عرفان اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لودھراں کے دو صوبائی حلقوں پی پی 224 اور پی پی 228 میں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے۔ دونوں حلقوں میں دلچسپ صورتحال ہے جہاں ایک حلقے میں سخت حریف دوسرے حلقے میں قریبی دوست بن چکے ہیں۔ پی پی 228 کی بات کریں تو یہ سیٹ جہانگیر ترین کے گھر کی سیٹ ہے جہاں ان کا اپنا ووٹ درج ہے۔ یہاں پی ٹی آئی کے منحرف ایم پی اے نذیر خان بلوچ کو نون لیگ نے ٹکٹ دی تو نون لیگ کے ضلعی عہدیداروں کی بجائے جہانگیر ترین کے سٹاف نے ٹکٹ امیدوار کو تھمائی۔
بنیادی طور پر یہ صوبائی حلقہ قومی حلقے این اے 161 کے نیچے آتا ہے جہاں پچھلے دس سال سے جہانگیر ترین اور صدیق بلوچ کا سخت مقابلہ چلتا رہا ہے اور جہانگیر ترین نے اپنا پیسہ اور وقت لگا کر بار بار الیکشن بھی لڑا اور ایک بار صدیق بلوچ کو نا اہل بھی کرایا جبکہ بعد میں صدیق بلوچ تو بحال ہو گئے لیکن جہانگیر ترین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پارلیمانی سیاست سے آؤٹ ہو گئے اور عدالت نے تاحیات نا اہل قرار دے دیا لیکن جہانگیر ترین نے اس حلقے میں اپنی ٹیم کے ذریعے سیاسی خدمات جاری رکھیں۔
اب چونکہ نذیر خان بلوچ جہانگیر ترین کے امیدوار ہیں اور نون لیگ کی ٹکٹ بھی ان کے پاس ہے تو نذیر خان بلوچ کے روایتی حریف سید محمد رفیع الدین بخاری جو کہ خود بھی نون لیگ کا حصہ ہیں اور ضلع کے واحد سیاستدان ہیں جو 2008 سے مسلسل نون لیگ میں کھڑے ہیں، سید رفیع الدین بخاری نے صدیق بلوچ کی قیادت میں الیکشن میں اترنے کا فیصلہ کیا جس پر نون لیگ کی مرکزی قیادت نے صدیق خان بلوچ کو لاہور بلایا اور کہا کہ سید رفیع الدین بخاری کو دستبردار کرائیں لیکن صدیق بلوچ نے قیادت کو صاف انکار کیا اور بتایا کہ ہماری سیاسی بقا اسی میں ہے کہ ہم الیکشن میں جائیں۔
صدیق خان بلوچ اس وقت نون لیگ کے ممبر صوبائی اسمبلی ہیں انہوں نے پارٹی کو کہا کہ میں آپ کا پابند ہوں اگر آپ بہت زیادہ مجبور کرتے ہیں تو میں اپنی سیٹ سے مستعفی ہوجاتا ہوں لیکن نذیر خان بلوچ کے خلاف سید رفیع الدین بخاری الیکشن ہر حال میں لڑیں گے جس پر پارٹی نے خاموشی اختیار کر لی لیکن آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا کہ مریم نواز و دیگر قیادت لودھراں جلسہ کرنے آتی ہے یا نہیں۔
آزاد امیدوار سید رفیع الدین بخاری کی کیمپین نون لیگ کی ضلعی قیادت اور ممبر صوبائی اسمبلی صدیق خان بلوچ خود چلا رہے ہیں اور اس وقت دونوں حلقوں میں سب سے تیز کیمپین سید رفیع الدین بخاری کی ہے جبکہ نذیر خان بلوچ اپنی ذاتی حیثیت میں کیمپین چلا رہے ہیں جہانگیر ترین کی ٹیم میں سے ایک دو لوگ ان کے ساتھ ضرور ہوتے ہیں لیکن علی ترین یا جہانگیر ترین خود ابھی تک عملی طور پر میدان میں نہیں اترے ہیں اور نہ ہی نون لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی نمائندہ میدان میں نظر آ رہا ہے۔
پی ٹی آئی نے پارٹی ٹکٹ اپنے دیرینہ ساتھی کیپٹن عزت جاوید کو دی ہے جو جنرل الیکشن میں ٹکٹ نذیر خان بلوچ کو ملنے کی وجہ سے ناراض ہو کر الگ ہو گئے تھے۔ کیپٹن عزت جاوید کی کیمپین میں پی ٹی آئی والا روایتی جوش و خروش تاحال نظر نہیں آ رہا اور یہی محسوس ہو رہا ہے کہ الیکشن میں اصل مقابلہ سید رفیع الدین بخاری اور نذیر خان بلوچ کے درمیان ہے۔ دوسری طرف سید رفیع الدین بخاری کو تاحال پی ٹی آئی کی ٹکٹ کی آفر موجود ہے کیونکہ نشان الاٹ ہونے تک کوئی بھی امیدوار تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن سید رفیع الدین بخاری نے اپنے جلسوں میں کھلے عام کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہم مسلم لیگی ہیں اور جیت کر سیٹ میاں شہباز شریف کو تحفہ دیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں پی پی 228 میں نون لیگ کی ضلعی قیادت اور صدیق خان بلوچ آزاد امیدوار کے حامی اور جہانگیر ترین و نون لیگ کے امیدوار کے مخالف ہیں وہیں دوسرے صوبائی حلقے پی پی 224 میں صدیق خان بلوچ اور نون لیگ کی ضلعی قیادت جہانگیر ترین و نون لیگ کے امیدوار زوار حسین وڑائچ کے بھرپور حامی ہیں اور اپنے لوگوں سے زوار وڑائچ کو ووٹ دینے کا کہہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار صدیق خان بلوچ و جہانگیر ترین خود یا ان کے کارکنان ایک دوسرے کی لیڈرشپ کو برا بھلا نہیں کہہ رہے ہیں اور اس غیرفطری اتحاد کو حقیقت مانتے ہوئے اپنے اپنے من پسند امیدوار کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
پی پی 228 میں اگر نون لیگ کے امیدوار نذیر خان بلوچ کو آخری وقت تک جہانگیر ترین کی ہر طرح کی سپورٹ اور نون لیگ کی عملی سپورٹ نہیں ملتی تو ان کی مشکلات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ ایک مضبوط امیدوار ہیں اور بھرپور مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایم این اے میاں شفیق آرائیں اور تمام ضلعی قیادت کا ایک ہی مشن ہے دونوں سیٹوں پر منحرف اراکین کسی طرح سے ہار جائیں اور اس کے لئے وہ بھرپور کوشش بھی کر رہے ہیں اور کوشاں ہیں کہ عمران خان لودھراں میں آ کر جلسہ کریں اور تمام حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ اگر عمران خان لودھراں آتے ہیں تو وہ نام لے لے کر اپنے منحرف اراکین کے خلاف تقریر کریں گے جس سے دونوں منحرف اراکین کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ڈویژنل صدر مسلم لیگ ن، وفاقی وزیر و لودھراں سے ممبر قومی اسمبلی عبدالرحمان خان کانجو اس تمام صورتحال میں تمام نگاہوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ وہ آج لودھراں پہنچ چکے ہیں اور آئندہ ایک دو روز میں امیدواروں کی کیمپین کے لئے میدان میں ہوں گے ۔ پی پی 224 کا اکثریتی حلقہ ان کے قومی حلقے کے نیچے آتا ہے اور وہاں وہ جہانگیر ترین و نون لیگ کے متفقہ امیدوار زوار حسین وڑائچ کی بھرپور سپورٹ کریں گے جبکہ دوسرے حلقے پی پی 228 میں تاحال ان کی طرف سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا لیکن یہ ضرور دیکھا جا رہا ہے کہ ان کے قریبی ساتھی سید رفیع الدین بخاری کی کیمپین کا حصہ بن چکے ہیں۔ جس ملاقات میں صدیق خان بلوچ نے نون لیگ کی قیادت کو دستبردار ہونے سے انکار کیا تھا اس ملاقات میں عبدالرحمان خان کانجو بھی شریک تھے اس لئے بظاہر وہ صدیق خان بلوچ کے فیصلے کے ساتھ جائیں گے اور انہیں یقین ہے کہ سید رفیع الدین بخاری الیکشن جیتنے کی صورت میں نون لیگ میں ہی شمولیت اختیار کریں گے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی