ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورنر پنجاب و چانسلر انجینئر محمد بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور دور دراز علاقوں تک معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جا رہے ہیں، پہاولپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب سے گورنر ہائوس لاہور میں ملاقات کے دوران گورنر پنجاب نے کہا کہ تعلیم کے معیار میں اضافے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ وائس چانسلر نے گورنر پنجاب کو چولستان میں جدید ترین موسمیاتی نظام کے ذریعے بارش میں اضافے اور ایگری اکنامک زون کے قیام کے منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ چولستان کے66 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر بارش کی شرح کو بڑھانے کے لے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی جانب سے پیش کیا گیا منصوبہ بہت کارآمد ہے، چولستان میں بارش میں اضافے کے طریقہء کار میں بخارات یا بادلوں کو آئیونائزیشن کے ذریعے کثیف کرنا ہوتا ہے جس سے بادل بھاری ہو کر بارش برسانے لگتے ہیں اوراس طرح کے منصوبے کا دبئی کے صحرامیں کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے، چولستان میں بارشوں کی کمی کے باعث خشک سالی جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لئے یہ منصوبہ بہت مفیدثابت ہو سکتا ہے جس سے چولستان میں زمین کی آبادکاری کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی اور لاکھوں کی تعداد میں موجود مویشیوں کو پانی کی کمی کا مستقل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی زرعی تحقیق کی طرف بھی توجہ دے رہی ہے، اس سلسلے میں مین سٹریپ انٹرکراپنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے سویابین اور مکئی کی کاشت کا منصوبہ بھی چین کی سیچوان زرعی یونیورسٹی کی مدد سے تیار کیا گیا ہے، اس منصوبے سے پولٹری فیڈ اور خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والا اربوں روپے کے زرمبادلہ کی بچت ہو گی، یہ منصوبہ سی پیک کے مرکزی پروجیکٹس میں شامل کر لیا گیا ہے۔ کپاس کی تحقیق میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور عالمی مقام حاصل کر چکی ہے اور یونیورسٹی کی متعارف کردہ کپا س کی اقسام 50فیصد رقبے پر کاشت ہور ہی ہے۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سائنس، میڈیسن، مینجمنٹ اور انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ سماجی علوم، آرٹس اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں بھی نمایاں کام ہو رہا ہے۔ جنرل آفیسر کمانڈنگ 35 ڈویژن پاکستان آرمی میجر جنرل منیرالدین نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا دورہ کیا او ر یونیورسٹی میں تدریسی اور تحقیقی سرگرمیوں کو خوب سراہا۔ انہوں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے ہمراہ ہاکڑہ آرٹ گیلری،انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنسز، چولستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیزرٹ سٹڈیز، سولر پارک، مرکزی آڈیٹوریم اور زرعی فارم میں تجرباتی مقاصد کیلئے اگائی گئی کپاس کے کھیتوں کابھی دورہ کیا۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چولستان میں بارش میں اضافے کے منصوبے سے مجھے چولستان کی وہ لوک کہانی یاد آتی ہے جس کی آس پر چولستان کے لوگ اب تک زندہ ہیں، صدیوں پرانی یہ کہانی سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہے، کہانی کا نام ہے ’’ہاکڑہ ول واہسی‘‘۔ یہ سرائیکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر بہے گا۔ معروف مورخ احمد غزالی اپنی کتاب’’چولستان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ تقریباً چار ہزار سال قبل مسیح کی بات ہے کہ صحرائے چولستان کے وسط میں دریائے سرسوتی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا تھا، اسی دریا کو آج بھی ہاکڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چولستان کے باسی اس دریا کے روپوش ہو جانے کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے ایسا کیوں ہوا؟، اس دریا کا خشک ہو جانا صدیوں پرانا واقعہ ہے لیکن اسے بیان کرتے وقت ہر شخص یوں بات کرتا ہے جیسے یہ واقعہ آنکھوں دیکھا ہو۔ چولستان کی ایک بات یہ بھی ہے کہ دوپہر کے وقت ریت چمکتی ہے اور سورج کی کرنیں ریت پر لہروں کی طرح نمودار ہوتی ہیں، دور سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے دریا بہتا آ رہا ہو اور چولستان کے سادہ لوگ یہ منظر دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے کہا نہ تھا کہ ’’ ہاکڑہ ول واہسی‘‘حالانکہ یہ نظر کا فریب ہوتا ہے جسے مقامی زبان میں ’’اَکھ دا دھوکہ ‘‘کہا جاتا ہے۔ چولستان کا ذکر آیا ہے تو بتاتا چلوں کہ وسیب کی معروف علمی شخصیت مہر حامد علی شاکر سیال کے صاحبزادے مہر شکیل احمد شاکر کی کتاب ’’سوغات‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے، جس میں چولستان اور وسیب کے بارے میں اہم مضامین اور معلومات شامل ہیں۔ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ کتاب کا پہلا باب یقینا طلباء جسے ہم مستقبل کے معمار کہتے ہیں کے لئے بہت سود مند اور کار آمد ہے۔ دوسرے ابواب طلباء کے ساتھ ساتھ اہل علم کیلئے دلچسپی کا باعث ہیں اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ مہر حامد علی شاکر صاحب کے دوست قیس فریدی صاحب کا تعلق بھی خان پور ضلع رحیم یار خان سے ہے اور ان پر سرائیکی شعبہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف سے تحقیقی کام بھی ہوا ہے،یقینا ایسے لوگ خطے کا فخر ہوتے ہیں ان کی مطبوعات کی اشاعت بھی ہونی چاہئے اور تحقیقی کام بھی ضروری ہے۔ تحقیقی کتاب ’’چولستان اور خواجہ فریدؒ ‘‘کے مصنف کرنل (ر) اقبال ملک نے لکھا کہ عروس البلاد کراچی میں مقیم ہیں، کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے ، ہر رنگ ، نسل زبان و ثقافت کے لوگ یہاں مقیم ہیں، سرائیکی بولنے والوں کی کثیر تعداد کراچی میں رہتی ہے مگر کراچی میں سرائیکی حوالے سے اتنا علمی ادبی کام نہیں ہوتاجتنا وسیب میں ہوتا ہے، تاہم کراچی میں بھی کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو حسب توفیق اپنی زبان و ثقافت کی ترقی کیلئے کام کرتے رہتے ہیں، مہر شکیل احمد شاکر سیال کا شمار بھی ایسے خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنے وسیب اور اپنی ماں بولی سے محبت کرتے ہیں اور اس کی ترقی کیلئے مختلف تقریبات کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اشاعت کا بھی اہتمام کرتے ہیں، یہ سب کچھ ان کو ورثہ میں ملا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قومیں کتاب سے بنتی ہیں ، کتابیں ہی قوموں کی ترقی کا زینہ ہوتی ہیں، یورپ کی ترقی کتابوں کی مرہون منت ہے ،پیاس اور افلاس کے صحرا چولستان بارے شروع ہونے والا کام نہایت قابل قدر ہے ، گورنر پنجاب اور وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی اس کام کو آگے بڑھائیں۔ بہاولپور ڈویژن کے کمشنر راجہ جہانگیر انور بھی چولستان سے محبت کرتے ہیں ،اسلامیہ یونیورسٹی مقامی حکومت کا بھی تعاون حاصل کر سکتی ہے، اسلامیہ یونیورسٹی کا چولستان میں بارش میں اضافے کا یہ منصوبہ قابل تعریف ہونے کے ساتھ ساتھ قابل تقلید بھی ہے ۔میری دعا ہے کہ چولستان کے لئے بارش کا یہ منصوبہ حقیقی صورت میں سامنے آئے۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر