افتخار الحسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
17 جولائی جوں جوں قریب آرہا ہے انتخابی گہماگہمی بڑھتی جا رہی ہے اور امیدوار اپنی اپنی جیت کیلئے پورا جتن لگانے میں مصروف ہیں اور ووٹرز کو رام کرنے کیلئے تمام حربے استعمال کررہے ہیں ۔ جنوبی پنجاب کے 8 صوبائی حلقوں میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے امیدوار آمنے سامنے ہیں ۔ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے تمام منحرف ارکان اب ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر میدان میں اترے ہیں ۔ ویسے تو تمام حلقوں میں سخت مقابلے ہیں مگر 2 حلقوں میں کانٹے دار اور دلچسپ مقابلہ دیکھنے میں آرہا ہے پی پی 217 ملتان شہر جہاں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کے ایم این اے بیٹے میدان میں اترے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل عام انتخابات 2018 میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کو آزاد حیثیت سے شکست دینے والے سلیمان نعیم اب مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر میدان میں اترے ہیں جن کو پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کا مکمل تعاون حاصل ہے ۔ عام انتخابات میں تمام جماعتوں کے امیدوار سلیمان نعیم کے مدمقابل تھے جبکہ سلیمان نعیم اکیلے اور آزاد حیثیت سے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نواز، تحریک انصاف سمیت متعدد امیدواروں کو شکست دے چکے جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی اسی حلقہ سے ایم پی اے کا الیکشن ہارنے کے باوجود ایم این اے کے الیکشن میں کامیاب ہوئے اور تاحال اسی حلقہ سے ایم این اے ہیں ۔ ضمنی انتخاب میں اس حلقہ کی جیت یا شکست انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے کیونکہ اسی شکست یا جیت نے مستقبل کی سیاست کا تعین کرنا ہے مسلم لیگ کے امیدوار سلیمان نعیم کو سب سے زیادہ خطرہ مسلم لیگ کے راہنماوں سے ہے کیونکہ وہ کسی صورت دل سے یہ بات قبول نہیں کر سکتے کہ ملتان کی چودھراہٹ سلیمان نعیم کے سپرد کر دی جائے اس لئے بظاہر تو سب کے سب سلیمان نعیم کی الیکشن کمپین میں مصروف ہیں کیونکہ پارٹی کا فیصلہ ہے جو نہ چاہتے بھی قبول کرنا پڑ رہا ہے اور مسلم لیگ کے مقامی راہنما نمبر بازی میں مصروف ہیں خود ہی متعدد امیدوار میدان میں اتارے گئے اور پھر پارٹی قیادت کے سامنے اپنے نمبر بنانے کیلئے سلیمان نعیم کے حق میں دستبردار کرادئیے گئے اور الیکشن کے بعد دستبردار ہونے والے امیدواروں کو دلکش عہدوں کا حقدار بنادیا گیا جن کا وعدہ پارٹی قیادت نے بھی کردیا اس ساری صورتحال سے مسلم لیگ کی مرکزی قیادت مکمل باخبر ہے اسی لئے عابد شیر علی کو فیصل آباد سے ملتان پی پی 217 الیکشن مہم کا انچارج بناکر بھیجا گیا ہے جو گزشتہ 2 ہفتوں سے ملتان میں ہی قیام پذیر ہیں ۔ عابد شیر علی نے بہت حد تک معاملات بظاہر تو بہتر کر لئے مگر تاحال کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے ۔ اس ساری صورتحال کے ساتھ مہنگائی اور بیڈ گورننس بھی سلیمان نعیم کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں اگر الیکشن سے قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی اضافہ بھی کیا گیا تو مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اسی طرح تحریک انصاف کے امیدوار زین قریشی کو تحریک انصاف کی مقبولیت کے باوجود مشکلات کا سامنا ہے موروثی سیاست اور موجودہ ایم این اے ہونے کی وجہ سے ورکرز میں شدید تشویش پائی جاتی ہے زین قریشی کی جگہ تحریک انصاف کے کسی عام ورکر کو ٹکٹ دیا جاتا تو شاید مقابلہ زیادہ آسان ہوتا کیونکہ پی پی 217 اربن ایریا پر مشتمل ہے اور تحریک انصاف کے ورکرز، ووٹرز موروثی سیاست کے خلاف سخت شعور رکھتے ہیں بہرحال یہاں پر سخت اور کانٹے دار مقابلہ کی توقع کی جا رہی ہے
جنوبی پنجاب کے پی پی 224 لودھراں میں بھی دلچسپ اور کانٹے دار مقابلہ کی توقع کی جا رہی ہے یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ عام انتخابات 2018 میں عامر اقبال شاہ مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر امیدوار تھے اب وہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں اور اسی طرح زوار وڑائچ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار تھے اب وہ مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر میدان میں اترے ہیں جو ورکرز سپورٹرز ووٹرز کیلئے بھی بڑا امتحان ہے جو 2018 میں تحریک انصاف کے جھنڈے اٹھائے پھر رہے تھے اب وہ مسلم لیگ کے جھنڈے اٹھا کر الیکشن مہم میں مصروف ہیں اسی طرح مسلم لیگ والے تحریک انصاف کے جھنڈے تلے میدان میں اترے ہوئے ہیں ۔ زوار وڑائچ کو جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ عبدالرحمان کانجو کی مکمل حمایت حاصل ہے جبکہ ماضی میں عبدالرحمان کانجو اور جہانگیر ترین آمنے سامنے رہے ہیں اب دونوں گروپ مسلم لیگ نواز کا حصہ ہیں ۔ دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ 2017 کے ضمنی انتخاب میں لودھراں کے قومی اسمبلی کے انتخاب میں عامر اقبال شاہ کے والد پیر اقبال شاہ نے جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو شکست دی جس پر مسلم لیگ نواز کی پوری قیادت شکریہ ادا کرنے کیلئے لودھراں پہنچے اور قریشی خاندان 25 سال سے مسلم لیگ کا حصہ رہے اب ضمنی انتخابات میں ٹکٹ نہ دینے پر راہیں جدا کر لیں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اب جہانگیر ترین مسلم لیگ کا حصہ ہیں جبکہ پیر اقبال شاہ کے خاندان نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی بہرحال دنگل سج گئے ہیں پی پی 217 اور پی پی 224 میں دلچسپ اور کانٹے دار مقابلوں کی توقع کی جا رہی ہے
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر