ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہے کہ بھوک مداری کو لگی ہوتی ہے تو ناچنا بندر کو پڑتا ہے ۔آج کل کی سیاست جو کسی کھیل تماشے سے کم نہیں ہے میں مداری کا کردار موجودہ عہد کے سیاست دان نبھا رہے ہیں اور بہت خوب نبھارہے ہیں جبکہ بندر کا کردار ازل سے لے کر ابد تک عوام نے ہی نبھانا ہے اور وہ بھی بہت خوبی سے اپنے کردار کو نبھا رہی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس سارے کھیل تماشے میں ریاست کا کیا کردار ہے تو ریاست اس کھیل میں تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے ۔مداری کی بھوک کم ہی نہیں ہورہی تو بندر کب تک ناچے اور پھر مداری کی بھوک کی خاطر کیوں ناچے اور تماشائی بھی کب تک یہ گھسا پٹا ایک ہی سین بار بار دیکھے۔کیا کبھی تماشائی کو اکتاہٹ ہوگی اس مجبوری کے واہیات ناچ سے کیا کبھی تماشائی اس تماشے سے ہٹ کر کچھ نیا دیکھنے کی خواہش کرئے گا اگر ہاں تو پھر کب کرئے گا
گزشتہ سات دہائیوں میں 30 ہزار ارب کا قرضہ اور گزشتہ تبدیلی سرکار کے دور میں مزید 22 ہزار ارب روپے قرضے میں اضافہ یعنی کل ملا کر کم وبیش 53 ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا گیا۔مگر اس سب کے باوجود مداری کی بھوک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور بندر ہے کہ ناچے جارہا ہے ۔ڈگڈگی بج رہی ہے اور بندر کی اچھل کود جاری ہے کبھی ماڈریٹ روشن خیالی کے نام پر تو کبھی نئے ملک کی تعمیر کے نام پر رقص جاری ہے ۔اور ستم یہ کہ نا تو ماڈریٹ ہوئے نا روشن خیال اور نا ہی نیا ملک بنا سکے جبکہ تماشائی ہے کہ لطف ہی اٹھائے جارہا ہے
سوچنے کی بات ہے کہ اب سے تین ماہ قبل تک کم وبیش ہر مداری کو آزما لیا گیا۔کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ہر تسلی جھوٹی ہردلاسہ پرفریب ہر وعدہ بدنیتی پر مبنی ثابت ہوا۔اب تو عالم یہ ہے کہ نیا مداری ہی کوئی نہیں ملا تو ایک بار پر پرانے مداری کو دعوت دی گئی ہونا اب بھی کچھ نہیں ہے۔ نااہلی اور نالائقی سے بھرپور معاشی سفر نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن کرکے رکھ دیا ہے ۔ملک چلانے کے لیے پیسے تک نہیں اور ساری صلاحیت صرف اور صرف نئے قرضوں کے حصول پر مرکوز ہے۔لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا حاکموں کے یخ بستہ ایوانوں میں بیٹھے مداری مزید قربانیوں کا تقاضہ کررہے ہیں
دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھانے والے ایک وقت کے کھانے پر آگئے اس کے علاوہ اور کیسی قربانی درکار ہے ۔قابل علاج بیماریوں کے باجود زندگی کی بازی ہارنے والوں سے مزید کیا چاہیے ۔یہ کہاں کا اںصاف ہے کہ غلطی مداری کرے اور سزا بندر بھگتے۔معاشی پروگرام خود نہیں چلاسکتے ، بلکہ معاشی پروگرام دے نہیں سکتے قرض کی مئے پی کر بہکنے والے کہاں کے مسیحا اور کدھر کے رہنما ۔مگر کیا کرسکتے ہیں ڈگڈگی ان کے ہاتھ میں گردن میں پڑے پٹے کی رسی ان کے ہاتھ میں سو جب چاہے رسی کو جھٹکا دے کر کہے کہ صاحب کو سلام کرو اور بندر دو پیروں پر کھڑا ہوکر سلیوٹ مارنا شروع کردے ۔
اور تماشائی کی خوشی دیدنی یہ کرتب دیکھ کر تماشائی کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں کہ بندر نا صرف سمجھدار ہے بلکہ تابعدار بھی ہے ۔مداری کے کہنے پر کبھی ڈبے پر کھڑا ہوجاتا ہے تو کبھی سائیکل چلانا شروع کردیتا ہے ۔مطلب سب کچھ ٹھیک ہے انڈر کنٹرول ہے جہاں بندر زرا گستاخی کرئے وہاں مداری کے ہاتھ میں موجود چابک اپنا کام کرتا ہے ۔لہذا پریشانی کی کوئی بات نہیں تماشہ چل رہا ہے
مگر سوال اب بھی وہی ہے کہ بندر وہی ہے مگر مداری بدلنے سے تماشہ نیا تھوڑی ہوجاتا ہے ایسے میں تماشائی کو بوریت کیوں نہیں ہورہی تماشائی اکتا کیوں نہیں رہا ہے وہ کسی اور منظر کی تلاش میں کیوں نہیں ہے تماشائی کو کسی بھی مرحلے پر بندر سے ہمدردی کیوں نہیں ہورہی ؟ تماشائی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ آخر کب تک بندر مداری کی بھوک مٹانے کے لیے ناچتا رہے گا اور مداری کی بھوک کیوں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ مداری کی بھوک پہلے سے بھی زیادہ بڑھتی جارہی ہے
اب ان سوالوں کے جواب تماشائی سے کون طلب کرئے ۔تماشائی سوالوں کے جواب کہاں دیتے ہیں وہ تو بس تماشہ دیکھتے ہیں اور پھر کسی نئے تماشے کی تلاش میں آگے چل پڑتے ہیں ۔تماشائی کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ بندر پر کیا گذررہی ہے اور مداری کی بھوک کب ختم ہوگی ۔مداری کا پیٹ نہیں بھررہا تو وہ قرض لیے جارہا ہے کون اتارے کا یہ قرض کون سوال کرئے گا کہ آخر اتنا قرض کیسے واپس ہوگا؟ کیا محض بندر کے ناچ اور تماشہ سے یہ قرض اتارا جاسکے گا ۔
ایک دن کا کھیل تماشہ اختتام پذیر ہو جاتے تو مداری بندر کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے خود اپنے بستر پر سوتا ہے اور بندر کو دور ایک کونے میں باندھ دیتا ہے اور بہت منت لگا کر ایک سوکھی روٹی کا ٹکڑا بندر کے سامنے ڈال کر گویا حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر اپنی فیاضی کا اعلان کرتا ہے اور بندر کے ناچ سے کمائے ہوئے پیسوں سے پیٹ بھر کر کھانا کھا کر سکون کی نیند سوتا ہے ۔مداری کو معلوم ہے کہ تماشائی موجود ہے اور بندر کل بھی تماشہ دکھائے گا لہذا اس کے بھوکے رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اگلا دن ایک بار پھر بندر کی تابعداری اور سمجھداری کے سبب مداری کا اچھا گذرجاتا ہے اور اسی طرح مداری کا ہر دن ماضی کی طرح اطمینان سے گذر رہا ہے۔جب تک بندر زندہ ہے اور تماشائی لطف اندوز ہورہا ہے مداری کا کاروبار حیات چل رہا ہے ۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ اسی طرح تماشہ کرتے کرتے اگر کسی دن بندر زندگی کی بازی ہار گیا تو کیا ہوگا؟مداری کو دوسرا کوئی کام آتا نہیں اور نا ہی تماشائی کا دل کسی اور تماشے میں لگنا ہے ؟حرف آخر کہ اگر کھیل تماشہ جاری رکھنا ہے تو مداری کو سوچنا ہوگا کہ بندر کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے
۔
————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر