مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب میں ضمنی انتخابات||ظہور دھریجہ

الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ ڈی سیٹ ہونیوالے اراکین اسمبلی کا تعلق تحریک انصاف سے تھا، کئی امیدوار آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب میں ضمنی الیکشن کی بات کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تبدیلی کا نعرہ بہت سنا گیا، تبدیلی تو نہ آئی البتہ عمران خان کی حکومت تبدیل ہو گئی، یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’تبدیلی ‘‘ کا فائدہ (ن) لیگ کو ہوا، یہ ٹھیک ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں سب سے اہم کردار آصف زرداری کا ہے مگر صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ قربانی کا بکرا بنے۔ (ن) لیگ کو بغیر کسی مشقت کے مرکز بھی مل گیا اور سب سے بڑے صوبے کا اقتدار بھی، اتحادیوں کو چھوٹی موٹی وزارتوں پر راضی کر لیا گیا ۔گو کہ آج کے دور میں گورنر کے پاس کوئی بڑا اختیار نہیں البتہ گورنر کا ایک نام ہے،پنجاب کی گورنری پیپلز پارٹی کے مخدوم سید احمد محمود کو دینے کی بات کی گئی جو کہ بعد میں (ن) لیگ نے خود ہی لے لی، اسی طرح پنجاب کا وزیر خزانہ پیپلز پارٹی کے مخدوم عثمان محمود کو بنانے کی بات ہوئی مگر بعد میں یہ وزارت بھی خود ہی رکھ لی۔ آصف زرداری نے اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کی کمی اس وقت پوری کر دی جب ان کا یہ فیصلہ سامنے آیا کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں تمام حلقوں میں پیپلز پارٹی (ن) لیگ کے امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ زرداری صاحب کے اس فیصلے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیپلز پارٹی صرف صوبہ سندھ کی جماعت ہے اور اب پہلا ، دوسرا نمبر تحریک انصاف اور (ن) لیگ کا ہے اور تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کھڑی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ضمنی الیکشن میں (ن) لیگ کی اتحادی جماعت کی حیثیت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے طور پر کچھ سیٹیں لینی چاہئیں تھیں، وسیب میں زرداری کے اس فیصلے سے جیالے خوش نہیں ہیں، ضلع مظفر گڑھ میں جن دو سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہو رہا ہے گزشتہ الیکشن میں پی پی کے امیدوار تھوڑے ووٹوں سے یہاں ہارے تھے، الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ ڈی سیٹ ہونیوالے اراکین اسمبلی کا تعلق تحریک انصاف سے تھا، کئی امیدوار آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، اس لحاظ سے یہ تمام سیٹیں تحریک انصاف کی تھیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنی کتنی سیٹوں کا دفاع کر تی ہے؟ ۔یہ حقیقت ہے کہ حمزہ شہباز شریف تحریک انصاف کے تمام سرپرائزز کے بعد وزیر اعلیٰ تو منتخب ہوگئے مگر جن آئینی اور سیاسی پیچیدگیوں کا ان کو سامنا کرنا پڑا وہ آج تک کسی وزیر اعلیٰ کے حصے میں نہیں آئیں، صوبائی کابینہ کی تشکیل ہو یا بجٹ کی منظوری ہر سطح پر ایک نئے آئینی و سیاسی بحران کا سامنا رہا ۔وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی وزارت اعلیٰ پر اتحادیوں اور اعتماد کے ووٹ کی تلوار سر پر ایسے لٹکتی رہی جیسے پہلے ہی وار میں خاتمہ ہوجائے۔ اب ضمنی انتخابات فیصلہ کریں گے کہ حمزہ شہبار اکثریت حاصل کرکے وزیر اعلیٰ رہیں گے یا گھر جائیں گے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے پنجاب کی مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے ارکان کا نوٹیفکیشن جاری کردیاگیا ہے ۔اقلیتی نشستوں پر حبکوک رفیق بابو اور سیموئیل یعقوب کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جبکہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بتول زین، سائرہ رضا اور فوزیہ عباس نسیم کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حکومتی جماعت (ن) لیگ کے پاس 166 سیٹیں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے7، تین آزاد اور ایک راہ حق پارٹی کا ووٹ بھی (ن) لیگ کے پاس ہے، اس طرح (ن) لیگ کے حکومتی اتحادکے ووٹوں کی تعداد 177 بنتی ہے۔ 2018 ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کوپنجاب اسمبلی میں183 نشستیں ملی تھیں لیکن 25 منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی نشستیں 158 رہ گئیں، پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 158 اور (ق) لیگ کے 10 ارکان ملا کر اپوزیشن کے 168 ارکان بنتے ہیں تاہم اب پی ٹی آئی کو 5 مخصوص نشستیں مل جانے کے بعد اپوزیشن اتحادکی تعداد 173 بنتی ہے یعنی مخصوص نشستوں کے بعد بھی حکومتی اتحاد کو اپوزیشن پر 4 ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ راولپنڈی ، لاہور ، خوشاب ، بھکر، فیصل آباد، جھنگ ، شیخو پورہ، ساہیوال ، ملتان ، لودھراں، بہاولنگر، مظفر گڑھ ، لیہ اور ڈیرہ غازی خان میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی حمایت یافتہ جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے،حکومت کی جانب سے دس سے زائد امیدواروں کا تعلق جہانگیر ترین گروپ سے ہے جبکہ اپوزیشن یعنی تحریک انصاف نے بیشتر نظریاتی کارکنان کو میدان میں اتاراہے۔ ان نشستوں پر 2018ء کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیں تو بیس میں سے دس نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جو بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے۔ حکومتی حکمت عملی کے مطابق انہی امیدواروں یا ان کے رشتہ داروں کو ٹکٹیں جاری کی گئیں جو 2018ء میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ وسیب میں لوگ امیدواروں سے صوبے کے وعدے کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔ ملتان میں مخدوم شاہ محمود قریشی سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں تھی اس وجہ سے صوبے کا وعدہ پورا نہ کر سکے، آئندہ کامیابی پر صوبے کا وعدہ پورا کریں گے۔ ملتان کا ضمنی الیکشن دراصل گیلانی ، قریشی کے درمیان الیکشن ہے، یوسف رضا گیلانی نے انتخابی مہم کے دوران کہا کہ ہم نے سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کرایا، اب اسے قومی اسمبلی سے پاس کرانے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے گا؟

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: