نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وفاقی بجٹ اور سخت فیصلے|| آفتاب احمد گورائیہ

اوورآل اگر وفاقی بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو مشکل ترین معاشی حالات میں بھی موجودہ بجٹ میں معیشت کو مستحکم کرنے اور معاشرے کے کمزور طبقات کی مشکلات کم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور عام آدمی پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تاکہ پہلے سے مہنگائی میں پسے ہوئے عوام پر مزید کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ جمعہ کے روز وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2022-23 کا 9500 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ ملکی معیشت کی تباہ کن صورتحال اور دستیاب وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت حد تک کوشش کی گئی ہے کہ عوام کو کچھ نہ کچھ ٹوکن ریلیف ضرور دیا جائے۔ بظاہر توقع یہی کی جا رہی تھی کہ اس سال بجٹ کافی سخت ہو گا اور اس میں عوام کے لئےصرف قربانی ہی رکھی جائے گی۔ بجٹ کو کچھ لوگ صرف الفاظ کا گورکھ دھندا ہی سمجھتے ہیں اور شائد ٹھیک بھی سمجھتے ہیں اس لئے بظاہر بجٹ میں نہ تو کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا ہے جس کا براہ راست عام عوام پر کوئی زیادہ اثر ہو اور نہ ہی عام عوام کے زیراستعمال اشیا کی قیمت میں کوئی اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بجٹ سے پہلے ہی پٹرول اور بجلی کی قیمت میں اضافے جیسے سخت فیصلے کئے جا چکے تھے اور بجٹ سے قطع نظر ان میں مزید اضافے کی بھی توقع ہے اس لئے یار لوگ بجٹ سے زیادہ ہپٹرول اور بجلی کی قیمت میں اضافے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وفاقی بجٹ کو اگر صرف الفاظ کا گورکھ دھندا بھی قرار دیا جائے توبھی اس سال کے وفاقی بجٹ میں چند اقدامات ایسے ضرور نظر آئیں گے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے درست سمت میں قدم اٹھاتے ہوئے اپنی کچھ ترجیحات ضرور متعین کی ہیں جن میں جی ڈی پی کے سب سے بڑے شراکت دار شعبہ رزاعت کو ریلیف دئیے جانے کے بارے اہم اقدامات، تنخواہ دار طبقے کو دیا جانے والا ٹیکس ریلیف اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ زرعی شعبے کے ایک بڑے مطالبے یعنی زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی بجلی پر سبسڈی جیسےمطالبے کو بہرحال نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح دفاعی بجٹ پر بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت کے اس مشکل ترین وقت میں اگر عارضی طور پر ہی سہی ایک سال کے لئے اگر دفاعی بجٹ میں کچھ کمی کر دی جاتی تو اس سے بھی ملکی معیشت کوسنبھالا دینے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی تھی۔ توقع بہرحال یہی کی جا رہی ہے کہ حکومت کے سخت اقدامات کے اثرات آنے والے چند ماہ میں نظر آنے شروع ہو جائیں گے۔ ملکی معیشت کی بحالی اور عوام کو ریلیف دینے میں حکومت مکمل طور پر سنجیدہ نظرآتی ہے اور اس کے لئے سارے اتحادی اپنے اپنے دائرہ کار میں محنت کرتے نظر بھی آ رہے ہیں۔ معیشت کی بحالی کی ان کوششوں میں چیرمین پیپلزپارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے غیر ملکی دوروں کے دوران دوست ممالک کے ساتھ اعتماد کی بحالی اوراس کے نتیجے میں معاشی تعلقات کی بحالی سے تباہ حال معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے میں بہت مدد ملے گی۔ اتحادی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وفاقی بجٹ کی منظوری کے لئے بلایا جانے والا وفاقی کابینہ کا اجلاس تین گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا اور آخری وقت میں بھی پیپلزپارٹی کے اصرار پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تجویز کردہ دس فیصد اضافے کو پندرہ فیصد کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ پچھلے سال وفاقی کابینہ نے چار پانچ منٹ کے اجلاس میں ہی وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی تھی۔ امید کی جانی چاہئیے کہ معیشت کی بحالی کے بعد اگلے سال کا بجٹ جو موجودہ اتحادی حکومت کا الیکشن بجٹ بھی ہو گا مکمل طور پر ایک عوامی اور فلاحی بجٹ ہو گا۔

حالیہ وفاقی بجٹ میں اگلے مالی سال کے لئے گروتھ ریٹ کا ہدف پانچ فیصد رکھا گیا ہے جبکہ افراط زر کی شرح کا ہدف 11.7 فیصد سے کم کر کے 11.5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ کی تجویز ہے جبکہ انکم ٹیکس کی کم سے کم شرح چھ لاکھ روپے سے بڑھا کر بارہ لاکھ روپے کر دی گئی ہے جس کا براہ راست فائدہ تنخواہ دار طبقے کو ہو گا۔ اسی طرح کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے وفاقی کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کے لئے پٹرول کی حد کو چالیس فیصد کم کر دیا گیا ہے۔ فلمی صنعت کی بحالی اورفنکاروں کی مدد کے لئے موجودہ بجٹ میں خاطر خواہ اقدامات کئے گئے ہیں تاکہ فلم اور سنیما ترقی کرے اور دنیا میں پاکستان کا سافٹ اور مثبت تشخص اجاگر کیا جا سکے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں قابل قدر حد تک اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ غربت سے نمٹا جاسکے۔ بے نظیر وظائف میں مزید ایک کروڑ طالب علموں کو شامل کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں زیور تعلیم سےآراستہ کیا جائے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنے کے لئے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ سی پیک کے تحت سپیشل اکنامک زونز کے جلد آغاز پر بھی خصوصی توجہ دئیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، غذائی تحفظ، قابل تجدید توانائی، تعلیم اور نوجوانوں کی آمدن کے لئے بھی ٹیکس میں ریلیف دئیے جانے کی تجویز ہے۔

سولرپینل کی درآمد اور ترسیل پر ٹیکس ختم کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی مشینری، گندم، چاول، بیج سمیت اس شعبے میں استعمال ہونے والی دیگراشیاءاور ان کی ترسیل پر ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔ زرعی مشینری کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنٰی دئیے جانےکی تجویز ہے۔ زرعی شعبے کی مشینری اور اس سے منسلک اشیاء، گرین ہائوس فارمنگ، پراسیسنگ، پودوں کو بچانے کے آلات، ڈرپ اریگیشن، فراہمی آب سمیت ہر طرح کے زرعی آلات پر ٹیکس ختم کرنے کی تجویز ہے۔ زرعی شعبے کو دئیے جانے والے اس ریلیف سے زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کی توقع ہے جس سے جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہو گا اور تباہ حال معیشت کو بھی تازہ آکسیجن مہیا ہو گی۔ ایک نہایت اہم قدم جو اس بجٹ میں اٹھایا گیا ہے وہ غیر پیداواری اور پرتعیش کے زمرے میں آنے والی چیزوں سے سرمائے کو پیداواری اثاثوں اور شعبوں کی طرف منتقل کرنے کے لئے کئے جانے کے اقدامات ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سمیت غیرپیداواری اثاثے جمع کرنے سے غریبوں کے لئے گھروں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ امیروں کے غیرپیداواری اثاثوں پر ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے تاکہ رئیل اسٹیٹ میں توازن آنے سے غریبوں کے لئے جائیداد کی قیمتوں میں کمی ہو۔ اڑھائی کروڑ مالیت کی دوسری جائیداد کی خریداری پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کئے جانے کی بھی تجویز ہے۔

اوورآل اگر وفاقی بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو مشکل ترین معاشی حالات میں بھی موجودہ بجٹ میں معیشت کو مستحکم کرنے اور معاشرے کے کمزور طبقات کی مشکلات کم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور عام آدمی پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تاکہ پہلے سے مہنگائی میں پسے ہوئے عوام پر مزید کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔

موجودہ اتحادی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے سخت فیصلے جنہیں اگر درست فیصلے بھی کہا جائے تو مناسب ہو گا کیونکہ ملکی معیشت کو وینٹی لیٹر سے اتارنے اور عمران حکومت کی ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے پھیلائی گئی بارودی سرنگوں کو ڈی فیوز کرنے اور ملکی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لئے یہ فیصلے ناگزیر ہیں اور اتحادی حکومت ان سخت فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نظر آتی ہے ورنہ عمران حکومت کے آئی ایم ایف سے بدترین شرائط پر کئے جانے والے معاہدے اور پھر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات اس معاہدے سے مکر جانے کے نتیجے میں ملک کی عالمی اداروں اور دوست ممالک کے سامنے جو ساکھ مجروح ہوئی اس سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات پیدا ہو چکے تھے اور کوئی عالمی معاشی ادارہ اور دوست ملک ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری سے جب ایک صحافی نے یہ سوال کیا کہ جب آپ کو معلوم تھا کہ ملک بدترین معاشی حالات کا شکار ہے اور آپ کو حکومت میں آنے کے بعد سخت اور ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑیں گے جس کا آپ لوگوں کو سیاسی طور پر نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے تو آپ نے عمران حکومت کو چلتا کیوں کیا تو اس پر صدر زرداری کا جواب ایک سٹیٹسمین کا جواب تھا کہ ہمارے سامنے ملک ڈوب رہا تھا تو کیا ہم اسے ڈوبتا ہوا دیکھتے رہتے اور اپنے سیاسی مفاد کا خیال رکھتے؟

دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان نیازی جو اپنے علاوہ باقی سب کو چور ڈاکو اور بددیانت ہی تصور کرتے ہیں ان کا کردار یہ ہے کہ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کے برعکس پہلے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کر دیں اور پھرانہیں فریز کر دیا مطلب پاکستان کو دیوالیہ کرنے کا پورا بندوبست کر دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی مفاد کے لئے عمران خان نے پاکستان کا کتنا بڑا نقصان کر دیا تھا اور عمران خان نے ایسا کوئی پہلی دفعہ نہیں کیا۔ دو ہزار چودہ کے دھرنے کے دوران عوام کو سول نافرمانی کی ترغیب دینا اور اوورسیز پاکستانیوں کو بینکنگ چینل سے پاکستان فنڈز بھیجنے سے روکنے کا کہنا یہ سب عمران خان کے اسی مائینڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر میں نہیں تو کوئی بھی نہیں حتی کہ پاکستان بھی نہیں۔ ویسے بھی عمران خان اپنے اس مائینڈ سیٹ کا اظہار اپنی زبان سے بھی کئی بار کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کو لانے سے تو بہتر ہے کہ ملک پرایٹم بم گرا دیا جائے، اگر نیوٹرلز نے درست فیصلے نہ کئے مطلب مجھے اقتدار میں نہ لایا گیا تو ملک تین ٹکڑے ہو جائے گا اور نیوکلئیرپروگرام خطرے میں پڑ جائے گا۔

اتحادی حکومت معیشت کی بہتری کے لئے اٹھائے گئے سخت اقدامات کی جو بھی توجیح پیش کرے، عام آدمی کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ان اقدامات کی نوبت کیوں پیش آئی اور سابقہ عمران حکومت کا اس میں کیا کردار ہے۔ ان سخت فیصلوں کا بوجھ بہرحال اتحادی حکومت کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس لئے ان سخت فیصلوں کے نتیجے میں عوام سے جو قربانی مانگی جا رہی ہے اس کو قابل قبول بنانے کے لئے ضروری ہے کہ حکمرانوں کے اپنے طرز عمل سے یہ ظاہر ہو کہ اس مشکل وقت میں حکمران اور مراعات یافتہ طبقہ بھی عوام کے شانہ بہ شانہ قربانی دے رہا ہے۔ اگر حکومت اور وزرا کی جانب سے ایسا نہ کیا گیا تو عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوگا اور شرپسند عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کو ماضی میں ایسی چیلنجر سے بھرپور حکومتوں کا کافی تجربہ رہا ہے جب پیپلزپارٹی نے انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں حکومتیں سنبھالیں اور ملک کو مشکل حالات سے نکالا اس لئے توقع کی جانی چاہئیے کہ پیپلزپارٹی کے اس تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ اتحادی حکومت ملک کو ان مشکل اور سخت ترین حالات سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی اورجوں جوں ان سخت فیصلوں کے ثمرات سامنے آتے جائیں گے اور معیشت بہتر ہوتی جائے گی، شرپسند عناصر جو اس مشکل صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اور ملک میں افراتفری پیدا کرکے سری لنکا جیسے حالات پیدا کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ غیر متعلق ہوتے جائیں گے۔

۔

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author