گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روہی تھل دامان کا درخت پیلو ۔
خواجہ غلام فرید نے دیوان فرید میں۔۔
پیلو پکیاں نے آ چڑوں رل یار آ ۔ گیت لکھ کر جال کے پھل کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا۔ یہ گیت ھزاروں سنگرز نے گایا ہے ۔
ہمارے روہی، تھل اور دامان کے علاقوں میں پیدا ہونے والا خود رو درخت جال جس کے پھل کو پیلو کہتے۔اور کئی رنگ کا ہوتا ہے۔ یہ دنیا کے قدیم ترین درختوں میں شمار ہوتا ہے۔اس پھل کو چننے یا توڑنے کا عمل کافی مشکل ہے۔ اسے عورتیں ٹولیوں کی صورت میں جا کر چنتی ہیں جسے غلام فرید کہتا ہے؎ حوراں پریاں ٹولے ٹولے۔۔ہیں۔ جال کے درخت کے مسواگ تو ہر جگہ ملتے ہیں۔
سرائیکی وسیب کے بہت ممتاذ دانشور اور شاعر مخمور قلندری نے ایک دفعہ پیلو درخت کی خوبیوں سے متعلق مجھے سرائیکی زبان میں لکھا
( ایندی ہک خوبی اے وی ہے جو اے ہر موسم وچ ساوی ہوندی ہے ایندی چھاں ڳھاٹی تے عمر سیکڑاں سال اے ہک بزرگ درخت ہے جیویں ٻوہڑ ڄیویں پپل جیویں تلسی اے معتبر ایں کیتے ہے جو اے زیادہ تر قبرستان اچ تھیندے تے دربار وی قبرستان اچ ہوندن ول کیوں جو اے مزار دا قریب ترین درخت ہوندے ایں کیتے لوک منت دیاں تھڳڑیاں تے دھاگے بدھیندن ایں کیتے ایکوں عقیدت دی اکھ نال ڈٹھا ویندے.)
قوم کے دانشور ۔۔
پرانے زمانے کی بات ہے گاوں میں کسی شخص کے لیلے کا سر مٹی کے مٹکے میں پھنس گیا۔اس نے کافی کوشش کی مگر وہ لیلے کا سر مٹکے سے باہر نہ نکال سکا ۔پھر گاوں کے ایک عقلمند پھر دوسرے سیانڑے کے پاس گیا مگر کچھ نہ ہوا ۔آخر فیصلہ ہوا کہ گاوں کے عقلمند ترین بزرگ کے پاس جائیں۔چنانچہ لیلا لے کر حاضر ہوئے۔اس نے کہا کم عقلو اتنا مسئلہ حل نہیں کر سکتے؟جاو چھری لے آو ۔چھری لائ گئی بزرگ نے لیلے کو ذبح کر کے گردن تن سے جدا کر دی۔پھر ہتھوڑے سے مٹکا توڑ دیا اور لیلے کا سر نکال کے مالک کے حوالے کیا کہ لو اب لیلے کا سر بھی آزاد ہو گیا اور ٹوٹا مٹکا بھی لے جاو یہ بھی اب آپ کا ہوا اور نہیں تو لیلے کو پانی پلانے کے کام آئے گا۔ یوں گاوں کے لوگ ہنسی خوشی بزرگ کی لمبی عمر کے نعرے لگاتے مٹکا اور لیلا ہاتھوں میں اٹھائے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ