نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بیویاں غیر ہوتی ہیں اور بچے اپنا خون||ڈاکٹر مجاہد مرزا

ساشا جب چوبیس برس کا تھا تو ایک رات پیے ہوئے آیا، میں کاریڈور میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ سرخ ہوئی آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے بولا، اگر تم نے میری ماں کو کبھی دکھ دیا تو اپنے ہاتھ سے اپنی قبر کھودو گے۔ میں نے کش لگاتے ہوئے اسے ہنس کے کہا تھا، جب مجھے مرنا ہی ہوگا تو میں خود قبر کیوں کھودوں گا۔ اگلے روز میں نے سرزنش کی تھی اور اس نے معذرت کر لی تھی۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل رات میں نے جھنجھلا کے وٹس ایپ پہ اپنی غلط روسی میں پیغام لکھا تھا: ” یہ کیا ہو رہا ہے۔ مجھے آئے آج دسواں روز ہے، معاملہ نہ ادھر ہو رہا ہے نہ ادھر۔ اگر تم نے طلاق کی درخواست دے دی ہے تو بتاو ، میں اپنا اسباب اٹھا لے جاتا ہوں اور اگر نہیں دی تو بیٹھ کر بات کرتے ہیں "۔
پیغام بھیج کے میں سو گیا تھا۔ صبح دیکھا تو جواب موصول ہوا ہوا تھا، ” مجھے کسی معاملے پر بات نہیں کرنی۔ ہم ابھی ماسکو کے راستے میں ہیں۔ کل سہ پہر کو اپنی چیزیں لینے آ سکتے ہو "۔
میں اسے اکیلے میں ملنا چاہتا تھا مگر کل تو اس کا بیٹا بھی ہوگا جو اسے لے کے پہنچ رہا ہے۔ مخمصے میں تھا ، جاوں نہ جاوں۔ روسی نوجوان جب بدتمیزی پر اترے ہوں تو بے حد کرتے ہیں۔ نینا آخر ساشا کی ماں ہے، میری تو بس بیوی ہے۔ متذبذب ہوا بچوں کے ساتھ وقت بتا رہا تھا۔ انہیں بتایا کہ مجھے آج ماما کی طرف جانا ہے۔ سات سال کی بچی نے پوچھا ساشا آپ سے جھگڑے گا۔ وہ کیسا ہے؟ میں نے ہنستے ہوئے کہہ دیا کہ باکسر ہے۔ میری بچی کو دھڑکا لگ گیا، منتیں کرنے لگی، آپ نہ جائیں۔ دس سال کا بیٹا بولا، میں آپ کے ساتھ جاوں گا۔ میں نے کہا چلو ابھی نہیں جاتا جب تمہاری ماں کام سے لوٹے گی تو چلا جاوں گا۔ بچے خوش اور مطمئن ہو گئے۔
اتنے میں ساشا کا فون آ گیا، مرزا تم سامان اٹھانے کتنے بجے آو گے، مجھے رات ماما کو ساتھ لے جانا ہے۔ میں نے پوچھا، تمہیں کتنے بجے نکلنا ہے، کہنے لگا تم بتاو اس حساب سے منصوبہ بناوں گا۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا، تو شام چھ بجے۔ بولا کچھ پہلے ممکن نہیں؟ اچھا بس گھنٹے بعد نکلتا ہوں، میں نے کہا۔ اس نے کہا کہ سامان کے لیے تو گاڑی چاہیے ہوگی۔ میں نے کہا کہ مجھے ابھی سامان نہیں لینا، بس ہیلتھ انشورنس کارڈ اور کچھ اور چیزیں لینی ہیں۔ پھر تو نہ ہی آو، یہ کہہ کے فورا” کہا چلو آ جاو انتظار کر رہے ہیں۔
ساشا جب چوبیس برس کا تھا تو ایک رات پیے ہوئے آیا، میں کاریڈور میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ سرخ ہوئی آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے بولا، اگر تم نے میری ماں کو کبھی دکھ دیا تو اپنے ہاتھ سے اپنی قبر کھودو گے۔ میں نے کش لگاتے ہوئے اسے ہنس کے کہا تھا، جب مجھے مرنا ہی ہوگا تو میں خود قبر کیوں کھودوں گا۔ اگلے روز میں نے سرزنش کی تھی اور اس نے معذرت کر لی تھی۔
اب وہ چوالیس برس کا ہے مگر نینا تو اس کی ماں ہے ہی۔ بچوں سے کہا دروازہ میرے یا اپنی ماں کے لیے کھولنا،مجھے جانا ہوگا۔ نکلنے لگا تو بیٹا بیٹی دونوں نے ہمزبان ہو کے کہا، پاپا اپنی حفاظت کرنا۔ جس گھر میں بائیس برس رہا ہوں، اس کی طرف جا رہا تھا مگر بددلی کے ساتھ، بڑی غیریت کے ساتھ۔ چابی تو پاکستان میں ہی کھو گئی تھی۔ نیچے سے فلیٹ کا نمبر دبا کے بیل دی تو ساشا ہی نے کہا ہاں۔ کھولو ساشا۔
آٹھویں فلور پہ پہنچا۔ بلڈنگ کی مرمت و تزئین ہو چکی تھی۔ فلیٹ نمبر ۵۶ کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا، میں داخل ہوا۔ ہائی ساشا کہا وہ ہائی کہہ کے کمرے میں دیوان پے لیٹ کے فون میں مصروف ہو گیا۔ میں نے بوٹ کے تسمے ڈھیلے کرتے ہوئے دیکھا تو نینا کچن میں دیوان کے ایک سرے پر بیٹھی، مربے کے ساتھ روٹی کھاتے ہوئے چائے پی رہی تھی۔
جوتے اتار کے چپل پہنے بن میں کچن میں داخل ہوا اور کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے۔ اور اس کے پاس جا کر اس کے گال پر اچٹتا ہوا بوسہ دیاْ۔ جب مجھے پاکستان سے لوٹنا ہوتا وہ میرے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ پاکستانی پکوان تیار کرکے رکھتی تھی۔ میں مٹھائی کا ڈبہ پکڑاتا ، گلے لگاتا، گال پہ چومتا اور سوٹ کیس سے سب کچھ نکال کر ڈھیر کرکے نہانے چلا جاتا مگر آج نہ سوٹ کیس تھا ، نہ ڈبہ اور نہ وہ وفور۔
بولی میرے پاس کھلانے کو کچھ نہیں۔ یہ مربہ ہے، چائے دوں۔ ہاں دے دو، میں نے کہا۔ پھر یاد کرکے بولی تلے ہوئے آلو بھی ہیں، دوں۔ ہاں چلو وہ ہی دو، یہ کہہ کے میں ہاتھ دھونے چلا گیا۔ کچن میں آ کے کہا، تمہارا یا میرا کوئی تولیہ۔ پھر خود ہی کمرے میں گیا، الماری کھولی، چھوٹا تولیہ نکالتے ہوئے اور ساشا سے پوچھا، بچے کیسے ہیں حالانکہ اس کی ایک ہی بیٹی ہے۔ فون سے نظریں اٹھائے بغیر بولا، میرے بچے ٹھیک ہیں۔ تمہارے بچے کیسے ہیں۔ ٹھیک ہیں، یہ کہہ کر ہاتھ پونچھتا کچن میں جا رہا تھا کہ دیکھا تو میرا اضافی سامان، جوتے ڈبوں میں بند قرینے سے ایک جانب رکھے تھے۔
آلو گرم ہو رہے تھے۔ نینا نے روٹی کاٹ دی تھی اور اس کے ٹکڑوں کو مکھن لگا رہی تھی۔ میں نے کہا کہ تم نے میرا سامان باندھ دیا ہے، کہنے لگی ہاں، کپڑے ٖنگے ہوئے ہیں اور کتابیں بھی اپنی جگہ پر ہیں۔ پھر فرائی پان سے آلو پلیٹ میں ڈال کے دیے اور چائے بھی۔ چائے میں چمچہ چلا کے پوچھا، شکر ڈال دی ہے۔ کہا نہیں، نہیں ڈالی۔ میرے منہ سے نکلنے لگا تھا، زہر تو نہیں ڈال دیا پھر زبان دانتوں تلے دبا لی۔
آلو کچھ سخت تھے۔ آلو خراب ہیں، میں نے کہا۔ خران نہیں ابھی تیار نہیں ہوئے، قبل ازوقت نکلے ہوئے ہیں کھیت سے۔ میں نے مکھن لگی روٹی اور کچھ آلو کھاتے ہوئے کہنا شروع کر دیا، اگر اتفاقا”مجھ سے چابیاں نہ کھو جاتیں، میں یہیں ہوتا۔ تم مجھے اضافی چاپی دو۔ تم یہاں نہ ہوتے۔ چابی بھی نہیں دوں گی۔ مجھے یہاں رہ کے اپنی آپ بیتی کا دوسرا حصہ مکمل کرنا ہے۔ میں نے اس فلیٹ میں بیٹھ کر چار کتابیں لکھی ہیں۔ تم نے ہی لکھنے میں معاونت کی تھی۔ اسے رونا آنے لگا تو وہ باتھ روممیں چلی گئی، اس نے اپنا رونا کبھی دکھائی نہیں دینے دیا۔
لوٹی تو کہنا شروع کیا، دیکھو میں نے تم سے کبھی جھوٹ نہیں بولا البتہ سچ چھپایا تھا۔ یاد ہے میں نے کہا تھا دونوں ہاتھون کی انگلیاں پکڑے دو بچے لاوں گا جو تمہیں ماما ماما پکارتے آئیں گے۔ تم نے جب بھی کہا کوئی لگتی تمہاری رکھیل ہے تو تم سے کہا، خبردار رکھیل مت کہنا تو تم نے کہا چلو دوسری بیوی سہی۔ میں نے ہمیشہ کہا کہ ہاں ہے کر لو جو کرنا ہےْ
بارہ برس اگر میں نے تم سے یہ حقیقت مخفی رکھی اور اس نے بھی کسی طرح کی کوئی مداخلت نہیں کی تو اس لیے کہ تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے، میں نے بولنا جاری رکھا۔ تم نہیں جانتیں کہ میں کتنے کرب سے گذرا ہوں اس عرصے میں۔
جب سب سے چھوٹا بچہ پیدا ہوا تھا تو اس کا وزن کم تھا اور وہ آکسیجن کی کمی کا شکار تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کی زندگی سے متعلق مایوسی کا اظہار کیا تھا اور انکیوبیٹر میں رکھ دیا تھا۔ وہ اس میں اکیس روز رہا تھا۔ میں اس کا حال پوچھنے وہاں بالکل نہیں گیا۔
یہ نہیں بتایا کہ بیچاری نرگس چند روز پہلے ہوئے سیزیرین سیکشن کے زخم کو ہاتھ سے سہارا دیے پبلک ٹرانسپورٹ میں ہسپتال جاتی تھی۔ وہاں بچے کے لیے اس کا دودھ نکالا جاتا تھا۔ اسے چند منٹ مشین میں پڑے بچے کو دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ وہ وہاں سے رونا شروع کرتی تھی اور گھر میں پہنچ کر بھی روتی رہتی تھی۔ میں جب فون کرتا تو کہتی بچے کی زندگی کے لیے دعا کیجیے گا۔
پھر جب پانچ سال کی رسمین کا بازو ٹوٹا تو میں بہت دیر کے بعد نرگس کے گھر پہنچا تھا جہاں سات برس کا اکیلا تمجید ڈیڑھ سال کے روتے ہوئے عافین کو سنبھال رہا تھا۔ یہ نہیں بتایا چونکہ تم داچا پہ تھی اس لیے میں صبح کے چھ بجے تک ہی وہاں رہا تھا۔ یہ کہ نرگس میرا اور تمہارا خیال کرتے ہوئے چھ بجے ہی لوٹ آئی تھی۔ بہادر بچی تمام عرصہ ہسپتال میں اکیلی رہی۔ میں اس کے پاس بھی نہیں جاتا تھا۔ ایک بار گیا تو وہ بیچاری پلاسٹر لگے بازو کے ساتھ کرسی پہ بیٹھی کھڑکی کے شیشے سے ہاہر دیکھتی میرا انتظار کر رہی تھی۔
آخر وہ بولی، تم مجھے یہ سب کیوں بتا رہے ہو ؟ میں نے جواب میں کہا کہ سب اس لیے کہ یہ سب کچھ تمہاری محبت میں سہا۔ اس لیے کہ تمہیں دکھ نہ پہنچے۔ میری آواز تھوڑی سی بلند ہوئی تو ساشا اٹھ کے چلا آیا اور بولا دیکھو مرزا ہمارا معاشرہ بالکل اور طرح کا ہے۔ بڑی بیوی چھوٹی بیوی تمہارے ہاں ہوتی ہیں ہمارے ہاں نہیں ۔ ساشا میں ماما سے پیار کرتا ہوں، بہت پیار کرتا ہوں، میں بولا تھا۔ یہ سن کے نینا اپنے آنسو چھپانے کے لیے بالکنی میں چلی گئی تھی۔ ساشانے جواب میں کہا، ہاں پیار کرتے ہو مگر ہوا بالکل ہی اور طرح۔ یہ کہہ کر وہ کمرے میں چلا گیا۔
نینا پھر سامنے دیوان پہ آ بیٹھی۔ میں نے پھر سے کہا کہ بارہ برس سے میں صبح و شام تمہارے پاس ہی رہا، اس کا مطلب کیا بالکل نہیں سمجھتی تم؟ اس لیے کہ یہ تم دونوں کے لیے آرام دہ رہا ہوگا، اس نے جواب میں کہا۔ میں نے غصے کو روکتے ہوئے کہا، دیکھو ایسے کرتے ہیں کہ مرتے دم تک اکٹھے رہتے ہیں۔ کوئی مرتے دم تک نہیں، تم چائے پیو، جو لینا ہے لو اور چلے جاو پلیز، مجھے تنگ مت کرو۔ اب ہمارے بیچ کچھ باقی نہیں رہا۔
ماں کا فیصلہ کن لہجہ سن کے ساشا پھر کچن میں آ گیا اور میرے سامنے دور دیوان کے ایک سرے پر بیٹھ کے بولا، میں نہ کوئی مذمت کرتا اورنہ ہی کچھ مزید کہنا چاہوں گا۔ بس اتنا کہ آپ دونوں عمر والے لوگ ہیں۔ ایک دوسرے کے اعصاب کیوں توڑتے ہو۔ دیکھو مرزا عورتیں بہت ہوتی ہیں مگر ہماری ماما ایک ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ اسے تکلیف پہنچے۔ تم مہربانی کرو، جو ماما نے فیصلہ کیا ہے، اس پر عمل کرو۔ اچھا ساشا ویسا ہی کریں گے، میں تمہیں بھی سمجھتا ہوں، میں نے کہا تو ساشا اٹھ کے ایک بار پھر کمرے میں چلا گیا۔
میں نے نینا کو بتایا کہ مجھے ایک تو ہیلتھ انشورنس کارڈ چاہیے، جس پہ اس نے کہا کہ جہاں تمہارے کاغذ ہوتے ہیں وہاں دیکھ لو، میں نے وہاں سے کچھ ہلایا تک نہیں۔ اور مجھے اپنے جاگر، ونڈ بریکر اور ایک اور چیز جو بھول گئی چاہییں بس۔ حبیب پاکستان سے لوٹ آئے تو اس کی گاڑی میں سامان اٹھا لے جاوں گا۔ یہ کہہ کے میں کمرے میں گیا، دراز نکالی اور بیڈ پر بیٹھ کے ہیلتھ کارڈ تلاش کرنا شروع کیا جو نہیں ملا۔ نینا سے کہا کہ جنوری میں تم اور میں اکٹھے جا کر اپنے دونوں کے کارڈ لائے تھے، تمہارے پاس ہی تھا۔ اس نے کہا کہ اپنے بریف کیس میں جا کے دیکھو۔ میں نے بتایا کہ گم شدہ چابی کے لیے اسے میں نے چھان مارا تھا، ایسا کوئی کارڈ نہیں ہے اس میں۔ اس نے اپنے تمام کاغذ چیک کیے مگر میرا کارڈ نہیں تھا۔ روسی میں کہا، نہیں ہے، میں نے نہیں لیا۔ مجھے نہیں معلوم کا متبادل یہ روسی فقرہ مجھے اچھا نہیں لگتا لیکن میں نے اس بار چمک کے یہ نہیں کہا کہ مجھے معلوم ہے تم نے نہیں لیا۔ بس اتنا کہا تلاش کرنا پھر سے۔ پھر اسے کہا میرے جاگر کہاں ہیں۔ اس نے جب جوتوں کے بند ڈبوں کے ڈھکن کھولے تو میں نے جاگرز کے علاوہ ایک جوڑا گرگابی اور ایک جوڑا چپل منتخب کرکے اسے کہا کہ انہیں کسی شاپنگ بیگ میں ڈال دے۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر ونڈ بریکر مانگے وہ بھی اس نے ایک بند ڈبے سے نکال کر ایک اور شاپنگ بیگ میں ڈال دیے۔
میں نے نکلنے سے پہلے ایک بار پھر کہا کہ مجھے گھر کی چابی دو میں یہاں بیٹھ کے اپنی آپ بیتی کا اگلا حصہ لکھنا چاہتا ہوں۔ یاد دلایا کہ اس گھر میں بیٹھ کے ہی میں نے چار کتابیں لکھیں، تم نے میری مدد کی تبھی لکھ پایا تھا۔ وہ ایک بار پھر منہ موڑ کر اپنے آنسو چھپانے لگی اور بولی کہ میرے پاس اضافی چابی نہیں، کہاں سے دوں تمہیں۔
میں دہلیز پہ جا کے اپنے بوٹ پہننے لگا۔ وہ کچن میں کھڑی رہی۔ میں نے کہا دونوں شاپنگ بیگ اٹھا دو۔ اس نے اٹھا کے وہ آگے بڑھا دیے۔ میں نے کہا یہاں آو۔ بولی جاو۔ میں نے کہا میں تمہیں چومنا چاہتا ہوں۔ کوئی ضرورت نہیں مجھے چومنے کی، وہ بولی۔ وہ جو ۲۸ برس ہر بار میرے گھر سے نکلنے پر میرا گال چوم کے رخصت کرتی تھی، پانچ قدم دور کھڑی تھی۔ دروازہ تو بند کر لو، میں نے کہا۔ کر لوں گی بعد میں۔
میں لفٹ سے اتر کر جب سڑک پر پہنچا تو میرے کندھے ڈھلکے ہوئے تھے۔ میں خود کو تھکا ہوا بے منزل مسافر خیال کر رہا تھا۔ رونے کو جی کر رہا تھا۔ زیر زمین ریلوے سٹیشن تک پہنچتے پہنچتے میں اندوہ میں ڈوب چکا تھا۔ ریل کا سفر ایسے کیا جیسے میں دکھ کے سمندر میں غرق ہوں۔
بچوں کی ماں ابھی نہیں پہنچی تھی۔ میں پسینے میں تر تھا اگرچہ موسم خوشگوار ہے۔ بچے سوال پوچھنے لگے، میں نے تلخی سے کہا، میں بہت دکھی ہوں، چپ رہو۔ وہ چپ ہو گئے۔ میں شلوار پہن کے قمیص پہنے بغیر بالکنی کا دروازہ کھلوا کے لیٹ رہا۔ بچوں نے اپرز پہنے ہوئے تھے۔ بالآخر پہلے بیٹی نے ہمت کرکے مجھ تک پہنچ کر میرے گال چومے اور مجھے اپنی بانہوں میں بھینچا۔ پھر بیٹے نے ایسا کیا۔ پھر پونے چار برس کا عافین بھی ہنستے ہوئے میرے اوپر آن گرا۔ مجھے ہنسی آ گئی۔ میرا دکھ عارضی طور پر فرو ہو گیا۔
اتنے میں ان کی ماں آ گئی۔ ابھی آتی ہوں کہہ کے آدھ گھنٹہ باتھ روم میں رہی۔ نکلی تو سر پر تولیہ باندھے، بیدنگ گاون پہنے میرے پاس آ بیٹھی، میں اسے بتا ہی رہا تھا کہ فیس بک پر میری دکھ بھری پوسٹ دیکھ کر تیس برس پہلے والی میری سابقہ بیوی میمونہ کا فون آ گیا، یہی پوچھنے کو کہ کیا ہوا۔ اسے کچھ بتایا۔
معلوم ہوا بچوں نے صرف ناشتہ کیا تھا، کیونکہ میں انہیں گیس کھولنے سے روک گیا تھا چنانچہ انہوں نے کچھ نہ کھایا۔ میں نے نرگس سے کہا، تم نے سن تو لیا ہے جو کچھ میں میمونہ کو بتا رہا تھا، جاو بچوں کو کھانا دو۔
سچ ہے بیویاں پرائی بیٹیاں ہوتی ہیں اور اپنے بیٹے بیٹی اپنا خون۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author