نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاہور کا حقدار کون ؟||ملک سراج احمد

ملک جس معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے اس میں ہمیں زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ اور فہم وفراست کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔کھلے دل کے ساتھ عوامی رائے کو قبول کرنا ہوگا اور عوامی رائے کو اپنے حق میں بہتر کرنے کے لیئے اپنی پرفارمنس کو بہتر کرنا ہوگا۔انتخابی دلکش وعدوں کو حقیقت میں بدلنا ہوگا تب جا کر عوام کی نظروں میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا وقار بہتر ہوسکتا ہے

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بطور قوم شائد ہمارے نصیب میں منزل ہی نہیں ہے ۔یا شائد ہم ایک ایسی راہ کے مسافر ہیں جس ک اختتام کہیں نہیں ہے ایک ایسی راہ جس کا ہر منظر ایک سا ہے ہر موڑ پہلے جیسا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ ایک مدت سے چل رہے ہیں اور منزل کو نہیں پہنچ پارہے ۔ہمارے بدنصیبی کہ ہمارا سفر کہیں اختتام پذیر ہی نہیں ہورہا ۔اتنا بھی نہیں ہورہا کہ کہیں پر کچھ وقت کے لیے رک جائیں تھوڑا آرام کرلیں کچھ سستا لیں ۔بس چل رہے ہیں اور مسلسل چل رہے ہیں ۔بحثیت قوم اپنے سیاسی سفر کو ہی دیکھ لیں جس قدر چل رہے ہیں سفر نہیں کٹ رہا۔ اس سفر میں ہر منظر ایک سا لگتا ہے لگتا ہے کہ سیاسی سفر ایک دائرے پر مشتمل ہے ایک مدت بعد دوبارہ اسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا ہوتا ہے
1988 میں وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو پنجاب کے تخت پر میاں برادران براجمان تھے۔ایک سیاسی بحران نے جنم لیا اور تفصیل میں جائے بغیر اتنا کہوں گا کہ تین دہائیوں بعد بھی ویسا ہی سیاسی بحران تخت لاہور کی خاطر پیدا ہوگیا ہے ۔پنجاب نصف پاکستان ہے جس کے پاس تخت لاہور ہے ملک کی نبض پر اس کا ہاتھ ہے وسائل پر اس کی حقیقی حکمرانی ہے ۔وطن عزیز میں اصل اقتدار ہی پنجاب کا اقتدار ہے ۔جس کے پاس تخت لاہور نہیں چاہے اس کے پاس تین صوبے ہوں اس کے کسی کام کے نہیں ہیں۔آخر کیا ہے ایسا تخت لاہور میں جو اس کی خاطر سیاسی بحران کئی دہائیوں سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
تخت لاہور کی حقیقی سیاسی اہمیت اس کا حجم اور سیاسی برتری ہے ۔جو پنجاب جیت گیا وفاق اس کو تحفے میں ملتا ہے ۔باقی ماندہ تین صوبوں کی قومی اسمبلی کی نشستیں ایک پنجاب سے کم ہیں تو چاہے کوئی تین صوبوں میں انتخابات جیت جائے اگر پنجاب سے ہار گیا تو سمجھو وفاق سے باہر ہوگیا۔پنجاب کا غیرمنصفانہ حدود اربعہ اس کی سیاسی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے ۔شائد اسی سیاسی اہمیت کی وجہ سے پنجاب کی انتظامی اور سیاسی بنیادوں پر اب تک تقسیم نہیں ہوسکی اور شائد آئندہ بھی نا ہوسکے۔
یہی وجہ ہے کہ تخت لاہور پر ایک بار پھر سیاسی بحران جنم لے چکا ہے ۔ن لیگ پنجاب کی حکمرانی کی دعویدار ہے اور عمران خان کو اس وقت پنجاب میں عددی برتری حاصل ہے ۔فرق بہت تھوڑا سا ہے تاہم تحریک انصاف کو اخلاقی اور قانونی برتری حاصل ہے اور اس وقت پنجاب کے ہرجمہوری سوچ کے حامل انسان کی بات یہی ہے کہ تخت لاہور پر تحریک انصاف کے حق حاکمیت کو تسلیم کرلیا جائے ۔اور آئین اور قانون بھی یہی کہتا ہے کہ جس کو عوامی حمایت حاصل ہو جس کو عوام کی تائید حاصل ہو اس کو اقتدار سونپ دیا جائے ۔جمہور کے فیصلے اور جمہور کے ووٹ کو عزت دی جائے ۔عوامی رائے پر شب خون مارنے سے نا تو سیاسی فائدہ حاصل ہوتا ہے نا ہی نیک نامی حصے میں آتی ہے۔
17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے نشستیں جیت کر پنجاب اسمبلی میں عددی برتری حاصل کرلی ۔اس شکست پر ن لیگ نے فوری طورپر شکست تسلیم کرکے ایک جمہوری سوچ کا اظہار کرکے ایک اچھی سیاسی روایت کی بنیاد رکھ دی ۔مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ شکست تسلیم کرنے کے بعد پنجاب اسمبلی میں عددی برتری حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے غیر جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔مبینہ طورپر ہارس ٹریڈنگ کی جارہی ہے ۔رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں ۔
اس سارے کھیل تماشے سے عام عوام کو کیا پیغام دیا جارہا ہے ۔کیا تخت لاہور کی حکمرانی ایک ایسی چیز ہے جس کے لیئے ہر اخلاقی روایت کو پس پشت ڈال دیا جائے یا پھر خلاف آئین اور قانون اقدامات کیئے جائیں ۔کیا اس طرح سے تخت لاہور حاصل کرکے حکمرانی بھی کی جاسکے گی ۔کیا تحریک انصاف خاموش ہوکر بیٹھ جائے گی۔ویسے بھی ماضی میں ایک بار ہم یہ غلطی کرچکے ہیں کہ عددی طورپر زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت کو اقتدار نہیں سونپا تو ملک دو لخت ہوگیا کیا ہم ایک بار پھر کسی ایسے تجربے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔
حالات چاہے جیسے بھی ہوں ہمیں بہرحال قانون کی حکمرانی اور عوامی رائے کا احترام کرنا ہوگا ۔ زاتی عناد ، جھوٹی انا اور دولت کے بل بوتے پر کسی کو اس کے جائز حق سے محروم کرنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔جو اصول اور ضابطے بن چکے ہیں ان پر صدق دل سے عمل کرنا ہوگا۔عمران خان کی تحریک انصاف بھی تو اس ملک کی جماعت ہے اس کو ملنے والے مینڈیٹ کا احترام کریں گے تو کل کسی اور کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائےگا یہ بات ہر سیاسی جماعت کے قائد بشمول عمران خان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ملک جس معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے اس میں ہمیں زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ اور فہم وفراست کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔کھلے دل کے ساتھ عوامی رائے کو قبول کرنا ہوگا اور عوامی رائے کو اپنے حق میں بہتر کرنے کے لیئے اپنی پرفارمنس کو بہتر کرنا ہوگا۔انتخابی دلکش وعدوں کو حقیقت میں بدلنا ہوگا تب جا کر عوام کی نظروں میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا وقار بہتر ہوسکتا ہے ۔ملکی نظام کی خامیوں کو دور کرکے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنی ہوگی ۔یہ عوام ہے تو ان پر حکمرانی کی جاسکتی ہے۔اور آئین کے اندر دئیے گئے عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کرنا ہوگا ۔
ایسے میں ملک کے مقتدر حلقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور انتقال اقتدار کے لیے مخلصانہ کوشش کرنی ہوگی ۔فریقین کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ضروری ہے کہ ہر زمہ دار فرد اور ادارہ اپنی زمہ داری کو ادا کرئے اور ملک کو اس غیر یقینی سیاسی صورتحال سے نکالنے کے لیے کوشش کرئے ۔عوام صبر وتحمل اورسیاست دان سیاست نہیں ریاست کو بچانے کے لیئے عوام کی طرف سے دئیے گئے مینڈیٹ کے تحت اپنا کردار ادا کریں ۔تخت لاہورسیاسی طورپر ضروری ہوگا مگر اخلاقی قدروں ، آئین اور قانون اور ریاست کے استحکام سے زیادہ ضروری نہیں ہے۔

۔

————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author