وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں چونکہ خود کو دیکھنے سے ہی فرصت نہیں اس لیے ہمیں آس پاس بسنے والوں کی کم ہی خبر ہوتی ہے کہ وہ کس دنیا میں جی رہے ہیں۔کبھی کبھی اس آس پاس کی جانب ہمدردی کی ایک نظر اٹھ تو جاتی ہے پر اگلے ہی لمحے ہم اپنے آپ میں پھر سے ڈوب جاتے ہیں۔
مثلاً امراضِ چشم میں مبتلا افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق تنظیم سیوا کی گزشتہ برس کی کنٹری رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک فیصد آبادی نابینا پن کا شکار ہے اور دنیا میں موجود نابینا آبادی میں سے چار فیصد (لگ بھگ اٹھارہ لاکھ ) پاکستان میں ہے۔
اس میں سے زیادہ تر متاثرین کو معقول طبی سہولتوں کی مدد سے سماج کے لیے کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔مگر مشکل یہ ہے کہ امراضِ چشم کے مراکز اور ماہرین تک بہت کم دیہی آبادی کی پہنچ ہے۔ اور جو خواتین نابینا پن کا شکار ہیں ان کو تسلی بخش علاج تک رسائی ملنے کے امکانات نابینا مردوں کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہیں۔
جب کہ نابینا بچوں کے لیے تعلیمی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔اگر ہیں بھی تو شہری علاقوں تک محدود ہیں۔ ایک تو غربت ، اوپر سے نابینا پن اور اس پر مستزاد دور دراز علاقوں کی سکونت۔گویا ان بچوں کی اکثریت کے لیے ہر جانب سے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
نابینا چونکہ فوراً نظر آ جاتا ہے اس لیے اکثر لوگ باگ اس کی مدد کو فوراً لپکتے ہیں۔گونگا منہ کھولتا ہے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے اشاروں کو دھیان سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔وہ الگ بات کہ بہت سے لوگوں کو دیر سے یقین آتا ہے کہ یہ واقعی نابینا یا گونگا ہے ڈرامہ نہیں کر رہا۔کیونکہ اب پیشہ ور بھکاری گروہوں نے معذوری کو بھی ہتھیا لیا ہے اور مصنوعی معذور بھی پیدا ہونے لگے ہیں۔اس مجرمانہ رجحان کے سبب جو واقعی ضرورت مند ہیں ان پر بھی شک ہونے لگتا ہے۔
مگر بہرے لوگوں کے ساتھ اور طرح کے مسئلے ہیں۔وہ دیکھ سکتے ہیں ، سمجھ سکتے ہیں پر نا سننے کا سبب بیان نہیں کر سکتے۔اگر وہ اشاروں کی زبان جانتے ہیں تو سامنے والا تھوڑی دیر تو ان کی بات سمجھنے کی کوشش میں دلچسپی لیتا ہے پر کچھ دیر بعد وہ بھی اکتا کر اپنی راہ لیتا ہے۔
ہم میں سے کتنے جانتے ہیں کہ اس دنیا میں بسنے والے پانچ فیصد انسان بالکل بہرے ہیں یا بہت اونچا سنتے ہیں۔عالمی سطح پر ساٹھ برس سے اوپر کی پچیس فیصد آبادی بہرے پن سے دوچار ہے۔مگر ان میں سے بہت سے بزرگ کم ازکم بات کر سکتے ہیں یا کچھ نہ کچھ اپنے بارے میں بتا سمجھا سکتے ہیں۔
پر میری توجہ کا مرکز اس وقت کرہِ ارض کے وہ ساڑھے تین کروڑ بچے ہیں جو پیدائشی بہرے ہیں۔ انھوں نے نہ اپنی ماں کی آواز سنی اور نہ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ جو خوبصورت چڑیا سامنے کے درخت پر بیٹھی ہے کیا بول رہی ہے۔ایسے پچاسی فیصد بچے پسماندہ ممالک میں رہتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اسکول کی عمر کو پہنچنے والے بہرے بچوں کی تعداد لگ بھگ دس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے صرف پچاس ہزار بچے ہی کسی نہ کسی تعلیمی ادارے کا منہ دیکھ پاتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں میں اشاروں کی زبان جاننے والے تربیت یافتہ اساتذہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پرائیویٹ اسکول ان بچوں کو داخل کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ پھر الگ سے اسپیشل ٹیچرز اور خصوصی سہولتیں چاہیں اور سو روپے لگا کر ہزار روپے کا نفع کمانے کی دوڑ میں شامل پرائیویٹ ایجوکیشنل سیکٹر کے لیے ایسے بچوں پر سرمایہ کاری سراسرگھاٹے کا سودا ہے۔ معروف نجی اسکولوں کی کوشش ہوتی ہے کہ معذور بچوں کے والدین کو کسی نہ کسی بہانے مایوس کر کے جان چھڑا لی جائے۔کیونکہ اہمیت بچے کے مستقبل سے زیادہ اسکول کی شہرت اور اسٹیٹس کی ہے۔
رہی بات سرکار کی تو وہ تو خود اتنا اونچا سنتی ہے اور اتنا کم دیکھ پاتی ہے کہ بہرے گونگے نابینا بچوں کا مستقبل کس شمار قطار میں ہے۔ریاست قانون سازی کر کے فرض کر لیتی ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا۔
گھر میں بھی اکثر بہرے اور گونگے بچے الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔اگر والدین یا بہن بھائی میں سے کوئی ایک بھی انھیں محض ہمدردی سے دیکھنے کے بجائے ان کی زبان سیکھ لے تو یہ بچے بھی رفتہ رفتہ روزمرہ کے ضروری بنیادی اعتماد پر گرفت کر کے احساسِ کمتری کو جھٹکتے ہوئے زندگی کے ہم قدم ہو سکتے ہیں۔
غریب ماں باپ نہ تو ایسے بچوں کو اسپیشل اسکولوں میں بھیجنے کے قابل ہیں اور نہ ہی انھیں معیاری آلات لے کے دے سکتے ہیں۔ اگر والدین کسی نہ کسی طرح اپنا پیٹ کاٹ کے یہ سب کرنے کی کوشش بھی کریں تو آس پڑوس والے اور رشتے دار ان کا حوصلہ ختم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔
” ارے اس بچارے یا بچاری پر اتنا پیسہ کیوں ضایع کر رہے ہو۔ اسے کون رشتہ یا اچھی نوکری دے گا۔یہ بے چارے اپنی دیکھ ریکھ آگے چل کے خود ہی کر لیں تو بڑی بات ہے۔بس جی خدا کی جانب سے آزمائش ہوتے ہیں ایسے بچے۔کوئی کیا کر سکتا ہے “۔
ایسی باتوں سے ان بچوں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے لیے گھر والوں کے دل میں جو تھوڑی بہت امنگ جاگتی بھی ہے اکثر دم توڑ جاتی ہے۔
نابینا، بہرے یا گونگے بچے اگر کسی نہ کسی طرح سماج اور سرکاری رکاوٹوں سے لڑ لڑا کے اپنی قابلیت و صلاحیت ثابت بھی کر دیں تو سامنے بیٹھا انٹرویو بورڈ ان کے ارمانوں کی کمر توڑنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ ”ہم آپ کی صلاحیتوں کی قدر کرتے ہیں لیکن چونکہ یہ ذمے داری والا کام ہے اس لیے آپ شاید اچھے سے نہیں کر پائیں گے۔ آپ چاہیں تو ہم آپ کو فلاں فلاں نوکری دے سکتے ہیں۔اور یہ فلاں فلاں نوکری اکثر نچلے درجے کا کوئی معمولی کام ہی ہوتا ہے۔
ایسے ماحول میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ نابینا، بہرے اور گونگے ہم ہیں یا وہ جو اپنی اس مشکل سے چھٹکارا پانے کے لیے ہر امتحان سے گزرنے کو تیار ہیں۔پر ہم انھیں ہمدردی اور ترس کے سوا ضروری حوصلہ اور موقع دینے کے لیے بالکل تیار نہیں۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر