دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎‎گائنی فیمنزم: ماہواری کے پیڈز معاشرے کے لیے باعث شرم کیوں؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہمیں یہ واقعہ یاد آیا جب ہم نے ایک گھر میں یہ گفتگو ہوتے سنی۔ ہمیں وہ زمانہ یاد آ گیا جب ٹیلیویژن پہ پیڈز کے اشتہار دیکھ کر لوگ باگ زمانے کو خوب کوسا کرتے تھے کہ شرم و حیا اٹھ گئی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”امی، امی، میں کیا کروں؟“

رات بارہ بجے سب کاموں سے فارغ ہو کر وہ اپنے بستر پہ جا ہی رہی تھی کہ بیٹی آہستہ سے کمرے میں داخل ہوئی۔ شکل پہ ہوائیاں اڑ رہی تھیں، آنکھوں میں ہلکی سی نمی بھی تھی شاید۔ ارے اسے کیا ہوا؟ اس نے سوچا۔

”کیا ہوا میری شہزادی؟“ اس نے پچکارتے ہوئے کہا۔
”آپ ڈانٹیں گی تو نہیں؟“ تیرہ چودہ سالہ بچی نے پریشان آواز میں کہا۔
”بیٹا بتاؤ تو، میں پریشان ہو رہی ہوں“ ماں گھبرا کر بولی۔

” پیریڈز آ گئے ہیں اور گھر میں پیڈز ہی نہیں ہیں۔ سوری امی، میں نے باتھ روم کی الماری میں رکھا بیگ پہلے دیکھا ہی نہیں کہ وہ خالی ہے۔ آپ کو وقت پہ بتا دیتی“ بچی کی آواز میں ڈر، خوف، شرمندگی سبھی کچھ تھا۔

ماں کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔

”گھبراؤ نہیں بیٹا۔ ہو جاتا ہے ایسا کبھی کبھی، غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے، فرشتے سے نہیں“ ماں نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

ماں نے گھڑی دیکھی، ”افوہ۔ رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ اب کیا کریں؟ ٹھہرو، تمہارے ابا سے بات کرتی ہوں“

”سنیے“ ، ٹی وی پہ کسی مذاکرے میں ہونے والی گرما گرم بحث میں محو صاحب کو اس نے متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
”ابھی نہیں، ابھی بات بہت دل چسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے“ ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کرواتے ہوئے جواب ملا۔

”یہاں بھی ایک گمبھیر مسئلہ ہے بھئی، پلیز پہلے وہ سن لیجیے“ وہ دھیمی آواز اور ملتجی لہجے میں بولی۔
” تم لوگوں کے گمبھیر مسائل ہمیشہ آدھی رات کو ہی شروع ہوتے ہیں؟“ جھلا کر جواب ملا۔
”کیا ہوا اب بتاؤ؟“
”جا کر مارکیٹ سے پیڈز لا دیجیے“ وہ دھیمی آواز میں بولی۔
”کیا کہا؟ کیا لا دوں؟“ میاں کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ ”یہ کیسی فرمائش ہے آدھی رات کے وقت؟“
”پیڈز، سینیٹری پیڈز“ اس نے تھوک نگلتے ہوئے بمشکل کہا۔
” میں لا کر دوں یعنی کہ۔ ۔ ۔میں“ شوہر کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔
”جی آپ“ اسے کہنا ہی پڑا۔

”لاحول والا قوہ“ شوہر تند لہجے میں بولا۔
”کیوں لاحول پڑھنے کی کیا بات ہے اس میں؟“ بیوی بولی۔
” کیا یہ مردوں کے خریدنے کی چیز ہے؟“ مرد ابھی بھی غصے میں تھا۔
”تو برائی کیا ہے اس میں؟“ بیوی ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔
”کیسی شرم والی بات ہے یہ۔ ۔ ۔“
”کس بات کی شرم؟“
”یعنی میں سپر مارکیٹ کے شیلف سے پیڈز کا لفافہ اٹھاؤں اور پھر کاؤنٹر تک لاؤں“
”جی ہاں“
”یعنی بیٹی کی ماہواری کا سامان باپ خرید کر لائے؟“ شوہر کا لہجہ طنزیہ تھا

”بیٹی پیدا بھی اسی نے کی ہے، کل کو اسی بیٹی کو باپ کسی اور مرد کے ساتھ رخصت بھی کرے گا اور اس کی اولاد کو نانا بن کر سینے سے بھی لگائے گا۔ یہ سب ماہواری ہی کا کمال ہے۔ پوچھیے مجھ سے ان لڑکیوں کے والدین کا حال جنہیں ماہواری نہیں آتی“ بیوی نے نرم مگر قطعی لہجے میں کہا۔

”پھر بھی۔ شرم و حیا بھی تو کوئی چیز ہے“
”خالق نے جب سب کچھ ایسا ہی بنایا، جانتے بھی سب ہیں تو کیا خواہ مخواہ کی اداکاری کرنی انجان بننے کی“
”تم تو ہر بات کا آپریشن کر دیتی ہو۔ خیر یہ عورتوں کی مخصوص چیزیں انہی کو خریدنی چاہئیں“

” شکر کریں، گھر کی بچی نارمل ہے اور اس کے لیے خریدنے کا موقع مل رہا ہے۔ اگر مخصوص چیز موجود ہی نہ ہو تو؟ ماہواری آئے ہی نہیں تو؟ پھر وہ مرد کیا کرے گا؟ کہاں پھینکے گا اس بیٹی کو؟ کیسے شادی کرے گا؟ کیسے اس کا بوجھ سے اتارے گا؟“

”اچھا بابا، تم سے بحث میں کون جیت سکا ہے آج تک“ شوہر صاحب زچ ہو کر بولے۔
”نہیں بحث برائے بحث کا تو وقت ہی نہیں۔ میں تو حقیقت کی بات کر رہی ہوں“ بیوی نے کہا۔
”اچھا بابا، چلا جاتا ہوں“ انتہائی جھنجھلا یا ہو جواب۔
”بہت سی اقسام کے پیڈز ہوں گے وہاں۔ دبیز تہہ اور سائیڈ ونگز والے لیجیے گا“
”اب کیا پیکٹ اٹھا اٹھا کر چیک بھی کرنا ہو گا؟“ شوہر کی مری مری آواز آئی۔

”جی بالکل۔ میں چلتی ساتھ مگر مجھے صبح بہت جلد یونی ورسٹی پہنچنا ہے اور رات بہت ہو گئی ہے“ بیوی نے وضاحت کی۔
” اب یہی کام رہ گیا تھا کرنے کو زندگی میں۔ “ زیر لب بڑبڑاہٹ۔

”یہی زندگی کا بنیادی دھارا ہے اور شکر کیجئے کہ ہماری بچیاں اس میں شامل ہیں۔ قدرت کی طرف سے کسی کمی کا شکار نہیں ہوئیں“ ماں نے آہستہ سے کہا۔

ہمیں یہ واقعہ یاد آیا جب ہم نے ایک گھر میں یہ گفتگو ہوتے سنی۔ ہمیں وہ زمانہ یاد آ گیا جب ٹیلیویژن پہ پیڈز کے اشتہار دیکھ کر لوگ باگ زمانے کو خوب کوسا کرتے تھے کہ شرم و حیا اٹھ گئی۔

اسی تسلسل میں عورت مارچ میں پیڈز کی بات ہوئی تو لڑکیوں کو دیدہ ہوائی اور بے حیا عورتیں قرار دیا گیا۔ میڈیکل سٹور پہ پیڈ جب تک لفافے میں لپیٹ کر نہ دیا جائے، لوگ اسے اپنی غیرت کے لیے تازیانہ سمجھتے ہیں۔ پیڈز بنانے والی کمپنی نے اقرار کیا کہ ان کی راہ میں بے شمار دشواریاں حائل ہیں۔ ماہواری پہ ہم نے بلاگ لکھنے شروع کیے تو بے شمار لوگوں سے طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں کہ ہن جانے کس طرح کی عورت ہیں ہم، پردے کی بات اور چوراہے میں؟

آج تک ایک بات کی سمجھ ہمیں نہیں آئی کہ وہ چیز جس کا تعلق زندگی کی نمو سے جڑا ہے، اس پہ تنقید، اس کے تعلق سے شرمندگی، اور منہ چھپانے کے معنی کیا ہیں؟
صرف ایک سیکنڈ کے لیے سوچ لیجیے کہ اگر آپ کی بیٹی یا بہن پیدائشی طور پہ اس کمی کے ساتھ پیدا ہو تو کیسے یہ مسئلہ حل کریں گے؟

ہم نے ایسی بچیوں کے والدین کے چہروں پہ ہوائیاں اڑتی دیکھی ہیں اور بہت سے سوالوں کا جواب انہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔

کون نہیں جانتا کہ عورت کے جسم کی ساخت اور اعضا جو زندگی کی نمو کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں، سے عورت کو احساس کمتری اور شرمندگی میں مبتلا کرنا قدیم معاشروں سے چلا آ رہا ہے۔

اکیسویں صدی میں وہ وقت آ گیا ہے جب گائنی فیمینزم کی طاقت اور شعور عورت کو اس بوجھ سے نجات دلائے۔ اب اسے چھپ چھپ کر زندگی بتانے کی بجائے زندگی کے ہر میدان میں سر اٹھا کر کھڑی ہونا ہے، بلا جھجک اپنے مسائل کا ذکر کرنا ہے، اپنی تکالیف کا حل ڈھونڈنا ہے، شرم و حیا کے غلیظ، مصنوعی اور جھوٹے غلاف کو اتار کر پھینکنا ہے۔ تاکہ اپنے آپ پر ناز کر سکے کائنات میں تخلیق کے جوہر کی مالک وہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author