ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
20جون کو ہر سال پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے،اس دن کی مناسبت کے حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ دنیا کوایسے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنی چاہئے جو بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی میزبانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لوگ نقل مکانی اور ہجرت پر کیوں مجبور ہوتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ نقل مکانی کی ایک وجہ کشیدگی اور جنگ ہے، دوسری عدم مساوات کے باعث غربت۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں مہاجرین کی بڑی تعداد جہاد افغانستان کے موقع پر پاکستان آئی۔ افغانستان کا مسئلہ بڑی طاقتوں کے فساد کے باعث پیش آیا جسے جہاد کا نام دیا گیا، بڑی طاقتوں کی طرف سے خطے میں مسلط کئے گئے اس فساد کے نتیجے میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی متاثر ہوئے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان سے ملحقہ علاقے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک سب سے زیادہ اس کی زد میں آئے۔ اس کے نتیجے میں ڈی آئی خان اور ٹانک سے ہزاروں مقامی خاندان کراچی اور وسیب کے دیگر شہروں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے ان کو پناہ گزین کا نام دیا جائے گا یا کوئی اور، اس بارے فیصلہ ہونا چاہئے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ پناہ گزین کا روپ دھار کے پاکستان آئے ہیں جن کو واپس بھیجا جانا چاہئے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے یہ کہہ کر چونکا دیا ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پڑوسی ملک افغانستان سے بہت سے لوگ پاکستان جا رہے ہیں، یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے کہ پاکستان نے پہلے ہی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے افغانستان کے مسئلے پر بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں بدامنی کی بھاری قیمت ادا کی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشی مشکلات کے باوجود پاکستان نے 4دہائیوں سے 30لاکھ سے زیادہ افغانیوں کو پناہ دی، اب افغانستان میں امریکہ کی آشیر باد سے طالبان کی حکومت آئی ہے تو اس کا بوجھ بھی امریکہ کو خود اٹھانا چاہئے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) پاکستان کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے کہا کہ جنوری 2021ء سے اب تک اڑھائی لاکھ افغان پناہ گزینوں نے پاکستان میں پناہ حاصل کی، یہ اعداد و شمار خوفناک ہیں ، پاکستان ان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ کے نمائندے نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں 13 لاکھ رجسٹرڈ اور اتنے ہی غیر رجسٹرڈ پناہ گزین موجود ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پناہ گزینوں نے اپنے آنے جانے کو کاروبار بھی بنا لیا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے واپس جانے والوں کو گرانٹ ملتی ہے جو کہ ڈالروں کی شکل میں ہوتی ہے، اس میںسے کچھ حصہ بیورو کریسی بھی بانٹ لیتی ہے لیکن اس سارے کھیل میں نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے کہ پاکستان ایک مقروض ملک ہے اور یہاں کے مقامی کروڑوں افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ افغان مہاجرین کی بہت زیادہ تعداد ضیا الحق کے دور میں پاکستان آئی ، بڑے بڑے افغان مہاجرین کے کیمپ بنائے گئے جن میں ڈی آئی خان اور ٹانک کے دیو ہیکل کیمپ قابل ذکر ہیں ۔ پوری دنیا میں مہاجرین کا قانون یہ ہے کہ وہ کیمپوں میں رہتے ہیں، کیمپوں سے باہر نہیں آ سکتے مگر یہاں سب نے دیکھا کہ افغان مہاجرین کب کیمپوں میں رہے ؟ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد ہیروئن و دیگر منشیات کے ساتھ ساتھ ناجائز اسلحے کے ڈپو کھل گئے اور پاکستان میں امن و عامہ کے مسائل پیدا ہوئے ‘ خون کی ہولی کھیلی گئی ‘ پاکستان میں دہشت گردی پیدا ہوئی ، فرقہ واریت نے جنم لیا ، تربیتی کیمپ بنائے گئے ‘ کرائم مافیا نے سر اٹھایا ، بم دھماکوں سے شہر بازار تو کجا عبادت گاہیں بھی محفوظ نہ رہیں ،پاکستان سیکورٹی فورسز نے بہت زیادہ قربانیاں دیکر دہشت گردی قابو پا یا۔ پچھلی حکومت نے افغانیوں کے بچوں کو شناختی کارڈ یعنی شہریت دینے کا جو جواز پیش کیا در اصل وہ بے جواز تھا ‘ وہ کہتے تھے کہ ٹارگٹ کلنگ اور سٹریٹ کرائم کی وجہ وہ لوگ جو کراچی میں انڈر گراؤنڈ ہیں اور افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کے شناختی کارڈ نہیں بنائے جاتے ، ان کو ملازمتیں نہیں ملتیں ، جس کی بناء پر یہ جرائم کی طرف راغب ہوئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جو اصل اصیل اور حسبی نسبی پاکستانی ہیں کیا ان کو ملازمتیں مل چکی ہیں؟، کیا حکومت پاکستان نے تمام پاکستانیوں کو شناختی کارڈ مہیا کر دیئے ہیں ؟ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جرائم پیشہ بھی کہا جا تا رہا اور شہریت دینے کی باتیں بھی ہوتی رہیں، افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی بجائے وہ افغانی جو خود کو پاکستانی سمجھتے ہی نہیں ان کو پاکستانی شہریت کس کھاتے میں ملے گی ؟ ۔ مہاجرین کی آمد اور آبادکاری کا مسئلہ ہمیشہ حساس رہا ہے ۔ پناہ گزینوں کی تاریخ کو دیکھیں تو آسٹریلیا، کینیڈا ، امریکا ، سپین ، روس ، جرمنی وغیرہ کی تاریخ پناہ گزینوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ ایک وقت یہودیوں کو بھی پناہ گزین بننا پڑا اور فلسطینی مسلمانوں کو بھی لیکن سب سے بڑی ہجرت ہندوستان کی تقسیم کے وقت سامنے آئی اور تقریباً 70 لاکھ مسلمان پناہ گزین ہندوستان سے پاکستان آئے ، ہندوستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی داستان نہایت ہی دردناک ہے ۔ مقامی افراد کی کشادہ دلی سے ابھی وہ ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان کے دو لخت ہونے کا سانحہ پیش آ گیا ، اس سانحے کے بعد ابھی ہم سنبھلے ہی نہ تھے امریکا اور روس کی جنگ ’’ جہاد افغانستان ‘‘ کی شکل میں پاکستان پر مسلط ہو گئی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ پاکستان پر آ پڑا ۔ افغان پناہ گزینوں کی آمد کے بعد امن و امان کی صورتحال جس قدر خراب ہوئی اور کرائم کی شرح بڑھی ‘ اس کا تذکرہ پولیس ‘ رینجرز اور تمام حساس اداروں کے ریکارڈ میں آج بھی محفوظ ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر