ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو شاعر اختر انصاری نے کہا تھا کہ ’’یادِ ماضی عذاب ہے یا رب، چھین سے مجھ سے حافظہ میرا‘‘۔ اسی طرح معروف شاعر جوش ملیح آبادی کی کتاب کا نام ’’یادوں کی بارات‘‘ ہے ، ہمارے ڈیرہ غازی خان کے شاعر جعفرمدار کا سرائیکی شعری مجموعہ شائع ہوا ہے جس کا نام ’’یاداں ہن سرمایہ ‘‘۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ نے بھی یادوں کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’یاد آوم یار دے رَلڑے، نت پوون کروپ کللڑے ‘‘ اور سرائیکی کے معروف شاعر احمد خان طارق نے اپنی وفات سے پہلے یادوں کے حوالے سے لاجواب شعر کہا کہ ’’ اچھا خاناں خیر ہووی ، مُکلیندے پئے ہئیں، ویندے پئے ہئیں، یاداں سمجھ قرآن دے ورقے، سانبھ رکھیندے پئے ہیں ویندے پئے ہیں‘‘۔ پچھلے مہینے بھارتی عدالت کا فیصلہ سامنے آیا جس میں کشمیری حریت پسند رہنما یٰسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ ابھی میں سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھ رہا تھا یٰسین ملک کی زوجہ محترمہ اور ان کی معصوم بیٹی کی گفتگو چل رہی تھی، یٰسین ملک کی زوجہ محترمہ کے جذبات میں غم کے ساتھ ساتھ حریت کا جذبہ بھی موجزن نظر آیا۔ بیٹھے بیٹھے مجھے بچپن یاد آ گیا اور ہمارے بچپن میں ہونے والی پاک بھارت جنگ اور دھریجہ نگر ذہن کی سکرین پر گھوم گیا۔ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے کچھ یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں ، مگر اس سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ خان پور سے آپ رحیم یارخان کی طرف جائیں تو8 کلومیٹر کے فاصلے پر دھریجہ نگر کے نام سے ایک قصبہ آتا ہے ، اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، دھریجہ برادری کے لوگ سندھ کے حملہ آور حکمران ارغون سے لڑتے ہوئے یہاں پہنچے۔ پہلے اس بستی کا نام بستی دھریجہ تھا، آبادی بڑھنے پر دھریجہ نگر ہوا، یہی میری جنم بھومی اور میرا گھر ہے ۔ دھریجہ نگر قدیم دینی مدرسے کے حوالے سے علم کا گہوارا مگر 1980ء کے عشرے تک بستی میں نہ سڑک نہ سولنگ اور نہ ہی کوئی سکول تھا ۔ سیدھا سادہ دیہاتی ماحول ،میرے ابا حضور مسجد میں بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے اور ساتھ ہی کریانہ کی ایک چھوٹی سی دکان کھول رکھی تھی ، میری عمر پانچ سال کے لگ بھگ ہو گی، اپنے ابا حضور سے ملتانی قاعدے کا سبق پڑھتا اور ابا سئیں کے ساتھ دوکان پر بھی بیٹھتا۔ ہماری دوکان سے زمیندار کے ٹو اور غریب لیمپ کے سگریٹ خریدتے تھے ۔ ہمارے ایک قلمکار غلام یٰسین فخری تھے ، بستی کے ان پڑھ ان کو یٰسین فقری کے نام سے پکارتے ،وہ سگریٹ نہ لیتے مگر وہ ہم سے لیمپ کی خالی ڈبی لیکر اسے قینچی سے کاٹتے اور ڈبی پر طبع شدہ لیمپ یعنی لالٹین کی تصویر بکسوئے کے ساتھ جیب پر لگاتے اور صدر ایوب خان کو برا بھلا کہتے اور آگے چل پڑتے ، یہی ان کا روز کا معمول تھا ۔ مجھے کچھ علم نہ تھا ، دوسرے لوگوں کے پوچھنے پر میرے ابا حضور بتاتے کہ لالٹین محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان ہے،ایوب خان نے بے ایمانی سے فاطمہ جناح کو ہرایا ہے ، اس لئے یٰسین فخری اور بستی کا ہر سمجھدار شخص سراپا احتجاج ہے۔ شروع میں ہماری بستی میں سخت دینی ماحول تھا، میرے نانا حضور مولانا یار محمد دھریجہ جو درگاہ دین پور شریف کے بانی حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوری کے مرید ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے ساتھی اور مولانا عبداللہ درخواستی کے ہم مکتب تھے ، بستی میں کسی کو ریڈیو نہ سننے دیتے۔ سرائیکی شاعر اشرف دھریجہ کے والد خان محمد عرف ماماں خان محمد دھریجہ نے اپنی دکان پر کالے رنگ کی باڈی والا فلپس کمپنی کا ایک ریڈیو رکھا ہوا تھا جو چوری چوری چلایا جاتا ۔ اور ہاں! یہ بھی بتاتا چلوں کہ ریڈیو آن کرنے سے پہلے ایک نوجوان کی ڈیوٹی لگائی جاتی کہ خیال رکھنا کہیں مولوی صاحب نہ آ جائیں۔ خان محمد دھریجہ کی دوکان پر نوجوانوں کے ساتھ ہم چھوٹے بچے بھی ریڈیو پر چوری چوری گانے سنتے۔ایک دن کہا گیا کہ جنگ شروع ہے ،صدر ایوب خان آج قوم سے خطاب کریں گے ۔ اس دن ماما ںخان محمد کی دوکان پر پوری بستی جمع تھی اور میرے نانا حضور جو ریڈیو کو حرام قرار دیتے اور ریڈیو نہ چلانے دیتے ، سب سے پہلے آئے بیٹھے تھے۔ برادری کے سردار جام خان دھریجہ جن کا ایک وقار تھا اور وہ پبلک مقامات پر کم دکھائی دیتے، وہ بھی سب کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ خطاب سے پہلے لوگ باتیں کر رہے تھے کہ ہندوستان نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے ، اس وقت کم عمری کی وجہ سے مجھے تاریخ کا علم نہ تھا ،اب معلوم ہوتا ہے کہ غالباً 5 اور 6 ستمبر1965ء کی درمیانی رات کی بات تھی، ایوب خان نے مختصر خطاب میں دشمن سے ہر محاذ پر جنگ کرنے کا اعلان کر دیا ، اس وقت بستی کے تمام افراد نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر، پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد کے نعرے بلند کئے ۔ بی بی سی سنا جاتا اور میرے نانا حضور کی طرف سے ریڈیو سننے پر پابندی ہٹنے کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے سارا دن وطن کے گیت سنے جاتے ، بہت جوش و خروش کا مظاہرہ ہوتا، وطن کے گیت لوگ گنگناتے نظر آتے، نور جہاں کے پنجابی گیت ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے ‘‘ کو بہت پسند کیا جاتا۔ کشمیر سے ہمارا روح کا رشتہ ہے، کشمیر بنے گا پاکستان یہ نعرہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں، ریڈیو سے کشمیری ترانہ ’’میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن ‘‘ دھریجہ نگر میں بچپن کے دنوں میں سنتے تھے۔ مجھے 1965ء کی جنگ کی کچھ یادیں یاد آ رہی ہیں ، مجھے یاد ہے کہ غلام یٰسین فخری صاحب کو ہماری بستی کے کسی شخص نے کہا کہ بلیک آؤٹ کا اعلان ہو گیا ہے،ہمارے گاؤں کے ایک طرف ریلوے لائن اور دوسری طرف روڈ ہے ، بلیک آؤٹ کی وجہ سے رات کو ٹرانسپورٹ نہ چلتی تھی ، دن کو گڈز ٹرینوں پر اسلحہ کے ٹینک ہم دیکھتے تو جب تک ٹرین اوجھل نہ ہو جاتی ہاتھ ہلاتے رہتے۔ روڈ سے فوجیوں کے قافلے گزرتے تو بچے ، بوڑھے سب سلام کرتے ، اپنے طور پر جنگ سے بچاؤ کیلئے خندقیں بھی کھودی گئیں ، رات کو بلیک آؤٹ کی پابندی کیلئے ٹھیکری پہرہ ، کسی کو ماچس جلانے اور سگریٹ یا حقہ پینے کی اجازت نہ تھی ۔ خدمت خلق کے حوالے سے خان پور کے ڈاکٹر عباس علی شاہ کا بہت نام تھا ،وہ بہت خدا ترس اور غریب پرور انسان تھے ، 1965ء کی جنگ میں وہ سامان اکٹھا کر کے آگے بھیجتے ، ہماری بستی کے لوگوں نے بھی کچھ سامان اکٹھا کیا اور ان کو دے آئے ،یہ ہلکی پھلکی یادیں تھیں جو یادوں کی دنیا میں دوسری جنگی یادوں کا پیش خیمہ بنیں ۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر