ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی کے تاریخی پس منظر پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ہزارہا سالوں سے مختلف شکلوں اور مختلف مذاہب و قبائل میں چلی آرہی ہے، ہمیں اپنے مذہب اسلام میں قربانی کی تاریخ سے علم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت میں عید منائی جاتی ہے، اسے بڑی عید کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے جانور کی قربانی کا حکم ہوا تو اس یاد میں ہر سال عید پر کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ ہندومذہب کی کتاب رامائن میں گھوڑوں کی قربانی کا ذکر ہے، البتہ بدھ مت اور جین مت میں کسی ذی روح کو مارنا گناہ اور پاپ ہے۔ کٹر مذہبی لوگ منہ پر کپڑا رکھتے ہیں کہ کہیں منہ میں مچھر نہ چلا جائے مگر عورت کو بے دردی سے ’’ستی‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ یہودی ’’عید فصیح‘‘ کے نام سے سات روز تک تہوار مناتے ہیں اور جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ سکھ مذہب کے لوگ ’’ہولا‘‘ کے نام سے قربانی کرتے ہیں، بھیڑیں ذبح کی جاتی ہیں قدیم یونان میں جنگ سے قبل کنواری لڑکی کی قربانی کا رواج تھا۔ قدیم ایران میں (قبل از اسلام) دیوتا کیلئے سانڈ کی قربانیوں کا ذکر ملتا ہے، میکسیکو کے لوگ زمانہ قدیم میں جنگی قیدی قربان کرتے تھے، قبل از اسلام عرب میں ’’فرع‘‘ پہلے پیدا ہونے والے بچے کو قربان کرنے کا رواج تھا۔ ہندوستان میں ٹھگ کی قربانی دینے ، کالی یا چنڈی دیوی کے سامنے مردوں کی قربانی دینے کے واقعات قدیم کتابوں میں موجود ہیں۔ کنعان میں بچوں کو قربان کرکے مرتبانوں میں سجانے کے قدیم تذکرے موجود ہیں۔ ہندوستان کے جنوبی قبائل ’’گونڈ اور ماریا‘‘ دھرتی کی زرخیزی کیلئے خوبصورت لڑکی قربان کرتے تھے۔ روم میں مفتوح سپہ سالار کی قربانی کا رواج تھا۔ ڈیانا دیوی کے معبد میں گھوڑا بھی قربان کیا جاتا۔ ’’قرطاجنہ‘‘ میں بچے کو آگ کے شعلوں میں پھینک کر ’’دیوتا مولک‘‘ پر قربان کیا جاتا۔ قربانی کے دوسرے دلخراش واقعات کے ساتھ ساتھ ایک یہ بھی ہے کہ وحشی قبائل میں خوبرو نوجوان قربانی کیلئے منتخب کیا جاتا، اس کی سال بھر خوب خاطر مدارت کی جاتی پھر اس کا بنائو سنگھار ہوتا۔ دولہے کی طرح سجایا جاتا۔ شب باشی کیلئے حسینائیں پیش کی جاتیں۔ پھر دوسرے دن اسے ذبح کر دیا جاتا۔ اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو قبل از اسلام عرب کے لوگ سال میں خوشی کے جو دو تہوار مناتے تھے ، ان میں سے ایک کا نام ’’ عکاظ ‘‘ اور دوسرے کا نام ’’ محنہ ‘‘ تھا۔ یہ تہوار ایک میلے کی شکل میں ہوتے تھے اور عرب ثقافت میں ان کا بھرپور اظہار ہوتا تھا ۔ سرکار دو عالم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے پوچھا: خوشی کے ان دنوں میں آپ کیا کرتے ہیں۔ تو عرض کیا گیا ہم کھیلتے ہیں، کودتے ہیں ‘نئے کپڑے پہنتے ہیں اور کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا ان دونوں دنوں کے بدلے دو عیدیں دی جاتی ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سرکار مدینہؐ نے اہل مدینہ کی ثقافتی تفریح کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ اس سے کہیں بہتر اسلامی ثقافتی تہوار دیئے اور اس بات کا خصوصی اہتمام فرمایا کہ یتیم مسکین اور غریب بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوں۔لیکن آج کے دور میں عملی طور پر غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے۔ دوسرے مسلمان ممالک کے ساتھ عرب ممالک میں بھی مساوات موجود نہیں، خصوصاً محنت مزدوری کیلئے جانے والے غیر عرب کو نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق حاصل نہیں بلکہ انہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ، وہ ’’ پردیسی ‘‘ کس طرح عید کریں ؟ ۔ امراء کیلئے ہر دن روز عید ہے ‘ غریب آج بھی غریب تر اور امیر آج بھی امیر تر ہو رہاہے ‘ خوراک کے گودام بھرے ہیں مگر غریب کا پیٹ خالی ہے ‘ پوری دنیا میں رائج طبقاتی سسٹم نے کائنات کے امن و سکون کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ سندھی کے عظیم شاعر شاہ عبد الطیف بھٹائی سئیں کا ایک شعر اس طرح ہے کہ ’’بکھ بچھڑو ٹول‘ دانا نہ دانا کرے‘‘ یعنی بھوک ایسا ظالم لشکر ہے جو سمجھدار کو پاگل بنا دیتا ہے ۔ بھوک کی وجہ سے ہمارے ہاں چور وں اور ڈاکوئوں سے بڑھ کر دہشت گرد پیدا ہوئے اور بھوک سے خود کشیاں تو اپنی جگہ رہیں لوگ خود کشوں کے پاس جاتے رہے، اس تمام صورت حال کے ذمہ دار امریکا، یورپ اور ہمارے ملک کے لٹیرے گروہ بھی ہیں جو بدامنی کے خلاف جہاد بھی کرتے رہے اور اپنے نا پسندیدہ کرتوتوں سے خود ہی اس کا باعث بنے، لیکن ہر بڑے ظلم کے بعد ایک انقلاب آتا ہے اور اب اگر انقلاب آیا تو اس میں غربت یا غریب میں سے ایک چیز باقی رہے گی ۔ عید کا لغوی معنی خوشی ہے، خوشی احساس کا نام ہے۔احساس یہ ہے کہ سرکار آقائے نامدار ﷺ عید پڑھنے جا رہے ہیں ‘ ایک ہاتھ کی انگلی کو پیارے نواسے حسینؓ اور دوسری کو حسنؓ نے تھاما ہوا ہے ،راستے میں میلے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بچہ رو رہاہے ،آپ فوراً رُک جاتے ہیں ، بچے کو گودمیں لیکر پیار کرتے ہیں ، رونے کا ماجرا پوچھتے ہیں ، بچہ کپکپاتے ہونٹوں کوجنبش دیکر کہتا ہے میں یتیم ہوں،آپ کی آنکھوں میں آنسو رواں ہو جاتے ہیں ، آپ عید گاہ نہیں جاتے،واپس گھر تشریف لاتے ہیں ،بچے کو نہلاتے ہیں۔ نئے کپڑے پہناتے ہیں ، بہت زیادہ پیار کرتے ہیں اور اس وقت تک نماز ادا نہیں فرماتے جب تک رونے والا بچہ مسکرا نہیں دیتا؟۔ خدا وند کریم نے ہم سب کو جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کا شکر بجا لائیں اور اظہار تشکر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم عاجزی ، انکساری اختیار کریں ۔ غریبوں کے کام آئیں اور غریبوں کو صرف فاتحہ خوانی اور قل خوانیوں پر ہی کھانا نہ کھلائیں بلکہ عید ، شادی ،خوشی اور ہر دوسرے موقع پر بھی کھانا کھلائیں اور کھانا کھلانے کے بعد ان کا شکریہ ادا کریں کہ وہ آپ کیلئے اچھائی اور نیکی کا باعث بنے اور اللہ تعالیٰ نے رزق کی فراوانی اور جو نعمتیں ہم کو عطا کی ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کسی غریب کے گائوں کا صدقہ ہے۔عید قرباں دراصل اپنی خواہشات اور اپنے نفس کی قربانیوں کا دوسرا نام ہے ،تو آئیے ! پوری دنیا کی سلامتی کیلئے دُعا کریں ، اُمت مسلمہ کی اور پاکستان کی سلامتی کیلئے دُعا کریں۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر