عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوفان کب دیکھتے ہیں کہ کون سا گھر کتنا خستہ ہے نہ ہی آندھیاں کواڑوں کی کمزوری کا خیال رکھتی ہیں۔ بارشیں کچے مکانوں کا کب سوچتی ہیں اور ہوائیں نازک قناتوں کا کیوں خیال رکھیں۔ آخر گھر کے مکینوں کو ہی درو دیوار کا سوچنا ہے، کھڑکیوں، کواڑوں کو بوسیدگی اور دیمک سے بچانا ہے تاکہ موسموں سے بچا جائے۔
ملک معیشت سے مضبوط ہوتے ہیں، اب جنگیں سرحدوں پر نہیں بلکہ معاشی محاذ پر لڑی جاتی ہیں۔ سُپر طاقتیں اپنی طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اور نئے ورلڈ آرڈر سے نمٹنے کے لیے معاشی پالیسیوں کو دہائیوں پہلے بھانپ لیتی ہیں اور اپنی پالیسیاں مُرتب کرتی ہیں۔
یوکرین میں روس کی جارحیت ہو یا یمن میں مفادات کی جنگ، اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت ہو یا کشمیر میں ستم گری، نہ یہ انا کا مسئلہ ہے اور نہ ہی غیرت کی جنگ بلکہ یہ سب تسلط کا وہ کھیل ہے جو کمزور کو دباتا ہے اور طاقتور کو احساس تفاخر دیتا ہے۔
دُنیا معاشی ترقی کے لیے کیا کیا جتن کر رہی ہے ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کیونکہ ہم ایسے فروعی مسائل میں پھنس گئے ہیں یا پھنسا دیے گئے ہیں جن کا حقائق کی دُنیا سے اُتنا ہی تعلق ہے جتنا خواب کا تعبیر سے، دعوؤں کا تقریر سے اور وعدوں کا تکمیل سے۔
کبھی انسان جنگ کا ایندھن بنتے تھے اور اب ایندھن جنگ کا سبب بن رہا ہے۔ یوکرین اور روس کے تنازع نے پوری دُنیا میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا کردی اور نہ صرف ایندھن بلکہ غذائی قلت بھی سر پر منڈلا رہی ہے۔ مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ دُنیا ان مسائل سے نکلنے کی کوششیں اور جتن کر رہی ہے۔
پیٹرول کی قیمتیں عالمی منڈی میں سستا ہونے سے پہلے ہی تیل بک رہا ہے، گیس جب سستی خریدی جا رہی تھی تب ہم صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ گذشتہ وزیر نے اتنی مہنگی گیس کیوں خریدی۔ پاکستان گندم برآمد کرتا تھا گندم بحران آیا تو بتایا گیا کہ ہم تو بمپر فصل رکھتے ہیں مگر آٹا عدم دستیاب۔
غرض جو دُنیا کر رہی تھی یا کر رہی ہے ہم اُس سے قطعی برعکس کرتے رہے اور اب نتیجہ یہ ہے کہ نئے اتحادی پُرانے کپڑے بھی دھو رہے ہیں اور غیر مقبول فیصلوں کی بدولت غیر مقبول بھی ہو رہے ہیں۔
کچھ اپوزیشن رہنما مسلسل کہہ رہے ہیں پاکستان سری لنکا بن رہا ہے۔ پاکستان سر ی لنکا بن سکتا تھا اگر سیاسی جماعتیں سیاست کو بالائے طاق نہ رکھتیں۔ یہاں تیل دستیاب ہے گو عوام کا تیل نکل رہا ہے لیکن اگر سری لنکا کی طرح پاکستان کے پاس تیل خریدنے کا زرمبادلہ نہ ہوتا تو اب صورت حال سری لنکا سے مختلف نہ ہوتی۔
کیا پاکستان اس صورتحال سے باہر آ گیا ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے تاہم موجودہ سیاسی حکومت عوام کو یہ بتانے میں ناکام ضرور ہو رہی ہے کہ پاکستان کو سری لنکا بنانے کی سازش اور کوشش کس نے کی جو اب بھی جاری ہے اور وہ ’امپورٹڈ حکومت‘ کا الزام سہنے کے باوجود آئی ایم ایف کی شرائط کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ’رجیم چینج‘ کرنے کے بعد پاکستان پر عنایات کی بارش ہو جاتی مگر ایسا نہیں ہو سکا، اس کے پیچھے کیا سازش ہے؟ بہر حال اتحادی اور باخبر اسٹیبلشمنٹ مل کر بھی اس بیانیے کا جواب فی الحال نہیں دے پا رہے۔
پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے اور ملک کو مضبوط کرنے کا واحد طریقہ سیاست سے بالائے طاق ہو کر ریاست کے مفادات کو دیکھنا ہے اور ’ریاست‘ کو بھی سیاست سے بالا فیصلوں کی ضرورت ہے۔
اس احساس کی آج بھی ضرورت ہے کہ معاشی بحران میں جکڑے پاکستان میں اگر سیاست دان آگے نہ آتے تو صورت حال آج کیا ہوتی؟ بہر حال سیاسی صنم خانے کے بتوں کو خبر ہو کہ بیانیے صرف بھرے پیٹ ہی سمجھ آتے ہیں، خالی پیٹ محل کسی کے نہیں بچتے۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ