وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ ملک مقصود احمد 1973 کے کسی ایک دن لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھی یقیناً حاصل کی ہو گی تب ہی تو بلوغت کے بعد آپ رمضان شوگر مل میں بطور نائب قاصد بھرتی ہوئے۔ آپ کی بنیادی ذمہ داریوں میں چائے بنانا اور سلیقے سے پیش کرنا بھی شامل رہا۔
پھر رفتہ رفتہ جیسا کہ ہوتا ہے ملک مقصود صاحب اپنی مستعدی و وفاداری و بے لوثی کے سبب سیٹھوں کی جوہر شناس آنکھ کا تارہ بنتے چلے گئے ہوں گے۔ یوں آپ کا شمار ان گیارہ انتہائی قابلِ اعتماد ملازموں میں ہونے لگا جن کے نام پر 28 بینک کھاتے کھولے گئے اور ان کھاتوں کے ذریعے 2008-14 کے چھ برس میں لگ بھگ 16 ارب روپے بیرونِ ملک ارسال کئے گئے۔
جناب مقصود احمد ملک کی قدر و منزلت کا اندازہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ 28 میں سے سات کھاتے صرف آپ کے نام پر تھے۔ ریکارڈ کے مطابق آپ کی آخری ماہانہ تنخواہ بظاہر 25 ہزار روپے تھی البتہ آپ کے اکاؤنٹس سے چھ برس میں لگ بھگ تین ارب روپے کی رقم گذری یا گذاری گئی۔
بتایا جاتا ہے کہ مارچ 2018 میں ملک مقصود احمد صاحب دیگر دو کلیدی ملزموں کے ہمراہ غائب ہو گئے اور بظاہر کوئی روزگار نہ ہونے کے باوجود چھ جون 2022 کو دبئی میں آخری ہچکی تک گذر بسر کرتے رہے۔
( مندرجہ بالا تفصیلات اس وقوعے کی بابت وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مرتب کردہ چالان میں شامل ہیں۔)
ملک مقصود احمد صاحب کو مقصود ’چپراسی‘ کے نام سے مشہور کرنے میں ’کبھی نہ جھکنے اور گھبرانے والے مستقل مزاج‘ عمران خان کا بنیادی کردار ہے۔ وہ آج تک اپنی ہر تقریر میں شہباز شریف اور مقصود ’چپراسی‘ کا نام ایک ہی سانس میں لینا نہیں بھولتے۔
وہ جو کہتے ہیں کہ ہر بڑے آدمی کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔اسی طرح ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک مقصود ’چپراسی‘ بھی متحرک ہوتا ہے۔
اگر ان دونوں جملوں کو ملا کے مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی جائے تو بھلے مقصود ’چپراسی‘ ہو کہ نیب یافتہ منی لانڈرنگ کیس (زرداری گروپ، اومنی گروپ، بحریہ گروپ) میں مذکور قلفی والے اور ریڑھی والے کے شناختی کارڈوں پر کھولے جانے والے بینک اکاؤنٹس سمیت درجنوں بے نامی کھاتوں کے ذریعے 42 ارب روپے کی آمد و جامد کا قصہ یا پھر ملکہِ تبادلات در صوبہِ پنجاب و نگراں امورِ توشا خانہِ بنی گالا فرح گوگی کا فنِ جہاں بانی۔
اس سب پر ایک علیحدہ تفصیلی مطالعے کی ضرورت ہے۔
یہ سب بتاتا ہے کہ اس فانی دنیا کے لافانی امرا و اشراف کا مقصودی چپراسیت کے بنا گذارہ کس قدر ناممکن ہے۔
مقصود ’چپراسی‘ دراصل ترغیب و تحریص کے طاقت ساز کارخانے کا وہ کلیدی پرزہ ہے جس کے بنا کوئی بھی خاکی و غیر خاکی نظام چلانا کارِ دارد ہے۔
کیا انگریز بہادر سرنگا پٹنم سے ملتان اور کلکتہ سے سبی تک دستیاب مقصود چپراسیوں کی قوتِ شامہ و ہاضمہ استعمال کیے بغیر ہندوستان نامی سونے کی چڑیا اتنی آسانی سے نوچ سکتا تھا؟
کیا امریکی سامراج مقصود چپراسیوں کو اعتماد میں لیے بغیر عالمی سپر پاور کے منڈب پر تادیر ٹک سکتا تھا؟ ذرا لاطینی امریکہ سے براستہ شمالی افریقہ مشرقِ وسطی سے گذرتے ہوئے انڈونیشیا تک نگاہ ڈالیے۔ آپ کو ہر جگہ کوئی نہ کوئی مقصود چپراسی فرشی سلام کرتا دکھائی دے گا۔
گورے صاحب نے جاتے جاتے اپنا سینتا ہوا جو نوآبادیاتی ترکہ کالے صاحب کو دان کیا وہ اثاثہ بھروسہ مند چپراس میں شامل سہولت کاری و وفاداری بشرطِ استواری کے سوا اور کیا ہے؟
باقیوں کو چھوڑیے کیا پاکستان میں کوئی بھی آمر مقصود چپراسیوں کے بغیر دس دس سال چھوڑ ایک برس بھی اطمینان سے گذار سکتا تھا؟
کیا ہائبرڈ جمہوریت کا مقصد مقصود چپراسیوں کو ساتھ ملائے بغیر حاصل کرنا ممکن ہے؟ اب تو لگتا ہے ہائبرڈ جمہوریت دراصل موجودہ اور آئندہ مقصود چپراسیوں کے لیے کمپاؤنڈ انشورنس سکیم کا دوسرا نام ہے۔
پرشکوہ ریاستی محلات و جبروتی عمارات سے لے کر حساس و غیر حساس اداراتی دفاتر اور ان کی فرنٹ کمپنیوں اور میڈیا ہاؤسز کے بھونپو گھروں تک ہر سو چائے بناتے میزبانی کرتے ہنس مکھ مقصود چپراسیوں کی دائمی بہار ہے۔
پنجاب کی معروف سیاستداں و سفارت کار بیگم عابدہ حسین اپنی مرتب یادداشت ’پاور فیلئیر‘ میں قصہ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار جب وہ مارشل لا دور کے گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی ( سابق ڈی جی آئی ایس آئی) سے ملنے گورنر ہاؤس گئیں تو کمرے کی دہلیز کے باہر درمیانے قد کا ایک گورا چٹا جوانِ رعنا جسے میں نے پہلی بار دیکھا تھا پھول اور مٹھائی کا ڈبہ پکڑے بے چین مسکراہٹ سجائے جنرل صاحب سے باریابی کا منتظر تھا۔
(وہ کون تھا، پھر کیا ہوا اور پھر اس کے ساتھ کیا ہوا۔ جسے مزید کرید ہو کتاب خرید لے۔)
کون کہتا ہے چھ جون کو دبئی میں مقصود ’چپراسی‘ کا انتقال ہو گیا۔
بلھا شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر