ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام آج 5 جولائی کو یوم سیاہ منایا جا رہا ہے ، 5جولائی 1977ء کو پیپلز پارٹی کے قائد اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیاتھا،بھٹو حکومت کا تختہ ضیاء الحق نے الٹایا تھا ،مگر اس کے پیچھے امریکا تھا، آج عمران خان بھی امریکا کا نام لیتا ہے مگر حالات و واقعات میں بہت فرق ہے، ایک بات یہ بھی ہے کہ نواز شریف بھی مجھے کیوں نکالا کی گردان کرتے رہے اور آج وہی کچھ عمران خان کر رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ کیوں الٹا گیا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کیلئے ہمیں ماضی کی طرف جانا ہوگا، تاریخ کو دیکھنا ہوگا، سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ بھٹو صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کا بڑا لیڈر تھا، ان کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی ، اس میں تمام مسلمان ممالک شریک ہوئے اور مسلمان ملکوں کا ایک بلاک بن گیا، بھٹو نے ورلڈ تھرڈ کے نام سے 77 ترقی پذیر ملکوں کا ایک اتحاد بنایا جو کہ غریبوں کا خون چوسنے والے سرمایہ دار ممالک کے خلاف تھا، امریکا کے اور اُس کے اتحادی اشتعال میں آگئے اور وہ بھٹو کو آنکھیں دکھانے لگے، بھٹو نے کہا کہ امریکا دنیا کا چودھری بننے کی کوشش نہ کرے ، امریکا کے کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہیں، اس پر امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم بھٹو کو معاف نہیں کریں گے، امریکا اور اُس کے اتحادی ملکوں نے فیصلہ کر لیا کہ بھٹو کو ہر صورت راستے سے ہٹانا ہے۔ 1977ء میں الیکشن ہوئے، بھٹو کی جماعت کامیاب ہو گئی، دھاندلی کا الزام لگا کر امریکا نے بھٹو کے خلاف اتحاد بنوا دیا پھر پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل شروع ہو گئی بھٹو کے خلاف ریلیاں اور مظاہرے شروع ہو گئے۔ یہ بھی دیکھئے کہ اس وقت کے اپوزیشن رہنما پروفیسر غفور احمد نے کہا تھا کہ بھٹو سے اپوزیشن کے مذاکرات کامیاب ہو گئے، صرف دستخط ہونا باقی تھے مگر نادیدہ قوتوں نے ہونے والے معاہدے کو سبوتاژ کیا اور ضیاء الحق نے شب خون مارا اور 5 جولائی 1977ء کو بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا، تختہ الٹنے کے بعد آئین کو معطل کر دیا گیا، ضیاء الحق نے کہا کہ میں 90 دن میں الیکشن کرائوں گا، میرے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہیں اور الیکشن کے بعد اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کر دوں گا، جمہوری سسٹم ایک بار پھر سے بحال ہو جائے گا۔وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا کے مصداق ضیاء الحق کی طرف سے 90 دن کا وعدہ گیارہ سالوں پر محیط ہو گیا، اس دوران ضیاء الحق نے اخبارات پر سنسر شپ عائد کر دیا، سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ صحافیوں ، شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کو بھی کوڑے مارے گئے، ضیاء الحق کا دور آمرانہ ادوار میں سے بد ترین دور ثابت ہوا، ہر طرف مایوسی کا عالم تھا۔ ضیاء الحق کی طرف سے پاکستانی قوم کو چار تحفے ملے، کلاشنکوف، ہیروئن، ایم کیو ایم اور افغان مہاجرین، اس کے ساتھ ضیاء الحق نے جمہوری سسٹم کو کمزورکرنے کیا گیا ۔1979 ء وہ بد قسمت گھڑی تھی جب افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کی جنگ شروع ہوئی، امریکہ نے یہ جنگ پاکستان کے توسط سے لڑنے کا فیصلہ کیا اور جہاد افغانستان کے نام پر جہادی گروہ پیدا کرائے گئے، امریکہ نے ڈالر پانی کی طرح بہا دیئے اور پاکستان میں اسلحے کے انبار لگا دیئے، اوجڑی کیمپ کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا کہ وہ امریکی اسلحہ جو کہ روس کے خلاف استعمال ہونے کیلئے آیا تھا پاکستانیوں پر برس گیا۔ امریکہ نے ضیاء الحق کو مضبوط کیا اور ضیاء الحق نے امریکی ایجنڈے کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا پوری دنیا میں اثر ہوا کہ تقریباً تمام مسلم ممالک اور دنیا کے بیشتر ممالک کی طرف سے ضیاء الحق کو مشورہ دیا گیا کہ وہ پھانسی کے فیصلے پر عمل نہ کرے مگر ضیاء الحق کی ضد تھی کہ بھٹو رحم کی اپیل کرے، بھٹو نے اپنی جان دے دی مگر ایک آمر کے سامنے رحم کی اپیل نہ کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو عدالتی قتل کا نام دیا گیا اور عدالتوں نے بھی نظریہ ضرورت کے تحت ہر مارشل لاء کو قبول کیا۔ ضیاء الحق نے 1985ء میں غیر جماعتی الیکشن کا ڈھونگ رچایا، محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا گیا اور آٹھویں ترمیم کے ذریعے اپنے تمام غیر آئینی اقدامات کو جائز اور قانونی قرار دلوایا، بعدازاں ضیاء الحق بہاولپور کے قریب ہیلی کاپٹر حادثے میں زندہ جل گئے، ان کی راکھ کے علاوہ ان کے دانت ملے ، بعدازاں ضیاء الحق کے پیرو کار آگئے جنہوں نے آج تک پاکستان میں استحکام نہیں آنے دیا اور سرائیکی کی وہ کہاوت سامنے آئی ’’ڈین گئی ڈند سٹی گئی‘‘ آج بھی قوم 5 جولائی کے عذاب سے گزر رہی ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو ملک دو لخت ہو گیا، مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا، 93 ہزار پاکستانی فوجی ہندوستان کی قید میں چلے گئے،مشرقی پاکستان پر ہندوستان کا قبضہ ہو گیا ، بقیہ پاکستان میں سخت تشویش اور افراتفری کا عالم تھا۔ انہی حالات میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی قیادت سنبھالی اور پاکستانیوں کو حوصلہ دیا، ہندوستان سے مذاکرات کئے اور 93 ہزار جنگی قیدیوں کی با عزت رہائی ممکن بنائی، تباہ حال معیشت کی بحالی کیلئے انہوں نے اسلامی ممالک کے دورے کئے اور اُن سے امداد حاصل کی، اس کے ساتھ ان ملکوں سے پاکستانیوں کیلئے ملازمت کے مواقع حاصل کئے اور دھڑا دھڑ لوگ سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ملکوں میں ملازمت کیلئے جانے لگے، معیشت سنبھلنے لگی، ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان میں ہندوستان سے شکست کے نتیجہ میں ایٹمی طاقت بننے کا بھی فیصلہ کیا اور امریکہ و دوسرے یورپی ممالک کی مخالفت کے باوجود ایٹم بم پر کام جاری رکھا، امریکہ اور اُس کے حواریوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان میں استحکام آنے لگا، امریکا کو یہ بات قطعی طور پر پسند نہ تھی کہ پاکستان میں استحکا م آئے اور وہ اسلامی ایٹمی طاقت کے طور پراسلامی بلاک کی سربراہی کرے، بھٹو کے یہی ’’جرائم‘‘ تھے جس کی بناء پر انہیں تخت سے اتار کر تختہ دار تک پہنچایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر