وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نصف صدی پہلے کا مضمون ہے جو نصف صدی بعد باندھا جا رہا ہے۔ تب کلو نے سیر کو بے گھر نہیں کیا تھا۔ تب بھینس کا گوشت کوئی نہیں کھاتا تھا۔ ہوتا ہو گا بیف اور مٹن بھی کہیں نہ کہیں۔ پر ہمارے ہاں بڑے کا مطلب گائے یا بچھیا کا گوشت اور بکرے کا گوشت چھوٹا کہلاتا تھا۔
دلبر قریشی کے چھ ضرب چار کے چوبی کھوکھے پر ٹنگا مستطیلی گتا ہوا سے پھڑپھڑاتا رہتا جس پر ڈبل پینسل سے ”آج کا نرخ نامہ“ لکھا جاتا ”بڑا سوا روپے فی سیر، چھوٹا پونے دو روپے فی سیر“ ۔
بڑا تو مذبح خانے سے بڑے بڑے وزنی پارچوں کی شکل میں گدھا گاڑی پر لاد کے لایا جاتا تھا اور نشانی یہ تھی کہ ہر پارچے پر نیلی سرکاری مہر ہوتی۔
اس مہر کا مطلب تھا کہ جانور حکومت کے منظور شدہ لائسنس یافتہ کمیلے میں قواعد و ضوابط کے تحت ذبح کیا گیا اور یہ کہ ذبح سے پہلے اسے انسانی استعمال کے لیے طبی اعتبار سے صحت مند قرار دیا گیا۔
یہ تب کا قصہ ہے جب سفید پوش بھی ہفتے میں کم ازکم ایک بار گوشت خریدنے کی سکت رکھتے تھے۔ اول تو ایسے لوگ تھے ہی نہیں جو قصائی کی دکان سے پورا پورا بکرا اڑا لے جائیں۔ کیونکہ محلے کے ایک آدھ گھر میں ہی فریج ہوتا اور ڈیپ فریزر تو ابھی پیدائش سے کئی کوس پرے تھا نیز دوبئی، ابو ظہبی، کویت اور بحرین وغیرہ سے بھی کان نامانوس تھے۔
ننانوے فیصد لوگ زیادہ سے زیادہ ایک سوا سیر یا کم سے کم آدھ پاؤ گوشت یا ہاتھ سے کوٹا گیا قیمہ خریدنے کے عادی تھے۔ دلبر قریشی سب گاہکوں کو خرید کردہ گوشت کی مقدار کے حساب سے احترام دینے کے بجائے ہر گاہک کو یکساں عزت دیتے تھے۔
تب پلاسٹک شاپرز کی لعنت سے یہ کرہ ارض پاک تھا۔ چنانچہ گوشت ہو کہ قیمہ، بڑے کا ہو یا چھوٹے کا، سیر بھر ہو یا آدھ پاؤ۔ سارا لحمیاتی وزن اخباری کاغذ میں لپیٹ کے دیا جاتا جسے گاہک ساتھ لائی گئی سرکنڈے کی ٹوکری میں ڈال لیتا۔
ہم بچے ادب آداب کی سخت گیر گھریلو تربیت کے بموجب دلبر قریشی قصاب کو دلبر چچا کہتے تھے۔ وہ ہم منہ بولے بھتیجوں سے کبھی کبھار ہلکا پھلکا مذاق بھی فرماتے۔ جیسے ایک بار میں ان سے پاؤ بھر گوشت لینے گیا تو کہنے لگے ”صاحبزادے اگلی بار قلی بھی ہمراہ لے آنا۔ اتنا بوجھ کاہے کو اٹھا پاتے ہو۔ یا ایک دن میں صرف نیکر پہن کر گوشت لینے پہنچا تو کہنے لگے“ شریف ماں باپ کے بچے پورا لباس پہنتے ہیں۔ آئندہ نیکر پہن کے آئے تو ”پھنو“ کاٹ دوں گا اسی چھری سے ”۔
ان کی اس دھمکی سے کچھ ڈر بھی لگا۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے۔ میاں ڈرو مت۔ ہم تو یونہی سے کہہ رہے تھے۔ تم ہمارے بچے ہو جو چاہو پہنو۔ یہی تو عمر ہے مست گھومنے کی۔ پھر کہاں زندگی موقع دے گی۔ کبھی خوش ہوتے تو ایک آدھ اضافی گردہ یا کلیجی کا ٹکڑا بھی گوشت کے ساتھ کر دیتے۔
چچا دلبر پورا پورا دن گلے پر بیٹھنے کے قائل نہیں تھے۔ جیسے ہی آہنی ہکوں سے ٹنگے اپنے ہاتھ سے ذبح کردہ دو بکرے اور گائے کے گوشت کے تین بھاری بھاری پارچے فروخت ہوئے۔ کھوکھا بند اور چچا دلبر یہ جا وہ جا۔ کبھی صبح دس ساڑھے دس بجے تک ہاتھ جھاڑ لیتے تو کبھی بارہ بج جاتے۔
دلبر چچا منگل چھوڑ کے ہفتے کے چھ دن صبح سات بجے کہاں سے آتے کہاں جاتے تھے۔ کسی کو نہیں معلوم تھا۔ پر اتنا ضرور ہے کہ تھانہ صدر کا اکڑی وردی والا افسر بھی ان کا مستقل گاہک تھا اور وہ جب بھی ان کے کھوکھے پر اپنی چمچماتی سائیکل پر آتا تو پہلے بٹوے سے پیسے نکال کے گنتا پھر گوشت لیتا۔ اور یہ کام وہ کچھ ایسے کرتا کہ آس پاس کھڑے لوگ بھی اچھے سے دیکھ لیں۔
سال میں بقر عید سے پہلے کے دس دن وہ واحد عرصہ تھا جب دلبر چچا دکان پر تالا لگانے کے باوجود گھر نہیں جاتے تھے۔ کیونکہ کھوکھے کے پیچھے کی کھلی زمین میں اضافی آہنی کھونٹیاں ٹھونک کر ان سے ہر سائز کے درجن بھر بکرے باندھ دیتے تھے۔ ان بکروں کی قیمتیں ڈیڑھ سو سے ساڑھے تین چار سو روپے کے درمیان ہوتی تھیں۔ یہ تب کی بات ہے جب سو روپے کے لال نوٹ کا صرف تنخواہ والے دن درشن ہوتا تھا اور اس کا کھلا کسی عام شام دکان سے نہیں صرف بینک سے ملتا تھا۔ ہم سنا کرتے تھے کہ پانچ سو کا نوٹ بھی ہوتا ہے مگر دیکھا کبھی نہیں۔
جو جو صاحب استطاعت دلبر چچا سے قربانی کے بکرے خریدتے۔ ان کے بکرے بھی عید کے تینوں دن دلبر چچا ہی ذبح کرتے تھے۔ ان تین دنوں میں ایک نوجوان اسسٹنٹ بھی ساتھ آتا تھا۔ اللہ جانے بیٹا تھا کہ برادر خورد۔ بہرحال ہر سال وہی ساتھ آتا تھا۔
دلبر چچا کو ہم نے کبھی قربانی کے ذبیحے کا بھاؤ تاؤ کرتے نہیں دیکھا۔ بس یہ کہتے تھے۔ چٹائی اور مڈھ (لکڑی کا موٹا گول ٹکڑا جس پر گوشت کے پارچے بنائے جاتے ہیں ) کا انتظام بکرے کا مالک کرے گا۔ چاپڑ، چھریاں اور کھال ہماری۔ آگے قربانی کرنے والے کی خوشی۔
ایک بار میرے والد نے دلبر چچا سے پوچھ ہی لیا کہ قریشی صاحب آپ کا اتنی محنت کا کام ہے آپ منہ سے پیسے مانگا کریں اس میں کیسی جھجک۔ جس پر دلبر چچا کے ہاتھ میں حرکت کرنے والا چاپڑ ہوا میں جہاں تھا وہیں رک گیا۔ چند لمحے سوچتے رہے۔ پھر بولے۔ رحیم بھائی قربانی کے جانور کا خون جنت کے دروازے تک جاتا ہے۔ اس پر بھاؤ تاؤ کیسا؟ اس کے بعد دلبر چچا کا چاپڑ جانور کے پارچے کی ہڈی پر اس زور سے پڑا کہ اس کے دو تین ریزے تو میرے ماتھے پر آن چپکے۔
اگلے چند برس میں وہ محلہ بھی چھوٹ گیا جہاں دلبر چچا کا کھوکھا تھا۔ کھوکھے کے پیچھے کے بڑے سے خالی قطعے کو کوئی پلازہ نگل گیا۔ اکہری سڑک چوڑی ڈبل روڈ میں بدل گئی۔ پلازے کے اندر گوشت کی ایک بڑی سی دکان میٹ شاپ اور پھر میٹ پارلر ہو گئی۔ مسلسل قلانچیں بھرتی مہنگائی نے انفرادی قربانی کے جذبے کو اجتماعیت کی پناہ قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ یعنی ذاتی قربانی کی رسی تن آسانی کی وبا نے ایونٹ مینجمنٹ کو پکڑا دی۔
زمانہ مزید ٹربو ہو گیا۔ جانور اپنی پسند سے خریدنے، اپنے ہاتھ سے چارہ بنولہ کھلانے، چمکیلے کپڑے اور اسٹیل کے زیور پہنانے اور قربانی سے پہلے تک اس کے چونچلے اٹھانے کی روایات قربانی کے ایپ نے کھا لیں۔ ایپ پر خریدا گیا جانور کس نے ذبح کیا، کہاں ذبح ہوا، کیوں ہوا۔ آپ سے مطلب؟
بس عید کے دن سہ پہر کے بعد کسی بھی وقت ڈور بیل بج سکتی ہے۔ میں فلاں ادارے کی طرف سے آیا ہوں۔ یہ رہا اس بکرے کا گوشت جو آپ نے ہماری ایپ پر قربانی کے لیے سلیکٹ کر کے بک کیا تھا۔ اس کا ایک تہائی ہم نے یتیموں یسیروں کے لیے رکھ لیا ہے۔ یہ باقی دو حصے آپ کے۔ اس رسید پر دستخط کر دیجیے۔ تھینک یو سر۔ امید ہے اگلے برس بھی آپ ہمیں ہی خدمت کا موقع دیں گے۔
پچھلے ماہ جب میں اپنے بینک میں بل جمع کرانے کے بہانے برانچ منیجر سے علیک سلیک کے لیے گیا تو منیجر نے کہا، ایک نیا لڑکا آیا ہے آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ لڑکا آیا۔ اس نے بتایا کہ تازہ ایم بی اے ہے اور یہ اس کی پہلی نوکری ہے۔
میں نے آپ کا بینک ریکارڈ چیک کیا۔ آپ کے والد کا نام پڑھ کے آپ سے ملنے کا دل چاہا۔ کیا آپ لوگ بہت پہلے فیڈرل کالونی میں بھی رہتے تھے؟ میں نے کہا ہاں۔ بلکہ بچپن تو سارا کا سارا وہیں گزرا۔ پر تمہیں کیسے معلوم؟ کہنے لگا بالکل ایسا ہی ہے۔ اصل میں میرے دادا آپ کے والد کا اکثر تذکرہ کرتے تھے۔ اسی لیے میں آپ کے کوائف پڑھ کے چونکا۔ میرے دادا کا نام دلبر قریشی تھا۔ چار برس پہلے ہی انتقال ہوا۔ ان کی فیڈرل کالونی میں کسی زمانے میں گوشت کی دکان ہوا کرتی تھی۔
اچھا اچھا تو تم دلبر چچا کے پوتے ہو۔ واہ واہ زبردست، یہ تو کمال ہو گیا۔ میرا دل تو چاہا کہ اسے چمٹا لوں جس نے پلک جھپکتے مجھے میرے بچپن میں پہنچا دیا۔ مگر اندر کی کمینگی نے فوراً ہاتھ دبا دیا اور میں اس نوجوان سے دو چار اوپری باتیں کر کے بینک سے نکل آیا۔
دلبر چاچا کا پوتا، ایم بی اے، بینکر۔ اور پھر نصف صدی پرانا جملہ سامنے آ کھڑا ہوا۔
”رحیم بھائی قربانی کے جانور کا خون جنت کے دروازے تک جاتا ہے۔ اس پر بھاؤ تاؤ کیسا“ ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر