نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تھرمیں غذائی قلت کا شکار بچے اور پیپلزپارٹی||رضوان ظفر گورمانی

دو ہزار دس میں میرےے علاقے کوٹ ادو کے بیس کلومیٹر ریڈئس میں مواک کے ذریعے بچوں کو چیک کیا گیا تو چار سو بچے غذائی قلت کا شکار نکلے رنگ پور میں ہم نے ڈھائی ہزار بچوں کا اک سال میں علاج کیا راجن پور میں بھی تعداد ہزاروں میں نکلی

رضوان ظفر گورمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں پیپلز پارٹی پر تھر کے بچوں والے الزام پر یقین کر لیتا اگر میں غذائی قلت کے شکار بچوں پر چار سال کام نہ کر چکا ہوتا
غذائی قلت جسے مل نیوٹریشن کہتے ہیں یہ چھ ماہ سے انسٹھ ماہ تک کے بچوں میں ہوتی ہے اس کی دو اقسام اور دو سٹیجز ہوتی ہے او ایف پی اور او ٹی پی
او ایف پی کے لیے پلمپی نٹس او ٹی پی کے لیے پلمپی نٹس ساتھ ایف سیونٹی فائیو یو ایف ہنڈرڈ دودھ دیتے ہیں
ماں کے لیے بھی آٹا اور گھی دیا جاتا ہے
غذائی قلت کا پتا موواک نامی اک ٹیپ سے چلتا ہے (جو تصویر میں میں نے اک سنانواں پنجاب کی بچی کے بازو پر لگائی ہے) اس کے علاج کے لیے بچے کو مونگ پھلی اور ویجیٹیبل آئل سے بنی چاکلیٹ پلمپی نٹس اور بسکٹ کے ساتھ منرلز وغیرہ دیتے رہیں تو اک سے ڈیڑھ ماہ میں بچہ کیور ہو جاتا ہے سندھ حکومت ہو یا ڈبلیو ایچ او اس کے علاج کا سٹینڈرڈ طریقہ یہی ہے
سندھ حکومت سمیت درجنوں دیگر ادارے تھر سمیت سانگھڑ شکار پور مٹھی تھر وغیرہ میں اس پر کام کر رہے ہیں
کیا یہ بیماری صرف سندھ میں ہے تو اس کا جواب ہے نہیں
دو ہزار دس میں میرےے علاقے کوٹ ادو کے بیس کلومیٹر ریڈئس میں مواک کے ذریعے بچوں کو چیک کیا گیا تو چار سو بچے غذائی قلت کا شکار نکلے رنگ پور میں ہم نے ڈھائی ہزار بچوں کا اک سال میں علاج کیا راجن پور میں بھی تعداد ہزاروں میں نکلی
اب آخری بات بھی سنتے جائیں حالیہ سالوں میں غذائی قلت کے باعث سندھ سے زیادہ بچے کے پی کے میں وفات پا گئے
میڈیا کے پاس بھارت و پاکستان کے مختلف علاقوں کے بچوں کی فوٹیجز پڑی ہیں بس جب مقامی نمائندے کو اور کوئی خبر نہیں ملتی تو وہ ایسی خبر بھیج دیتا ہے اور آگے چینلز وہی پرانی فوٹیجز کے ساتھ مصالحہ لگا کر نیوز چلا دیتے ہیں
باشعور بندے سمجھ سکتے ہیں کہ تھر کی حالت موغادیشو جیسی ہو چکی ہوتی تو سندھ حکومت تو چلو بے حس ہے دنیا بھر کے ادارے یوں خاموش نہ بیٹھے ہوتے ایمرجنسی لگ چکی ہوتی یونیسف ڈبلیو ایچ او ڈبلیو ایف پی جیسے عالمی اداروں نے سب آفسز قائم کر لیے ہوتے
تو گزارش اتنی ہے کہ تھر میں ہر بچہ غذائی قلت سے ہلاک ہو رہا ہے یہ کسی مقامی نمائندے کی ٹیبل سٹوری تو ہو سکتی ہے مگر حقیقت نہیں..

یہ بھی پڑھیں:

ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

رضوان ظفر گورمانی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author