ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے کلچر میں اونٹ کا ذکر لازمی آتا ہے۔ سندھی اور بلوچی ثقافت کا اونٹ کے ساتھ گہرا تعلق ہے، تھل اورچولستان میں بھی اونٹ کی بنیادی اہمیت ہے، اسی ثقافتی تعلق کی بنیاد پر اونٹ کا لٹریچر میں بھی ذکر ملتا ہے، اکثر لوک داستانوں میں بھی اونٹ ایک اہم کریکٹر کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ زبان اور ثقافت سے اونٹ کے تعلق کی وجہ کوئی خیال یا روایت نہیں بلکہ پاکستان کے جس علاقے کے کلچر میں بھی اونٹ پایا جاتا ہے حقیقت میں بھی یہ جانور اس علاقے کے رہن سہن کا بنیادی حصہ ہوتاہے۔ روہی کا چولستان اور تھل ہو یا سندھ کا تھر اونٹ کا ان علاقوں کی زندگی میںاہم کردار ہے۔ پانی اور خوراک کی ترسیل میں اونٹ کا بنیادی کردار ہوتا ہے، یہی اونٹ ان علاقوں میں مال برداری کے بھی کام آتا ہے۔ عیدالاضحی پر یہ قربانی کے جانور کے طور پر فروخت ہو کر روزگار کا ذریعہ بنتا ہے۔ صرف مال برداری ہی نہیں بلکہ اونٹ خوراک کا بھی ذریعہ ہے۔ اونٹ کا دودھ ان علاقوں کے رہنے والوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ چولستان کی اگر بات کریں تو یہاںبھی اونٹوں کے ریوڑ ملتے ہیں، یہ اونٹ خوراک کی غرض سے چولستان میں کھلے عام پھرتے ہیں،ہر قبیلے کے جانور پر ایک مخصوص نشان ہوتا ہے، سال میں چار دفعہ اکٹھے ہو کر اپنے اپنے بکھرے ہوئے جانوروں کی شناخت کی جاتی ہے، اس سرگرمی کو ’’شوکر‘‘ کہتے ہیں۔ اونٹ سخت جانور ہے، سخت حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، صحر ا کی تپتی گرمی کو برداشت کرتاہے۔ خوراک اور پانی کے بغیر کئی کئی دن گزار سکتا ہے، چونکہ 22 جون گرمی کا سخت ترین اور لمبا دن ہوتاہے اسی لئے اونٹ کے لئے اس تاریخ کا انتخاب کیا گیا، آج دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی اونٹ پائے جاتے ہیں وہاں اس دن کو منایا جاتا ہے۔پاکستان میں اکنامک سروے کے مطابق اونٹوں کی تعداد دس لاکھ ہے۔ یہ تعداد گزشتہ چند سالوں سے اتنی ہی چلی آ رہی ہے، یقینایہ تعداد درست نہیں ہو سکتی کیونکہ حقیقت میں 2006 ء کے بعد سے مال شماری ہی نہیں کی گئی۔ اونٹوں سے ملکی معاشی سطح پر فائدہ اٹھانے کا طریقہ یہی ہے کہ جس کلچر میں جن لوگوں کے ساتھ یہ جانور رہتا ہے، ان تک پہنچا جائے ان کے مسائل کو سمجھا جائے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اونٹ عام گھروں میں کم ہوتا ہے مگر تھل اور چولستان کا کوئی گھر ایسا نہیں جہاں اونٹوں کے ریوڑ نہ ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ عربوں نے بھی اونٹوں سے محبت کی ہے مگر وہاں کیمل جوکی جیسے غیر انسانی کھیل بھی کھیلے گئے جس سے بہت سے بچوں کی قیمتیں جانیں ضائع ہوئیں، ہلاک ہونے والے بچوں کا تعلق غریب اور پسماندہ علاقوں سے ہوتا ہے ۔ سرائیکی وسیب کے بہت سے بچے کیمل جوکی کی نظر ہوئے۔ وسیب میں اونٹوں سے سراپا محبت کی جاتی ہے ،اونٹ اور ان کے بچوں کا اپنی بچوں کی طرح خیال رکھا جاتا ہے۔ وسیب میں اونٹوں کی مختلف اقسام ہیں اور ان اقسام کو ان کے رنگوں کے مطابق پکارا جاتا ہے، ان میں سے ’’کوہلی‘‘اونٹوں کا محافظ، ’’اوٹھی‘‘ اونٹ چرانے والا، ’’مہاری‘‘ شتر بان، ’’لاڈو‘‘ وزن اٹھانے والا، ’’ڈکھنا‘‘ گائیڈ، ’’بُڑک ‘‘ مست اونٹ، ’’مارہا‘‘سواری اٹھانے والا، ’’توڈا ،توڈی‘‘اونٹ کا بچہ ، بچی، ’’دوآگ‘‘ دو دانت، ’’چوگہ‘‘ چار دانت ، چھِگہ چھ دانت، ’’کھپڑ‘‘ بوڑھا اونٹ اور اس طرح بہت سے دوسرے نام ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ خواجہ فریدؒ نے اپنی شاعری میں اونٹوں کو دعا دی ہے، آپ فرماتے ہیں نازو جمل جمیل وطن دے راہی راہندے راہ سجن دے ہوون شالا نال امن دے گوشے ساڈے ہاں دے ہن ایک بات کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ میرے گائوں دھریجہ نگر کے ساتھ جمالی قبیلہ کے بہت سے گھرانے ہیں وہاں ایک درویش ملنگ رہتا تھا جسے سب ’’مِیری ‘‘کہتے تھے، نام اس کا امیر بخش تھا، اسے اونٹوں سے بہت محبت تھی، ہماری بستی کے ساتھ ایک طرف سڑک ہے دوسری طرف ریلوے لائن۔ بزرگ کہتے ہیں کہ جب سڑک نہیں تھی تو اونٹوں کے قافلے ریلوے لائن کے ساتھ بنی کچی سڑک پر سفر کرتے تھے، سڑک بن گئی تو بار برداری کیلئے اونٹوں کے قافلے سڑکوں پر چلتے تھے۔ مِیری جہاں بھی اونٹوں کو آتے دیکھتا بھاگ کر وہاں پہنچتا اور قافلے کے سالار سے اونٹ کی واگ ’’مہار‘‘ لے لیتا اور پھر بے خودی میں اونٹوں سے باتیں کرتا۔ کبھی کبھار وہ اونٹوں کیلئے چارہ بھی لیکر رکھتا تھا، اسے اونٹوں کی اقسام اور اونٹوں کے نام بھی یاد تھے، ہمارے علاقے میں اونٹوں کے میلے ہوتے تو مِیری جمالی جو کہ میل کچیلے کپڑوں کے ساتھ رہتا تھا مگر میلے کے موقع پر وہ کپڑے دھلواتا ، پگ تیار کراتا اور بڑے اہتمام کے ساتھ میلے میں پہنچ کر لطف اندوز ہوتا اور واپسی پر گھنٹوں میلے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا اور اس کی زبان جو کہ لڑکھڑاتی تھی اور توتلا بولتا تھا کے ساتھ ساتھ اپنے تن بدن اور ہاتھوں کے اشاروں سے اونٹوں کی کشتی کا حال بیان کرتا۔میں جب بچپن کی یادوں کوکریدتا ہوں اوراونٹوں اور دیگر جانوروں سے اپنی بستی والوں کی محبت کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ جتنی محبت اونٹوں اور دیگر جانوروں سے ہمارے گائوں کے لوگ کرتے ہیں شاید اور کوئی نہ کرتا ہو۔ ماضی کی فلم میری آنکھوں کے سامنے چل رہی ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اونٹ، بیل، گائے کٹا، بھیڑ ، بکریاں ، گدھاگھروں میں ہوتے تھے اور کوئی گھوڑی اور خچر وغیرہ بھی رکھتے تھے، داجلی اور دھنی بیلوں کا بڑا نام تھا،چرنے والے بڑے مال کو سرائیکی میں ’’چھڑوالی یا چھیڑو‘‘ کہتے ، اگر کوئی جانور نقصان کرتا تو ’’چھیڑو‘‘ اس کو بہت مارتا، بڑے ناراض ہوتے تھے کہ ’’گگدام‘‘ بے زبانوں کو نہیں مارنا چاہئے،جانوروں یعنی بے زبان کیلئے سرائیکی میں لفظ ’’گگدام‘‘ بولا جاتا ہے ۔ وسیب کے جانوروں کو دیسی اور نسلی جانوروں کو ’’اصیل‘‘ جبکہ زیادہ دودھ دینے والے جانور کو سرائیکی میں ’’کھیر آلی‘‘ کہتے ہیں۔ جانور اگر بیمار ہو جاتے تو دیسی علاج کیا جاتا، جانوروں کی خوراک گھاس، جوار ، باجھری، گندم، چنے اور آٹا ہوتا ، دولت مند افراد جانوروں کو گھی اور شہد بھی کھلاتے ، جانور جب بچہ دیتا ہے تو اس کے دودھ سے ’’ناہرہ‘‘ یعنی کھیر بنائی جاتی ۔ بھیڑوں اور بکریوں کے رہنے کی جگہ کے گرد کیکر کی لکڑیوں سے دیوار بنائی جاتی ہے جسے سرائیکی میں ’’واڑی‘‘کہتے ہیں، بڑے جانوروں کے لئے ایک عارضی کمرہ بھی بنایا جاتا جسے سرائیکی میں ’’بھانا‘‘ کہتے ہیں۔ دریائی اور صحرائی علاقوں میں جو عارضی ٹھکانے بنائے جاتے ہیں ان کو سرائیکی میں ’’جھوک‘‘ کہتے ہیں۔ سرائیکی وسیب زرعی سماج ہے، سب لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں ، اگر کوئی مزدوری کرتا ہے تو وہ بھی کھیت سے متعلق ہوتی ہے ، دیہاتوں میں کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا جہاں جانور نہ ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر