نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محبت اور نفسیات(2)||ڈاکٹر مجاہد مرزا

محبت اپنے تمام رومانی جذبات اور جنسی فعالیت کے باوجود ایک دھوکہ ہے کیونکہ اپنی جذباتی شکست و ریخت پر اپنے ہی جیسے فانی اور ٹوٹے ہوئے شخص کا مرہم لگانے سے کیسے اس شکست و ریخت کو ختم کیا سکتا ہے؟ اپنی ناامیدی کو پھسلایا،ورغلایا جانا ممکن نہیں اور جسمانی تعلق کے توسط سے حقیقی محبت یعنی عشق کی راہ پا لینا عبث ہے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ ذات کی تکمیل کے احساس سے بلند کیوں نہیں ہوا جا سکتا یا اس بارے میں صبر کیوں نہیں ہوتا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ محبت کے اس "گھن چکر” یا "مایا جال” میں دو افراد اپنے اپنے Ego ideal کا تبادلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے محبت کر ہی اس لیے رہے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے میں اپنے لیے چاہے جانے والی صفات کو دیکھتے ہیں۔ اگر یہ مایاجال نہ ہوتا تو کوئی بھی کسی کی محبت میں کبھی گرفتار نہ ہوتا۔
ہم محبت کرتے ہی اس لیے ہیں کہ ہم اپنی "رنگ بھری ہوئی ذات” کو حقیقی رنگ دے ہی نہیں سکتے، یہی قلق و اضطراب ہمیں ایسا کرنے کی جانب دھکیلتا ہے۔ ایک مخصوص نفسیاتی سطح کی ذات یا ایگو آئیڈیل انسانی ترقی کا محرک بھی ہے کیونکہ اگر لوگ مکمل طور پر اپنی ذات سے مطمئن ہو جائیں تو ان کے لیے محبت کرنا ناممکنات میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہم اپنی ذات کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر زندگی کے دوسرے کام نمٹانے میں لگ جاتے ہیں۔ جس سے محبت ہوتی ہے وہ بھی اصل میں ایک تخئیل کی تجسیم ہوتا ہے۔ اس کی اپنی ذات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کھونٹی پر ہم اپنی ذات کے بارے میں خواہشوں کے سراب ٹانگ دیتے ہیں جبکہ وہ شخص، محض ایک مواد ہوتا ہے، ایک پتھر کی مانند جسے آپ تراش کر ایک مجسمہ بنا چکے ہوتے ہیں۔ تبھی تو اکثر محبت کرنے کے دعویدار لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں،” پتہ نہیں میں تم سے اتنی محبت کیوں کرتا/ کرتی ہوں”:
کیا پیار اندھیرے روشنی کا گھمچال نہیں
کیا پیار اک مایا جال نہیں؟
محبت اپنے تمام رومانی جذبات اور جنسی فعالیت کے باوجود ایک دھوکہ ہے کیونکہ اپنی جذباتی شکست و ریخت پر اپنے ہی جیسے فانی اور ٹوٹے ہوئے شخص کا مرہم لگانے سے کیسے اس شکست و ریخت کو ختم کیا سکتا ہے؟ اپنی ناامیدی کو پھسلایا،ورغلایا جانا ممکن نہیں اور جسمانی تعلق کے توسط سے حقیقی محبت یعنی عشق کی راہ پا لینا عبث ہے۔
لگتا ہے جیسے رشک حسد کی دوسری شکل ہے، کچھ مثبت سی۔ یہ سوچنا کہ فلاں کا اپنا گھر کیوں ہے (خدا کرے جل کر راکھ ہو جائے) حسد کہلائے گا اور اس کا اپنا گھر ہے (میرے پاس بھی ہو چاہے اس کا ہی کیوں نہ ہو) رشک ہوگا لیکن جو چیز آپ کے پاس نہیں ہوتی اس کو پانے کی خواہش ہی رشک ہوتی ہے اور اگر یہ خواہش باوجود کوشش کے پوری نہ ہو پائے تو حسد بن جاتا ہے یعنی رشک دراصل حسد کی کونپل ہے چنانچہ رشک مثبت معانی نہیں رکھتا۔ رشک کا جذبہ ہر شخص میں ہوتا ہے کیونکہ خصائل سے وسائل تک سب کے سب ایک شخص کے پاس نہیں ہوتے۔ رشک کے جذبے کا اظہار کم ہی کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے اظہار سے آپ کے پاس باعث رشک شے کے نہ ہونے کا زیادہ گمان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جب آپ رشک کرتے ہیں تو اپنی کم مائیگی کا اعتراف بھی کر رہے ہوتے ہیں یعنی اس کا اظہار باعث خفّت اور اس کے نتیجے کا اعتراف کرنے کا مطلب ہوگا کہ آپ کا سماج کے سامنے قد کم ہو جائے گا۔
تعریف کرنا رشک کی ہی کڑی ہے مثلا” جب کوئی کہے کہ فلاں تو بے حد حسین ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ کہنے والا شخص یہ باور کر رہا ہے کہ وہ اتنا حسین نہیں ہے۔ یا مثلا” کوئی کہے کہ فلاں خود کو بہت ذہین و فطین سمجھتا ہے، کیا خاک ذہین ہے وہ۔ تو وہ دراصل اس پر خاک ڈال کر اس کی ذہانت کو تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔ رشک میں ترقی کے دو مدارج ہیں یا تو رشک کرنا چھوڑ دیا جاتا ہے اور لاتعلقی اختیار کر لی جاتی ہے یا پھر یہ بڑھ کر نفرت اور عداوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی محبت کے پس پردہ عامل نفرت ہے تو بظاہر یہ منطق عجیب و غریب لگے گی مگر جب آپ ایک غیر مطمئن انا کو مدنظر رکھتے ہیں جو اپنے اطمینان کی خاطر قابل رشک شے کے حصول کی خواہاں ہوتی ہے تو یہ منطق سمجھنا اتنا مشکل نہیں رہتا۔
ضرورت ہی لالچ کو جنم دیتی ہے۔ محبت کی مرض میں لالچ، اختیار، حصول، قبضہ، ملک ایسے سبھی منفی جذبے موجود ہوتے ہیں۔ کسی شخص کو اپنے ورطہ اختیار میں لینے یا اپنانے کی جذباتیت جراثیم ہے اور ایک لاشعوری عناد مرض کی اولیں علامت۔ عموما” یہ علامت واضح نہیں ہوتی کیونکہ لاشعوری ہوتی ہے مگر بالآخر حسد، نفرت، بے رخی اور عناد، محبت نما وقت گذر جانے کے بعد عیاں سے عیاں تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس کی مثال اس ندی جیسی ہے جو بڑے دریا میں گر کر لگتا ہے جیسے اس میں ضم ہو گئی ہو مگر کچھ دور جا کر یہ ندی پھر سے اپنی حیثیت میں دوبارہ ابھر آتی ہے۔ یہ منفی جذبے جو محبت کرنے والوں میں ایک خاص وقت گذر جانے کے بعد ابھرتے ہیں، نئے نہیں ہوتے بلکہ یہ انہیں جذبوں کا پرشور اظہار ہوتے ہیں جو لگاؤ کے باعث عارضی طور پر خاصے ماند پڑ چکے ہوتے ہیں۔
عناد یا نفرت کے برعکس بے رخی ایک ایسا جذباتی پہلو ہے جس سے محبت کے چشمے کا عود کر آنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ عام زندگی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب کسی شخص سے نفرت کی جائے تو محبت کا دروازہ کہیں نہ کہیں ہوتا ہے اس کے برعکس جب نہ تعلق ہو نہ عداوت تو بات دوسری ہوتی ہے۔
لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
ہو نہ کچھ تو اور دھوکہ کھائیں کیا؟
لاگ پر لگاؤ کی فوقیت ایک بڑے جذباتی ردعمل کے تحت ہوتی ہے۔ یہ بہت دیر تک طے نہیں ہو سکتا کہ دونوں میں سے دشمن کون ہے اور دوست کون کیونکہ لگاؤ کی وجہ سے یہ سوال اٹھتا ہی نہیں ہے۔ لاگ کو شکست ہو گئی تھی لیکن اس نے شکست مانی کبھی نہیں تھی۔ یہ کہنا فضول بات ہے کہ محبت ایک جامد حالت ہے مگر محبت جانتی ہے کہ اس نے ایک ضدی مزاحمت پر قابو پایا تھا جس کے خلاف دفاع کی مسلسل ضرورت رہتی ہے کیونکہ وہ کسی بھی وقت سر اٹھا سکتی ہے۔
محبت جس طرح شروع ہوتی ہے اسی طرح دم توڑتی ہے۔ اگر ایک نظر کا پیار تھا تو یہ بندھن یک لخت ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر محبت کے دوران کوئی رکاوٹ نہیں آئی تھی تو اس کا خاتمہ بھی بغیر رکاوٹ کے ہوگا۔ اگر یہ علالت رونے دھونے اور دکھ تکلیف سے شروع ہوئی تھی تو اس کا انجام بھی انہیں اعمال کے ساتھ ہوگا۔ اگر یہ عمل ترس کھائے بغیر ختم ہو رہا ہوتا ہے تو چوٹ کھانے والا دوسرے کو ظالم گردانے گا اور اگر ترس کھاتے ہوئے اس کو توڑنے کے عمل سے گذرا جائے گا تو یہ زیادہ ظالمانہ محسوس ہوگا۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب سے مایوس ہو جاتا ہے یا یہ کہ اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ یہ تو وہ شخص ہی نہیں تھا جس کا اس نے خواب دیکھا تھا۔ ساتھ رہ کر قریب آنے سے وہ بھیانک نظر آنے لگتا ہے۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ محبوب عموما” زیادہ تبدیل نہیں ہوتا بس محبت کرنے والے کا دیکھنے کا زاویہ بدل جاتا ہے اس لیے اسے لگتا ہے کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے یا محسوس کر رہا ہے وہ بدلا ہوا، نیا اور عجیب و غریب ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے چونکہ محبوب کا تصور بہت مضبوط ہوتا ہے جس کے سحر میں گرفتار انسان یا تو نقائص و عیوب پر نگاہ ہی نہیں ڈالتا یا انہیں قابل تحسین محاسن سمجھ رہا ہوتا ہے یا انہیں اتنی اہمیت ہی نہیں دیتا۔
پھر اس نے اپنی پسندیدہ انا کی تسکین کی خاطر قائم کردہ تصور میں اتنے خصائل و اوصاف ڈھالے ہوئے ہوتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے نقائص و عیوب پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ پہلے پہل محبت کرنے والا ان پر معترض نہیں ہوتا، عیوب و نقائص کو دیکھتے ہوئے، جانتے بوجھتے ان کی اصلاح کرنے سے اغماض برتتا ہے کیونکہ محبت کے بخار میں اسے اس کی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ اپنے ذہن میں ایک مثالی تصور بنائے ہوئے وہ محبت کو تعریف و محاسن کے رنگ میں ہی دیکھنے پر مائل ہوتا ہے۔
جب واپسی کا سفر غیر محسوس طور پر یا پھلانگتے ہوئے شروع ہوتا ہے تو اسے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نظر آنے لگ جاتی ہے۔ وہ محبوب کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی منہ بسورتا ہے، شکوے کرتا ہے اور فساد کھڑا کر دیتا ہے۔ کیا وہ اپنے مثالی متصور محبوب سے مایوس ہو گیا جو آخر انسان تھا کوئی دیوی یا دیوتا نہیں تھا؟ جی ہاں، لیکن ہوا کیا؟ محبت کرنے والا دراصل خیالی دنیا سے حقیقی دنیا میں واپس آ گیا ہوتا ہے۔ تصور کردہ محبوب اور محبوب بطور حقیقی شخص میں تمیز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے ایک تصور سے ہٹ کر اب محبوب کا کوئی اور تصور بنا لیا ہو۔
محبوب کے سامنے آنے سے پہلے ہی محبت کرنے والے کے ذہن میں محبوب کا ایک تصور ہوتا ہے۔ اصل محبوب کی متصور محبوب سے لڑائی ہوتی ہے اور وہ ایک بہتر شکل اختیار کرتا ہوا تصور پر چھا جاتا ہے تاحتٰی پہلے سے بنا تصور اور اب موجود شخص یعنی محبوب کے بارے میں رنگ بھرا بہتر تصور ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔
ایک وقت آتا ہے کہ بالکل ہی معکوس عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اصل شخصیت اور اس کی رنگ بھری ذہنی تصویر آہستہ آہستہ یا بھک سے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ اب جس شخص کو آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ اس تصور سے مماثل ہی نہیں ہوتا جو کہیں پہلے سے آپ کے ذہن میں جا گزیں ہوتا ہے۔ یوں محبت کے خواب محل میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں یا پھر وہ کانچ گھر کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔
مگر محبت اتنی جلدی ہار نہیں مانتی۔ جس شخص کو آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ اور ہے وہ نہیں، جو باتیں آپ سن رہے ہوتے ہیں وہ دوسری ہیں، پہلے جیسی نہیں۔ یہ عمل اذیت ناک ہوتا ہے مگر جب مدغم شدہ تصاویر بالکل جدا ہو کر علیحدہ علیحدہ دکھائی دینے لگتی ہیں تو محبت کا احساس بھی مر جاتا ہے۔
محبت کے دم توڑنے کے جذباتی پہلو قطعی مختلف ہیں۔ یہ محبت کرنے والے کی انا میں واقع ہونے والی تبدیلیوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ انا تو اپنی مستور مثالی انا یعنی ایگو آئیڈیل کو فتح کرنے نکلی تھی۔ اس کی ساری جدجہد ہی اس نقطے پر مرکوز تھی۔ عارضی طور پر یہ شبیہہ اسے ایک محبوب میں دکھائی دے گئی تھی لیکن اصل تصور تو بذات خود نازک شے ہے۔
آئیڈیل تو مل ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ تصور انسانی نہیں بلکہ ماورائے بشر ہے۔ انا کو اپنا مشن یک لخت ناکام دکھائی دینے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے خیال میں آپ کی محبوبہ کو معصوم اور عزت مآب ہونا چاہیے لیکن لاشعوری طور پر آپ چاہتے ہیں کہ وہ حرافہ، فاحشہ، گناہکار اور کسبی کے رویوں والی ہو۔ اس بارے میں شعوری طور پر آپ کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یہ خیال اور تصور الٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے یہ دونوں طرح کے خصائص ایک ہی انسان میں یک جا ہوں یا کر دیے جائیں اور آرزوئیں پھر بھی پوری نہ ہوں۔
اگر ایک طرف کا پلڑا بھاری ہوتا ہے تو دوسری طرف کے پلڑے کے بھاری ہونے کی خواہش سر اٹھا لیتی ہے۔ یہ خواہشیں عملا” ایک دوسرے کے متضاد ہوتی ہیں۔ ان تمام خواہشوں کو پورا کرنا، ان تمام خصائص کو ایک ہی شخص میں مرتکز کرنا انسان کے بس میں ہے ہی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے "ایگو آئیڈیل” کا ایک ہی رخ معلوم ہوتا ہے جبکہ دوسرا رخ اندھیرے میں رہتا ہے۔ اس سارے قضیے میں لاشعور ملوث ہوتا ہے اور اگر لامحالہ یہ کھل کر ہمارے سامنے آ بھی جائے تو ممکن ہے وہ ہمیں پسند ہی نہ آئے۔
جب محبت کرنے والا اس شخص پر جس کی محبت کا وہ سزاوار ہوتا ہے، اعتراض کرتا ہے تو وہ خود پر اعتراض کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی مثالی انا کو پورا نہیں دیکھ پایا تھا۔ محبت میں ناکام ہونے والے دونوں ہی فریق ہمیشہ ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہراتے ہیں اس لیے کہ دونوں ہی کے مثالی تصور پورے نہیں ہو پاتے۔ اس پر بحث کرنا اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرنے اور مخمصے میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اس کی بڑی اچھی مثال والٹیئر نے دی تھی کہ دو شخص ہوتے ہی نہیں۔ والٹیئر نے ایک نکتے پر کسی شریف شخص سے بحث کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بحث میں بہت زیادہ لوگ ملوث ہیں۔ اس شخص نے حیران ہو کر کہا تھا،”جناب ہم دونوں ہی تو ہیں بس” لیکن والٹیئر نے کہا تھا،”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے محترم۔ اس بحث میں کم از کم چھ آدمی محو گفتگو ہونگے۔ ایک وہ آدمی جو میں آپ کو سمجھتا ہوں، ایک وہ آدمی جو آپ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور ایک وہ آدمی جو آپ اصل میں ہیں اور تین میری طرف سے بھی لگا لیجیے”۔
یہ سب ان کے بارے میں ہے جو ایک بار یا چند بار محبت کا مزہ چکھتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کی نفسیات کیا ہوتی ہے جو بار بار یہ شہد چاٹتے ہیں، یا یوں کہہ لیں جنہیں محبت کرنے کی لت لگ جاتی ہے۔ ہر لت کی جڑیں کسی درد یا بدصورتی میں گڑی ہوتی ہیں جس سے چھٹکارہ پانے کے لیے وہ شخص مدہوشی کا سہارا لیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ مدہوشی کسی عام فہم کیمیائی مادے یعنی نشہ اور چیز سے ہی ہو۔ یہ مدہوشی کا عالم جوئے کی لت میں بھی ہو سکتا ہے اور جنسی اختلاط کے حظ میں بھی کیونکہ اس سے انکار کرنا یا اس کا اقرار کرنا کہ جنسی عمل میں تلذذ ہوتا ہے، بے معنی ہے۔ ظاہر ہے ہوتا ہے، تلذذ کے نشے کے ضمن میں ایک مثال یہ ہے کہ 1950 کی دہائی میں تحقیق کرنے والوں نے تجربہ کیا تھا کہ برقی انگیخت کے انتہائی لطف آور عمل کا دماغ پر کتنا اثر ہوتا ہے۔ اس انگیخت کے حصول کی خاطر چوہوں کو لیور دبانا ہوتا تھا، چوہے لیور دبا دبا کر اس انگیخت کی خاطر نڈھال ہو جاتے تھے مگر لیور دبانا جاری رکھتے تھے۔
محبت کرنے کی لت میں مبتلا شخص کو اپنی نومولودانہ خواہشات کا گیان نہیں رہتا، یہی خواہشیں بڑے ہو کر جنسی تصورات میں ڈھل جاتی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اسے مکمل اور غیرمشروط توجہ حاصل رہے۔ ایسے لوگوں کو یہ توجہ بار بار کے تقاضوں سے مل تو جاتی ہے مگر محبوب کے ماں بن جانے یا اس کی توجہ کاروبار حیات میں زیادہ ہو جانے سے انہیں شدید بے بسی کا احساس ہونے لگتا ہے اور وہ جھنجھلا جاتے ہیں۔ توجہ حاصل کرنے کا یہ سفر تھمنے کا نام نہیں لیتا اور ساتھ ہی وہ تلذذ کی لت میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہر محبوب کو وہ یہی باور کراتے ہیں کہ وہ اصل محبوب ہے پر ساتھ ہی ساتھ دوسرے اور تیسرے کو بھی یہی احساس دلائے رکھتے ہیں۔اس طرح زیادہ سے زیادہ توجہ اور تلذذ حاصل کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ قوٰی نے مضمحل تو ہونا ہی ہوتا ہے اور توجہ کی نوعیت نے بھی بدلنا ہوتا ہے۔ پھر ایسے لوگوں کو یکسانیت کا احساس یاسیت کے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔
محبت کی نفسیات کی توضیح کے لیے اور بھی کئی نظریے ہو سکتے ہیں کیونکہ نفسیات کا علم بذات خود مشاہدات اور تجزیات پر مبنی ہے۔ ان دونوں ہی افعال یعنی محبت اور جنسی عمل کی انفرادی اساس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی نفسیات کو سمجھنے کی خاطر تجرباتی جانوروں پر تجربات کیے جا سکتے ہیں لیکن بذات خود انسانی نفسیات کے ساتھ نہیں کھیلا جا سکتا البتہ اس عارضہ، المیہ یا حماقت کے جنسی عمل کی جانورانہ جبلت سے تعلق کے بارے میں تمام مکاتیب فکر متفق ہیں اور اس سے بھی کہ بچپن کے دبے ہوئے احساسات اس میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں اور اس بارے میں بھی کہ یہ روحانی مسئلہ ہرگز نہیں ہے بلکہ محض اور محض اکتسابی معاملہ ہے جس میں معاشرت اور انسانی ذہن دونوں ملوث ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author