورے ملک میں گائے کا صفایا ہو جائے گا یا وطن عزیز گائے کے مستقبل کے حوالے کم ازکم ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو جائے گا.لائیو سٹاک سے وابستہ ایک دوست نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام متعلقہ ارباب اختیار اور ذمہ داران کو، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جانوروں میں پھیلی ہوئی بیماری لمپی سکن سے بچاؤ اور علاج کے لیے ہنگامی بنیادوں کام کرنا چاہئیے. جوکہ ابھی تک بیماری کی نوعیت اور خطرناک صورتحال کے مطابق نہیں کیا جا رہا. گائے میں پائے جانے والے اس خطرناک جلدی وائرس کے بہتر حل اور علاج کے لیے لائیو سٹاک ڈاکٹرز اور ریسرچ کے اداروں کو فنڈز فراہم کرکے حکومت ہنگامی بنیادوں پر کام کروائے۔ بصورت دیگر ملک میں پورا ڈیری سیکٹر برباد ہو سکتاہے، جس سے وہ تمام طبقات جن کی روزی روٹی ڈیری سکیٹر سے وابستہ ہیں وہ سب شدید متاثر ہوں گے پھر جس منفی اثرات آگے ہماری انڈسٹری، مارکیٹ اور معاشرے کو برداشت کرنا پڑیں گے. یاد رکھیں اگر شرح اموات مزید بڑھتی ہے جو کہ بڑھ بھی رہی پھر لمپی سکن وائرس کی جاری تباہ کاریوں کو قابو کرنا بہت ہی مشکل. ہو جائے گا. ابھی وقت کہ لمپی سکن کو عام سمجھ کر اور صرف گائے پال لوگوں کا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کرنے کی بجائے ایمرجنسی بنیادوں پر توجہ دیجئے.اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارے ملک کی لوکل نسل ساہیوال بالکل ختم ہو جائے گی.پاکستان میں لائیو سٹاک کا بہت بڑا مرکز چولستانی نسل ختم ہو جائے گی فریزین کا تو نام ہی مٹ جائے گا. اگر گذشتہ چند ماہ کے حالات کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پیوپاری حضرات کی اکثریت پہلے ہی بے روزگار ہوچکی ہے. منڈیوں میں کوئی گائے لے ہی نہیں رہا۔بیماری کی وجہ سے دودھ، مکھن اور دیسی گھی کی پیدوار پر بھی منفی اثرات نمایاں ہیں. مزید یہی رفتار رہی تو کئی دودھی گوالے بے روزگار ہو جاہیں گے. ڈیری سیکٹر سے وابستہ پورا طبقہ رل جائے گا۔سیمن کی کمپنیاں ہوں یا جانورں کی میڈیسین کی کمپنیاں دونوں کے کاروبار مستقبل میں متاثر ہوں گے. فیڈ، ونڈے، نیوٹریشن کی کمپنیاں بھی نقصان کا شکار ہوجاہیں گی دودھ کی قیمت اسمان پر پہنچ جائے گی دودھ سے بننے والی تمام مصنوعات بھی حد سے زیادہ مہنگی ہوجاہیں گی اے ائی ٹیکنیشن بے روزگار ہو جاہیں گے۔ جانورں کے ڈاکٹر بے روزگار ہو جاہیں گے ۔ملک مین ڈیری سیم سیکٹر کا اتنا بڑا بحران آئے گا جس کو سوچ کے بھی ہم خوفزدہ ہیں۔فارمر رل جائے گا۔اکیلی بھینس اپ کے ملک کی دودھ کی پیداوار کو پوری نہیں کر سکتی گائے کے بغیر اپ ڈیری فارمنگ ممکن ہی نہیں نا ہی گائے کے علاوہ کوئی جانور دودھ کی کمی کو پورا کر سکتا۔خدارا سوچیں اگر اپ کو حکومتی جوڑ توڑ سے ذرا فرصت ملے تو اس پر سنجیندگی سے سوچیں.
محترم قارئین کرام،، یقینا گائے میں پھیلی ہوئی خطرناک بیماری لمپی سکن سے صوبہ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور سرائیکی وسیب سمیت پورے ملک میں مویشی پال حضرات کو اب تک کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے.ضلع رحیم یارخان اور بھارت کی سرحد کے ساتھ تین اضلاع میں پھیلے ہوئے روہی چولستان میں لمپی سکن کی بیماری صوبہ بلوچستان اور سندھ کے راستے وارد ہوئی ہے. اگرچہ ضلعی انتظامیہ نے سندھ بلوچستان سے رحیم یارخان اور سرائیکی وسیب کی مویشی منڈیوں آنے والے جانوروں کی ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ اور نگرانی کا داخلی راستوں پر انتظام کیے رکھا ہے. مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر شخص قائد ائظم کا بے حد احترام اور قدر کرتا ہے. جعلی سرٹیفکیٹس ہوں یا نگرانی پر مامور شیر جواں کچھ نیند کے غلبے اور کچھ پیسے کے غلبے کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ نمائشی کاروائی وسختی بلاآخر وقت گزرنے پر اپنے الٹے اثرات دکھانا شروع کر دیتی ہے. جھوٹ اور بے ایمانی گویا، خون میں وائرس کی طرح پھیلی ہوئی ہے. یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز مسائل سے نکلنے کی بجائے مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے. لمپی سکن وائرس اور اس کی تباہ کاریاں یقینا محکمہ لائیو سٹاک اور ہمارے حکمرانوں کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے. ان کی کارکردگی پر، ان کی تحقیق اور تجربے پر، ان کی سوچ، فکر اور عمل کے انداز پر. فیصلے اور اقدامات وہی اچھے جو بروقت کیے جائیں. سستی، غفلت و لاپرواہی تباہی کا راستہ ہے. اس سے بچنا چاہئیے اسی میں ہی ملک وقوم اور ہم سب کی بھلائی ہے.

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

About The Author