ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زراعت کو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا نام دیا جاتا ہے ، 2020-21ء کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً 20 فیصد ہے جسے بتدریج 30 سے 40 فیصد تک کیا جا سکتا ہے اور اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ملازمتوں میں زراعت کا حصہ تقریباً 38فیصد ہے جسے بآسانی 50 فیصد کیا جا سکتا ہے۔ درختوں سے وافر مقدار میں آمدنی ہوتی ہے اور قومی معیشت میں مویشیوں کا حصہ بھی وافر مقدار میں شامل ہے مگر حکومت کی زراعت کی طرف توجہ کم ہے۔وسیب بنیادی طور پر زرعی ریجن ہے ،پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے امید ہو چلی تھی کہ زراعت پر توجہ دی جائے گی مگر بدقسمتی سے ابھی تک مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ سڑکیں بن گئی ہیں مگر سی پیک کی بنیاد زراعت پر مبنی صنعتوں کا قیام تھا ابھی تک صنعتیں قائم نہیں ہو سکیں اور وسیب تو مکمل طور پر خالی ہے۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ سی پیک کی اساس کے مطابق وسیب میں زراعت پر مبنی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے ، زراعت سی پیک منصوبے کی روح ہے اس پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کرنے کا مقصد منصوبے کی روح نکالنا ہے۔ آئے روز پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ، مہنگے کھاد ،بیج اور زرعی ادویات سے فصلوں کی کاشت میں کسانوں کو فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے ، نہری پانی کی کمی اور مہنگے پٹرول و ڈیزل سے کاشتکار بروقت فصلیں کاشت نہیں کر پائے جس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بڑی کمی کا خدشہ ہے۔ زراعت اہم شعبہ ہے اس پر جتنی توجہ کی ضرورت ہے اسے وہ حاصل نہیں، کسانوں کو سہولتوں کے ساتھ ساتھ جدید انفارمیشن دینے کی ضرورت ہے، کسانوں کو چین و دیگر ترقی یافتہ ممالک کی زرعی ترقی سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ بے توجہی کے باوجود پاکستان 400 ملین سے زائد زرعی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے، بنگلہ دیش کی زرعی پیداوار میں پٹ سن ہے جس سے وہ بھاری زر مبادلہ کما رہے ہیں جبکہ پاکستان زرعی وسائل سے مالا مال ہے اور سرائیکی وسیب کو تو زراعت کے حوالے سے بہشت کا نام دیا جاتا ہے ، اگر زراعت پر مکمل توجہ دی جائے تو نہ صرف پاکستان کی زرعی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں بلکہ ہمسائے ملکوں کی غذائی ضروریات بھی پاکستان پوری کر سکتا ہے، صرف کھانے کے تیل کو دیکھ لیں کہ اربوں ڈالر کھانے کے تیل پر صرف ہو جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ سب کچھ ممکن ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ سی پیک منصوبہ کے زرعی مقاصد پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا اور یہ منصوبہ سست روی کا شکار کیوں ہے۔ میں نے بنگلہ دیش کا ذکر کیا،کچھ دوست ناراض ہوتے ہیں مگر ہر اچھے عمل کی تقلید ہونی چاہئے،حسد نہیں رشک کرنا چاہئے،ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کو رول ماڈل بنانا چاہئے،ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ہم پیچھے کیوں رہ گئے ۔ نصف صدی کا قصہ ہے ، آج کا بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا، کسی کو غربت کا طعنہ دینا ہو تو اسے بھوکے بنگالی کہا جاتا تھا ، آج اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کو ترقی کا رول ماڈل قرار دیا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کی۔ اس وقت بنگلہ دیش کے زرمبادلہ ذخائر 47بلین ڈالر سے زائد ہیں، 2554ڈالر فی کس جی ڈی پی ہے، خوشحالی کی وجہ سے شہریوں کی اوسط عمر 63 سے بڑھ کر 73 سال ہو گئی ہے، ترسیلات زر 21 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کی ایک وجہ بجلی کی پیداوار بھی ہے جو 25 ہزار میگاواٹ تیار کی جا رہی ہے۔ 50 سال پہلے چند یونیورسٹیاں تھیں ، اب ایک سو ستر ہو چکی ہیں، تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح 98 فیصد ہو گئی ہے، سکولوں میں تمام سہولتیں میسر ہیں، بنگلہ دیش نے ایک سو خصوصی اقتصادی زونز بنائے ہیں مگر ان کا کامیاب پروگرام ایک گھر ایک فارم پراجیکٹ ہے، کیا پاکستان میں یہ سب ممکن نہیں؟۔ غلط پالیسیوں کی بدولت پاکستان میں کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں تباہی نہ آئی ہو مگر زراعت ایسا شعبہ ہے جو تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ، ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال وسیب میں کپاس کی پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے کم ہو کر صرف ساٹھ لاکھ گانٹھ رہ گئی ، امسال بھی کپاس کم کاشت ہوئی ہے ، پیداوار میں کمی نہری پانی کی قلت ، مہنگے بیج ، کھاد اور زرعی ادویات کی وجہ سے پیش آئی، وہ کاشتکار جنہوں نے زمینیں مستاجری پر حاصل کر رکھی ہیں وہ تو مستاجری کی رقم دینے سے بھی معذور نظر آتے ہیں ۔کپاس کی کم پیداوار کے باعث وسیب میں سینکڑوں کاٹن فیکٹریاں بند ہو چکی ہیںجس سے ہزاروں ملازمین بیروزگار ہو ئے ہیں ، وسیب میں کپاس کو وائٹ گولڈ کہا جاتا ہے ، اگر حکومت توجہ دے تو اس سے ملکی معیشت کا پہیہ چل سکتا ہے کہ یہ واحد نقد آور فصل ہے جو کہ ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر وعدوں کے بر عکس زرعی شعبہ حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی شعبے میں کوئی مستقل پالیسی اختیار نہیں کی جاتی، ہر نیا آنے والا حکمران ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل کرتا ہے، امریکا میں ہر نئی آنے والی حکومت کو اس وقت تک اقتدار منتقل نہیں کیا جاتا جب تک وہ مختلف شعبہ جات کی جامع پالیسیاں تھنک ٹینک کے سامنے پیش نہ کرے ، پاکستان میں اس طرح کی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ کسی بھی نئی آنے والی حکومت کو یہ اختیار نہ ہو کہ مستقل پالیسیوں کو اپنی مرضی کے تابع کر سکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی شان و شوکت سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) شروع کیا گیا، سب سے پہلے تو ہمارے ارباب اختیار نے میرٹ سے ہٹ کر روٹس میں تبدیلیاں کرائیں، یہی وجہ ہے کہ مغربی روٹ جس میں وسیب اور صنعتی علاقے آتے تھے کو تبدیل کیا گیا، اقتصادی زونز اپنے مرضی کے مطابق رکھوائے گئے اور زرعی ریجن وسیب کو مکمل طو رپر نظر انداز کر دیا گیا۔ تبدیلیوں کے باوجود موٹر وے کے کچھ منصوبے مکمل ہوئے ، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ چار سال قبل ملتان ، سکھر موٹر وے تعمیر ہو چکی تھی صرف افتتاح ہونا تھا مگر سال ڈیڑھ سال ویسی کی ویسی پڑی رہی کہ حکومت تبدیل ہو چکی تھی اور امریکا بہادر کی خوشنودی حاصل کی جا رہی تھی۔ معیشت کا بٹھہ بیٹھنے لگا ، امریکا کے لولی پاپ دم توڑ گئے تو ہمارے حکمران دوبارہ چین کی طرف متوجہ ہوئے اور خدا خدا کر کے ملتان سکھر موٹر وے کا افتتاح ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر