نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک ایس۔ایچ۔او سالا|| ذلفی

خیر میں صبح پھر تھانے گیا اور ایف آئی آر مانگی مگر مجھے پھر ٹال دیا گیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور دوست سے رابطہ کیا وہ بھی پولیس میں ہوتے ہیں۔ اچھے پڑھے لکھے لوگوں میں سے ہیں انہوں نے کہا میں خود آپ کے ساتھ چلوں گا ایف آئی آر درج ہو جائیگی۔

ذلفی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.

کسی فلم کا مشہور ڈائیلاگ ہے کہ ایک مچھر سالا آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے۔ یہاں کوٹ ادو کے عوام کو ایک مجتبی نامی ایس ایچ او نے ہیجڑا بنا رکھا ہے۔
روز کوئی نئی واردات، روز کوئی نئی ڈکیتی اور روز کوئی نیا قتل۔ پچھلے دو تین ماہ سے یہ روٹین بن چکی ہے۔ شہر کے اندر اور مضافات میں دن دیہاڑے جرائم کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔ یہ سب تھانہ کوٹ ادو کی آشیرباد سے ہو رہا ہے۔ اس کا میں ذاتی تجربہ کر چکا ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ میری بائیک میرے گھر کے گیٹ سے چوری ہو گئی اور میں نے 15 پر کال کی تو پولیس میرے پاس آ تو گئی مگر ان کا رویہ بہت ہی عجیب تھا۔ کہنے لگے آپ نے یہاں کھڑی کیوں کی، یہ سرا سر آپ کی غلطی ہے، آپ کی رپٹ تو درج ہو جائیگی مگر بائیک ملنے کا چانس آٹے میں نمک کے برابر ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ ! خیر یہ مرحلہ طے ہوا تو میں نے ایف آئی آر درج کروانے کیلئے ایس ایچ او کا اتا پتا نکالا تو پتا چلا کہ صاحب بہادر ڈیرہ غازیخان سائیڈ کے ہیں اور میرے کچھ جاننے والوں کے دوست ہیں۔ میں نے اپنے جاننے والوں سے کہا کہ مجتبی سے کہو میری بائیک کی ایف آئی آر کاٹے۔ وہ جاننے والے بھی محکمہ پولیس میں تھے اور اس کے فیلو تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ہم کہہ تو دیتے ہیں مگر ایس ایچ او نہایت ہی چوتیا قسم کا آدمی ہے وہ سوائے پیسے کے کسی کی بات نہیں سنتا۔ جس تھانے میں بھی جاتا ہے وہاں یکدم کرائم ریٹ بڑھ جاتا ہے آر صاحب بہادر چوروں اور ڈاکووں سے باقاعدہ بھتہ لیتا ہے اور وہاں شریف لوگوں کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آتا ہے۔ خیر میں نے کہا آپ لوگ کہہ دو میں باقی سمبھال لونگا۔ میرے دو دوستوں نے صاحب بہادر کو کال کی اور مجھے کہا آپ چلے جاؤ تھانے آپ کی ایف آئی آر درج ہو جائیگی۔ میں اور میرا ایک دوست تھانے چلے گئے وہاں مجتبی کا پتہ کیا تو ایک سپاہی نے بتایا کہ وہ سامنے بیٹھے ہیں۔ ہم نے جاکر سلام کیا تو منہ میں کچھ بڑبڑایا سمجھ نہیں آئی کیا کہہ رہا ہے۔ ہم نے تعارف کروایا اور اپنے دوستوں کا حوالہ دیا تو صاحب بہادر نے کہا بیٹھ جاؤ۔ ہم بیٹھ گئے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ اپنے موبائل میں مختلف ٹیکسٹ چیک کر رہے ہیں اور واٹس اپ پر لگے ہوئے ہیں۔ کبھی واٹس اپ کھولتے ہیں تو کبھی موبائل کا کلکولیٹر ۔۔ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کر رہے ہیں۔ مجھے تھوڑی دیر بعد سمجھ آئی کہ اپنی دیہاڑی کا حساب کتاب لگا رہے ہیں۔ خیر آدھے گھنٹے بعد بے خیالی کے عالم میں پوچھا خیریت ہے کیسے آنا ہوا۔ ہم نے کہا سئیں بائیک چوری کی ایف آئی آر درج کروانی ہے فلاں فلاں دوست نے تھوڑی دیر پہلے آپ سے بات بھی کی تھی۔ فورا بولے پورا کوٹ ادو چوروں کا گڑھ ہے، یہاں بہت گندے لوگ رہتے ہیں، میں ان کا کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے کہا سئیں ہر شہر اور علاقے میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں سب گندے تو نہیں ہیں۔ ایسے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر بولے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں آپ خود اپنے بائیک کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے، باہر کیوں کھڑی کر دی ؟ میں نے کہا وہ تو جو ہونا ہے ہو گیا اب آپ اپنا کام تو کریں۔ کہنے لگے آپ چلے جاؤ ابھی میرے پاس بہت سی درخواستیں پینڈنگ ہیں آپ کی جب باری آئیگی ایف آئی آر درج ہو جائیگی۔ میں نے کہا سئیں یہ میرا قانونی حق ہے آپ ایف آئی آر کاٹ دیں۔ اس کے بعد صاحب کو غصہ آ گیا اور اپنے منشی کو بلا کر کہا صبح اس بندے کی ایف آئی آر درج کر دینا۔ منشی نے مجھے کہا آپ صبح آ جانا۔
خیر میں صبح پھر تھانے گیا اور ایف آئی آر مانگی مگر مجھے پھر ٹال دیا گیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور دوست سے رابطہ کیا وہ بھی پولیس میں ہوتے ہیں۔ اچھے پڑھے لکھے لوگوں میں سے ہیں انہوں نے کہا میں خود آپ کے ساتھ چلوں گا ایف آئی آر درج ہو جائیگی۔ میں اگلی صبح پھر اس کے ساتھ گیا خدا خدا کر کے ایف آئی آر درج ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد ایس ایچ او صاحب ایک بے گناہ آدمی کو پکڑ لائے اور میرے بائیک سمیت آٹھ اور بائیک بھی اس کے اوپر ڈال دئیے اور مجھے پورٹل سے میسج آیا کہ آپ کا چور پکڑا گیا ہے آپ کا مسئلہ حل ہو گیا۔ میں خوشی خوشی تھانے گیا اور پوچھا کہ چور کہاں ہے۔ ایک پولیس والے نے کہا وہ دیکھو حوالات میں کھڑا ہے۔ میں نے ڈائریکٹ اس بندے سے بات کی تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ بے گناہ ہے۔ دو تین دن بعد اس No recovery کی رپورٹ بنا کر اس کو عدالت میں پیش کر دیا گیا اور میری ایف آئی آر کھوہ کھاتے لگ گئی۔ میں پھر ایس ایچ او کے پاس گیا اور کہا سر میرا کچھ کریں میں سائیکل چلا چلا کے تھک گیا ہوں۔ کہنے لگے ہم نے تو بندہ پکڑ لیا ہے اب وہ نہ مانے تو ہم کیا کریں۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ اس بے چارے سے ایس ایچ او نے پیسے لئے اور اپنی جیب میں رکھ لئے اور ہمیں کہا کہ اب آپ کا کیس عدالت میں ہے۔ عدالت سے مجھے ہر ہفتے کال آتی ہے کہ اپنا وکیل رکھیں اور عدالت میں پیش ہوں ۔ میں ایک پیشی پر بھی نہیں گیا۔ پھر میں نے ڈی پی او سے رابطہ کیا کہ ایس ایچ او کو کہیں میرا مسئلہ حل کریں۔ وہاں سے سفارش کے باوجود ایس ایچ او ٹس سے مس نہ ہوئے بلکہ ڈھٹائی سے جھوٹے پرچے کاٹ کر دوگنی کمائی کر رہے ہیں۔ شریف آدمیوں سے پیسے لیتے ہیں اور ادھر کریمنل مافیا کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے وہاں سے بھی پیسے لیکر اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب سے یہ شخص یہاں کوٹ ادو میں تعینات ہوا ہے لوگ دوہرے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اس حوالے سے کوٹ ادو کی سول سوسائٹی کو آگے آنا چاہیے اور اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے ورنہ یہ شخص پورے کوٹ ادو کا امن غارت کر دے گا۔ اس حوالے سے کچھ دوستوں سے بات بھی ہوئی ہے امید ہے یہاں کے کچھ صحافی دوست مل کر اس کے خلاف کمپین چلائیں گے اور اس کو یہاں سے چلتا کریں گے۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے پولیس ڈیپارٹمنٹ بدنام ہوتا ہے اور ایسے ہی لوگ اپنی جیب بھرنے کیلئے پوری سوسائٹی کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ یہ مجتبی نامی ایس ایچ او جہاں بھی جائیگا وہاں کی عوام کیلئے وبال جان بنے گا۔ ایسے لوگوں کے خلاف محکمانہ کاروائی بھی ہونی چاہیے تاکہ ان جیسے نا اہل اور کرپٹ لوگوں سے محکمے کی بچی کھچی ساکھ کو بحال کیا جا سکے۔

اے وی پڑھو:

ذلفی دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author