مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب کا سیاسی بحران||ظہور دھریجہ

انڈین پنجاب کے پاس دو ڈویژن گئے تو وہاں تین صوبے پنجاب ، ہریانہ اور ہماچل بن چکے ہیں ، مسلم پنجاب میں نئے صوبے بننے کی بجائے ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بہاولپور کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا، پاکستان میں نئے صوبے نہیں بنائے گئے جبکہ انڈیا میں 9 صوبے تھے،

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب میں اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے، وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کے اقتدار کااصل نتیجہ عدالت کے فیصلے پر منحصر ہے تاہم بزرگ سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کا یوٹرن سامنے آیا ہے کہ ہماری جماعت حمزہ شہباز کو نہیں ، چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ دے گی۔ اقتدار کی جنگ جس قدر پنجاب میں لڑی جا رہی ہے دوسرے صوبوں میں نہیں، اس کی ایک بڑی وجہ پنجاب کا بڑا حجم ہے، اگر سینیٹ سے منظور کئی گئی آئینی ترمیم پر عمل کیا جائے پنجاب کا بحران ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکتا ہے ۔ انڈین پنجاب کے پاس دو ڈویژن گئے تو وہاں تین صوبے پنجاب ، ہریانہ اور ہماچل بن چکے ہیں ، مسلم پنجاب میں نئے صوبے بننے کی بجائے ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بہاولپور کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا، پاکستان میں نئے صوبے نہیں بنائے گئے جبکہ انڈیا میں 9 صوبے تھے، اب وہاں 36 صوبے بن چکے ہیں۔ کسی بھی خطے کی تاریخی و تہذیبی قدامت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، ہمارے پیارے وطن پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ اس میں قدیم ملتان و دیگر تہذیبی خطے اس کا حصہ ہیں، حکمرانوں کو اپنے ملک کی سربلندی کے لئے ان خطوں کے آثار قدیمہ کو معدومیت سے بچانا چاہئے اور ان علاقوں کو بھی ترقی دینی چاہئے۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے بہت سی چیزوں کا پتہ چلتا ہے، تقسیم سے پہلے پنجاب کے پانچ ڈویژن تھے، ان میں انبالہ ، جالندھر، لاہور، ملتان اور راولپنڈی شامل ہیں، لاہور ڈویژن کے اضلاع شیخو پورہ اور گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور گورداس پور تھے، تقسیم کے بعد گورداس پور بھارت کے پاس چلا گیاجبکہ ملتان ڈویژن کے اضلاع منٹگمری، لائل پور، جھنگ، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان تھے۔ابساہیوال کو ڈویژن بنا دیا گیاہے جب یہ ضلع تھا تو اوکاڑہ اورپاکپتن اس کی تحصیلیں تھیںجو کہ اب مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے میں شامل نہیں۔ لائل پور میں چنیوٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ نئے ضلعے بنے یہ بھی مجوزہ صوبے کا حصہ نہیں اور جھنگ جو کہ وسیب کی قدیم تہذیب کا گہوارہ ہے وہ بھی مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے میں شامل نہیں۔ البتہ سابق ریاست بہاولپور کو مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے میں شامل کیا گیا ہے، یہ ملتان ڈویژن کی بات تھی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مجوزہ صوبہ سابقہ ملتان ڈویژن کے نصف حصے پر قائم کرنے کی سکیم ہے جو کہ کسی بھی اکائی کیلئے مسلمہ اصولوں کے برعکس ہے۔ معروف مورخ ابن حنیف نے اپنی کتاب ’’سات دریائوں کی سرزمین ‘‘میں لکھا کہ ملتان شہر کی گلیوں سے گزرتا ہوں تو ان کی گہرائیوں کے نیچے مجھے ہزاروں برس پہلے کا ملتان سویا ہوا محسوس ہوتا ہے جو صدیوں تک اجڑتا اور پھر آباد ہوتا رہا ہے۔ سرائیکی وسیب کی قدامت کیلئے سپت سندھو اور ملتان شہر کے حوالے کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ شاہ نامہ فردوسی میں ہندوستان کی سات بادشاہتوں کا ذکر ہے ، اس میں شاہ کابل ، شاہ سندھ ، شاہ ہند، شاہ صندل، شاہ چندل، شاہ کشمیر اور شاہ مولستان کا نام ہے ۔ ابو الفضل کی کتاب ’’ آئین اکبری‘‘ میں ملتان کی حدود ایک طرف اجمیر اور دوسری طرف ٹھٹھہ، تیسری طرف مکران اور چوتھی طرف کشمیر تک دکھائی گئی ہیں۔ ابو الفضل نے ہندوستان کی آٹھ بڑی زبانوں کا ذکر کیا ہے جن میں ملتانی زبان شامل ہے ۔تاریخی کتب میں ملتان سلطنت کے طور پر موجود رہا ہے جبکہ لاہو رکا ذکر مغلیہ عہد کے صوبے کے طور پر آیا ہے، سلطنت کے طور پر کہیں نہیں۔ مغلیہ عہد میں ملتان بھی صوبہ تھا اس کی حدود اوکاڑہ اور گوگیرہ سے آگے رائیونڈ تک تھیں، آج کا سرگودھا اور لائل پور (فیصل آباد )وغیرہ تک کے علاقے ملتان میں شامل تھے۔ یہ تاریخی حوالہ ہے کہ ہندوستان کے تین بادشاہ ملتان میں پیدا ہوئے، ایک بہلول لودھی دوسرے محمد شاہ تغلق اور تیسرے احمد شاہ ابدالی۔ بہلول لودھی کے بارے میں تاریخی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ ان کی پیدائش یکم جون 1401ء کو ملتان میں ہوئی،پیدائش کے وقت اچانک مکان کی چھت گر گئی اور بہلول لودھی کی والدہ فوت ہو گئی ،مرحومہ کو ملبے سے نکالا گیا اور اس امید پر پیٹ چاک کیا گیا کہ شاید بچہ زندہ ہو تو اللہ نے کرم کیا بچہ زندہ تھا، بہلول لودھی کا والد لڑائی میں مارا گیا تو بچے کو ان کے چچا سلطان خان جو سرہند کو صوبیدار تھا ،کے پاس بھیج دیا، سلطان خان نے تربیت کی ، جوان ہونے پر بیٹی کا رشتہ دیا اور ایک دن وہ دہلی کا بادشاہ بنا۔ سلطان بہلول لودھی کے 1451ء میں دہلی کا اقتدار سنبھالنے کے چار سال بعد اسلام خان نے سیت پور میں جاگیر کی منظوری حاصل کی۔ 1455ء میں سیت پور میں ریاست کا قیام عمل میں آیا، اگر چہ اسلام خان اور اس کا خاندان لودھی النسل تھا۔ جلیل پور کے آثار 1963ء میں دریافت کئے گئے، یہ آثار ہڑپہ سے 46میل جنوب مغرب میں ملتان سے 46میل شمال مشرق اور عبدالحکیم کے قصبہ سے صرف ڈیڑھ میل کے فاصلے پر جلیل پوری نامی گائوں کے قریب ہیں ، ان کا رقبہ 1400×1200فٹ ہے، ان کی کھدائی کے دوران قبل از ہڑپائی دور اور ابتدائی ہڑپائی دور کے آثار برآمد ہوئے ، یہاں قبل از ہڑپائی دور کی ظروف سازی اپنی ابتدائی حالت میں ملتی ہے۔ اس کے علاوہ دھنی وال میں ہزاروں برس پرانے آثار دریائے بیاس کے بائیں کنارے پر مغل والا کے صرف دو میل کے فاصلے پر واقع ہیں ، یہ آثار بھی ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے ہم عصر اور کچھ ان سے بھی پہلے کے بتائے جاتے ہیں۔ ملتان کے قصبہ تلمبہ کی تاریخ بھی ڈھائی ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں ملتان رجمنٹ نے بغاوت کی اور انگریز کی بجائے مسلمانوں کا ساتھ دیا جس کی بناء پر حریت پسندوں پر سخت ستم ڈھائے گئے، ملتان کے جاگیرداروں ، گدی نشینوں، مخادیم اور ہندو مہاجنوں نے غداری کی، غداروں کے ہاتھوں لکھی گئی تاریخ میں حریت پسندوں کو جانگلی قرار دیا گیا جبکہ غداروں کو ہیرو بنا کر جاگیریں دی گئیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: