گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان اور سندھ ساگر ۔۔
ڈیرہ شھر جس دریا کے کنارے آباد ہے اس دریا کے کئی نام ہیں جیسے اباسین ۔سندھ ۔سندھو ۔مہران ۔ شیر دریا ۔ سندھ ساگر ۔انڈس ۔ وغیرہ۔
سندھ ساگر اس کو اس کی وسعت کی وجہ سے کہتے تھے کیونکہ جب گرمیوں میں یہ بپھر جاتا تو مختلف مقامات پر اس کے کنارے نظر نہیں آتے تھے۔ گرمیوں میں ڈیرہ شھر سے دریا خان تک 25 کلومیٹر دریا ہی دریا ہوتا جب اس سے دس بارہ لاکھ کیوسک پانی گزر رہا ہوتا۔ اور ہم بچپن میں دریا خان جانے کے لیے اس دریا کو ایک جہاز ایس ایس جھلم کے ذریعے عبور کرتے جس پر سارا دن لگ جاتا۔ انڈس سولائزیشن دنیا کی قدیم تہزیبوں میں شمار ہوتی ہے جس نے دنیا کو بند باندھنے ۔نہریں نکالنے سے روشناس کرایا اور کئی فصلیں بھی متعارف کرائیں۔کپاس سب سے پہلے سندھ میں کاشت ہوئ اور یہاں سے مصر اور یونان گئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی زبان میں اب بھی کپاس کو سندھونی کہتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ خوش قسمت ہیں کہ وہ دنیا کی اس قدیم انڈس تہذیب کے وارث ہیں ۔اس لیے اب بھی ان لوگوں نے صدیوں پرانی تہذیب کے عجائبات اور فنون کو سنبھال رکھا ہے جن پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے ۔
ڈیرہ اسماعیل خان ۔تجارت اور کوے کے کمالات ۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان Indus civilization میں تجارت کا اہم تاریخی شھر رہا ہے۔ مغربی کوہ سلیمان میں درہ گومل کے ذریعے وسطی ایشیائی ریاستوں ۔افغانستان اور ایران سے سامان ڈیرہ اسماعیل خان کی پاوندہ سرائے منڈی جسے کنگ منڈی King mandi کہتے تھے پہنچتا اور یہاں سے دریائے سندھ کو کراس کر کے ریل کے ذریعے ہندوستان کے اہم شھروں اور کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے برطانیہ ۔امریکہ ۔سنگاپور ۔ترکی۔عراق۔سعودی عربیہ۔مصر اور یونان روانہ کر دیا جاتا۔ جب تک ریل کی پٹڑی نہیں بنی تھی کشتیوں اور سٹیمرز کی سروس دریائے سندھ کے اندر کراچی سے اٹک تک چلتی اور سامان کی نقل حمل جاری رہتی۔ دریائے سندھ کے کنارے بڑے بڑے پتن تھے جہاں سامان کشتیوں پر اتارا اور چڑھایا جاتا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ فتح خان دریا پر ہمارے دو بڑے مشھور پتن تھے۔خشکی کے راستوں پر اونٹ ۔گھوڑے ۔خچر ۔گدھے بابرداری کا کام کرتے۔ کراچی کی بندر گاہ سے تجارتی جہاذ بحیرہ عرب اور خلیج فارس سے ہوتے ہوئے مشرق وسطی اور یورپ پہنچتے اور مشرق کی جانب بحر ہند اور بنگال سے ہوتے ہوئے مشرق بعید کو پہنچ جاتے۔ اس زمانے تجارتی جہاذ اکثر ساحل کے قریب قریب رہتے تاکہ راستہ گم نہ ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بحری راستوں کے ملاح پنجروں میں کوے پکڑ کے لے جاتے اور اگر کہیں سمندر میں راستہ کھو بیٹھتے تو ایک کوا چھوڑ دیتے اور جس طرف کوا اڑتا اس جانب جہاذ کا رخ موڑ کر ساحل پر پہنچ جاتے۔ میرا خیال ہے انگریزوں میں خط مستقیم مختصر راستہ کو Crow flight
کہنے کا رواج اس وقت سے شروع ہوا کیونکہ کوا مختصر ترین راستے کے ذریعے اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ مگر کوے کو سدھایا نہیں جا سکتا اس لیے پیغام رسانی کے لئے کبوتر سدھا کر استعمال ہوتے تھے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ