ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹر ز (سی پی این ای) نے صحافیوں پر تشدد ، گرفتاریوں ، دھمکیوں اور جان لیوا حملوںکے حالیہ واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا مخالف اقدامات ، صحافیوں پر سیاق و سباق سے عاری مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں کا عمل فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔تحریک انصاف کے دور میں شعبہ صحافت شدید مشکلات کا شکار رہا، ناتجربہ کاری کے باعث صحافیوں کے لئے ناقابل عمل پالیسیاں بنائی گئیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے واجبات روک دئیے گئے، اشتہارات نہ ہونے کے برابر رہ گئے، صحافتی اداروں سے ہزاروں صحافی بیروزگار ہوئے، سب سے بڑھ کر یہ کہ صحافت کی جس شاخ پر بیٹھ کر عمران خان برسراقتدار آئے تھے عمران خان کی ناتجربہ کار ٹیم اسی شاخ کو کاٹنے پر تل گئی اور جائز تنقید کو بھی برداشت نہ کیا گیا ۔ پیکا آرڈیننس نافذ کر دیا گیا۔ اب موجودہ حالات میں صحافیوں کی گرفتاریاں قابل تشویش ہیں، ضروری ہے کہ جمہوری حکومت پیکا آرڈیننس پر اپنی پوزیشن واضح کرے، کیا ہمیں پیکا کے خلاف دوبارہ کھڑا ہونا ہے؟ پاکستان تحریک انصاف کو اسلام آباد ہائیکورٹ اور صحافتی تنظیموں کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے پیکا آرڈیننس کے کالے قانون کی مخالفت کی تھی اور پیکا ترامیم کو منظور نہیں ہونے دیا۔ وفاقی حکومت ، صوبائی حکومتیں اور ریاستی ادارے صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کریں اور صحافیوں کو دھمکانے اور حملوں میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ صحافت کو جاننے کے لیے اس کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی تاریخ کو صحافت کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت ہی حیران کن واقعات سامنے آتے ہیں۔ 1857 ء کی جنگ کے بعد بدیسی حکمرانوں نے حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ قلم کی آزادی پر بھی حملہ کیا اور آزادی کیلئے لکھنے والے اخبار اور رسائل بند کر دیئے۔ گو کہ اس زمانے میں اخبار زیادہ شائع نہیں ہوتے تھے لیکن بدیسی حکمرانوں کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ’’فارسی اخبار ‘‘ بھی برداشت نہ ہوا اور اسے بھی بند کیا جو کہ 1841 ء میں شروع ہوا تھا،۔ اس میں محض سرکاری نیوز لیٹر وغیرہ جاری ہوتے تھے۔ بند ہونے والے اخبارات میں مولانا محمدحسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر کا 1836 میں جاری ہونیوالا اردو اخبار، سرسید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خان کا 1837 میں جاری ہونے والا ’’ سید الاخبار ‘‘ بھی شامل تھا۔1857 ء میں آزادی صحافت اور اخبارات پر سب سے بڑا حملہ بدیسی حکمرانوں نے کیا ۔اس کے ٹھیک ایک سو ایک سال بعد یعنی 1958 ء میں آزادی صحافت پر اس سے بھی بڑا حملہ ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں کیاگیا جس کے باعث پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز، لیل و نہار اور سپورٹس وغیرہ پر رات کی تاریکی میں کمانڈو ایکشن کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا۔ صحافیوں پر تشدد ہوااور حکومت نے ان اخبارات کو اپنے غیر آئینی ، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ جبر کے باعث ان اخبارات اور اداروں کی کیفیت بیگار کیمپ کی مانند ہو گئی، کسی کو کسی بھی طرح کا کوئی حق حاصل نہ تھا، کام کرنے والے صحافیوںکو ڈیلی ویجز مزدورسمجھاجانے لگا۔ صحافیوں اور ملازمین نے اس پر احتجاج کیا ، ان کے دباؤ پر 1964 میں ایک خودمختار ادارہ ’’ نیشنل پریس ٹرسٹ ‘‘ قائم کیا گیا ۔ اس میں ملازمتوں کے رولزطے ہوئے، ملازمین کے معاشی مسئلے بھی حل ہوئے لیکن آزادی صحافت عنقا رہی۔ ایوب خان کے دور میں بھٹو تحریک کے خلاف سب سے زیادہ ’’ نیشنل پریس ٹرسٹ ‘‘ کے اخبارات نے لکھا، بھٹو صاحب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی اس ادارے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیا الحق آئے، صحافیوں نے ضیا کے مارشل کو خوش آمدید نہ کہا اور پھر انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ یہ ادارے بہت کمزور اور قریب المرگ ہو گئے۔ جنرل ضیا الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میاں نواز شریف نے 1997 ء میں ٹرسٹ کے اخبارات کو پرائیوٹائز کر دیالیکن ٹرسٹ کے مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی قانون سازی نہ کی گئی جس کے باعث کھربوں کی جائیداد ضائع ہو گئی اور آج بھی ہو رہی ہے ۔ ملازمین رُل گئے۔ البتہ امروز لاہور اورپاکستان ٹائمز کے ملازمین سے گولڈن ہینڈ شیک کیاگیا ، امروز ملتان کے بیشتر ملازمین کسمپرسی کی حالت میں فوت ہو گئے اور بہت سے آج بھی دھکے کھا رہے ہیں اور بہت سے ملازمین بیماری ، بڑھاپا اور غربت کے باعث بغیر علاج سسک سسک کر مر گئے ۔ صحافت پر پابندیوں کے حوالے سے تھوڑا پس منظر کی طرف جائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے 27 اکتوبر 1958ء کو آئین منسوخ کر دیا اور 1959ء کوبنیادی جمہوریت کے نئے مقام کا ڈھونگ رچایا۔ غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے خلاف میڈیا نے آواز بلند کی تو خاموش کرا دیا گیا۔ عوام کے احتجاج پر 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے اختیارات کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دئیے۔ یحییٰ خان نے ملک کو دو لخت کرا دیا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو بر سراقتدار آئے ، آزادی صحافت کے حوالے سے ان کا دور بھی خوشگوار نہ تھا۔ ان کے بعد ضیاء الحق نے تو ظلم اور بربریت کی انتہاء کر دی اور دنیا میں پہلی مرتبہ صحافیوں کو کوڑے مارے گئے۔ آزادی صحافت کے لئے صحافیوں کی عظیم قربانیاں ہیں۔ ہم ان صحافیوں کو سلام پیش کرتے ہیں جو آج بھی قربانیاں دے رہے ہیں مگر یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ آزادی صحافت کا مطلب مادر پدر آزادی نہیں ہونا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر