دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎‎منشی پریم چند کی بدھیا اور اکیسویں صدی کی عورت!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

چارپائی سے اسپتال کے بستر تک چھنو کی منتقلی آسان نہیں تھی۔ چھنو کا سانس رک رک کر آتا تھا۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جم چکی تھی۔ بڑی بڑی آنکھیں دور خلا میں کسی غیر مرئی نکتے کو دیکھتے ہوئے ساکت نظر آتی تھیں۔ چھنو کی ماں تسبیح رولتے ہوئے ناجانے کیا پڑھتی تھی؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’ماں، ماں میں مر رہی ہوں، مجھے بچا لو۔‘

16، 17 برس کی اس لڑکی کو چیختے، کراہتے، بلبلاتے اور منتیں کرتے ہوئے ناجانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ وہ کسی سیاہ تاریک رات کے گھپ اندھیرے میں ایک ایسے رستے پر چل رہی ہے جہاں کچھ نظر نہیں آتا کہ منزل کس طرف ہے؟

’رضیہ بی، کچھ کرو نا، اب تو ایک دن اور ایک رات گزر گئی۔‘

چھنو کا سر دباتی اس عورت نے دوسری سے کہا جو چھنو کی پائینتی بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر تشویش کی لکیریں نمایاں تھیں۔

’چھنو کی اماں، کوشش تو کر رہی ہوں لیکن یہ بچہ تو بہت ہی ڈھیٹ ہے، کسی طور قابو نہیں آ رہا۔‘

’رضیہ بی، چھنو کی حالت دیکھو، اب تو سانس بھی رک رک کے لے رہی ہے، رنگت ایسی جیسے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہ ہو۔‘

’چھنو کی اماں، جب فارغ ہوگی نا تو گرم گرم دودھ میں گھی ملا کر پلانا، پھر سے ہنسنے بولنے لگے گی۔ تو بھول گئی اپنا وقت جب چھنو جمی تھی تیرے ہاں۔ 2 دن لگ گئے تھے تجھے۔ ‘

عمر رسیدہ دائی دانت نکالتے ہوئے بولی۔

’ہاں یاد ہے مجھے، آج تک وہ اذیت جسم کی بوٹی بوٹی میں سرسراتی ہے۔ لیکن رضیہ بی، بچہ بڑا بھی نہیں دکھتا، پھر نیچے کیوں نہیں آ رہا؟‘

’اے میں تو کب سے ہاتھ ڈالے اس کے اعضا ٹٹول رہی ہوں کہ کچھ ہاتھ لگے اور میں اسے باہر کھینچ لوں۔ ‘
’ماں، ماں، مجھے سانس نہیں آ رہا۔ میں مر رہی ہوں ماں۔ ‘
چھنو پھر کراہی۔

’اے چھنو بیٹی، ذرا آواز کو گلے میں گھوٹ لے۔ باہر مردوں میں جا رہی ہیں تیری چیخیں۔ سب عورتوں پر آتا ہے یہ وقت، کاٹنا ہی پڑتا ہے‘ ، رضیہ بی نے نصیحت کی پٹاری کھولی۔

’رضیہ بی، کہو تو اسپتال لے جائیں؟‘ ، صابراں بولی۔
’ہاں چھنو کی ماں، بات کچھ بن نہیں رہی، لے جاؤ اس کو اسپتال۔‘

گھر کے مردوں کو رضیہ بی کی ناکامی سے آگاہ کیا گیا۔ 4، 6 مرد سر جوڑ کر بیٹھے، بڑبڑاتے ہوئے چار وناچار اسپتال جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چھنو کو چارپائی پر ڈالا گیا، سوزوکی وین منگوائی گئی اور ہچکولے کھاتی گاڑی نزدیکی شہر کو روانہ ہوئی۔ ہر جھٹکے پر چھنو کو ایسا لگتا جیسے کوئی تیز دھار آلہ اس کے جسم کو جگہ جگہ سے کاٹتا ہو۔ درد کی لہریں بدن میں پھیل کر سانس یوں روکتیں جیسے گلے میں پڑا پھندا دھیرے دھیرے کسا جا رہا ہو۔

’ماں، ہم ہسپتال کب پہنچیں گے؟‘
وہ ساتھ بیٹھی ماں کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کرتی۔
’بس بیٹا، کچھ دیر اور۔‘
ماں بھیگی آنکھوں سے جواب دیتی۔

خدا خدا کر کے گاڑی ایک اسپتال کے احاطے میں داخل ہوئی۔ چارپائی کو لیبر روم کے دروازے تک لے جایا گیا، جہاں سے 2، 3 آیاؤں نے چھنو کو پہلے اسٹریچر اور پھر بستر پر منتقل کیا۔

ڈاکٹر چھنو کی حالت دیکھتے ہی چلا اٹھی، ’اف خدایا! چھوٹی سی بچی، کب سے برداشت کر رہی ہے یہ درد؟‘
’وہ جی، پرسوں رات شروع ہوئے تھے درد۔‘
ماں نے جواب دیا۔
’بچی کو موت کی سرحد پر پہنچا کر ہی لاتے ہو تم لوگ۔‘
ڈاکٹر بڑبڑاتے ہوئے معائنہ کرنے لگی۔

’آپریشن کرنا پڑے گا، بچہ آڑا ترچھا لیٹا ہے پیٹ میں۔ سائن کر دو، خون کا انتظام کرو، میں آپریشن تھیٹر شفٹ کرواتی ہوں۔ ‘

’ڈاکٹر صاحب، ٹھہریں میں ذرا مردوں سے مشورہ کرلوں‘ ، صابراں نے کہا۔
’جو بھی کرنا ہے جلدی کرو، مریضہ کی حالت اچھی نہیں۔ ‘
چھنو کی ماں بھاگتی ہوئی باہر گئی جہاں چھنو کا باپ، چاچا جو سسسر بھی تھا اور چھنو کا شوہر کھڑے تھے۔
’ڈاکٹر کہہ رہی ہے کہ بڑا آپریشن کرنا پڑے گا۔‘
چھنو کی ماں پھولے ہوئے سانسوں کے ساتھ بولی۔
’کیا؟‘
’بڑا آپریشن؟‘
’کیوں؟‘
’یہ نئے دور کا فیشن ہے۔ ‘
’ڈاکٹر اپنے پیسے بنا رہی ہے۔ ‘
’ہم نے نہیں کٹوانا پیٹ۔‘
’ہمارے خاندان میں بڑا آپریشن نہیں کروایا جاتا۔‘
’عورتیں صدیوں سے یونہی بچے پیدا کرتی آئیں ہیں۔ ‘
’یہ آج کل کا نیا رواج۔‘
’نہیں، ہمیں نہیں کروانا۔‘
’جاؤ چھنو کو لے کر آؤ، ہم دوسرے اسپتال جائیں گے۔ ‘
اختیار کے غرور سے بھری کچھ آوازیں چھنو کی قسمت کا فیصلہ کر رہی تھیں۔
نیم بے ہوش چھنو کو پھر سے چارپائی پر ڈالا گیا اور دوسرے اسپتال کا رخ کیا گیا۔

چارپائی سے اسپتال کے بستر تک چھنو کی منتقلی آسان نہیں تھی۔ چھنو کا سانس رک رک کر آتا تھا۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جم چکی تھی۔ بڑی بڑی آنکھیں دور خلا میں کسی غیر مرئی نکتے کو دیکھتے ہوئے ساکت نظر آتی تھیں۔ چھنو کی ماں تسبیح رولتے ہوئے ناجانے کیا پڑھتی تھی؟

’مریضہ اور بچے کی حالت اچھی نہیں ہے۔ آپریشن کرنا پڑے گا‘ ، دوسرے اسپتال کی ڈاکٹر نے کہا۔
’ڈاکٹر صاحب ویسے ہی کوشش کر لیں نا۔‘
چھنو کی ماں گڑگڑائی۔
’بی بی آپ لوگوں نے پہلے ہی بہت دیر کردی ہے۔ یہ نارمل کیس نہیں ہے‘ ، ڈاکٹر نے جواب دیا۔
چھنو کی ماں ایک بار پھر باہر کھڑے مردوں کی طرف دوڑی۔
’چھنو کے ابا، آپریشن کرنا ہے، اجازت دے دو۔‘
’کیا؟‘
’یہاں کی منحوس ڈاکٹریں بھی چیر پھاڑ ہی کرنا چاہتی ہیں؟‘
’نہیں ہمیں نہیں کروانا آپریشن واپریشین۔‘

خشمگیں نظر سے گھورتے ہوئے بلند آواز میں جھاڑتے ہوئے اس مرد نے جواب دیا۔ باقی مردوں نے ہاں میں ہاں ملائی۔

’خدا کے لیے، وہ مرجائے گی۔‘
چھنو کی ماں ان تینوں کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے گڑگڑائی۔

’کچھ نہیں ہوتا چاچی، تو فکر نہ کر۔ یاد نہیں پچھلے برس میری بھینس نے 3 دن لگا کر بچھڑا جنا تھا۔ بھینس کا بھی آپریشن کرواتے کیا؟‘

چھنو کا شوہر غلام نذیر مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے گلا پھاڑ کر ہنسا۔
صابراں کی آنکھیں برس پڑیں۔
’پتر، بھینس اور عورت میں فرق ہوتا ہے۔ یاد ہے تیری پھوپھی کی دھی، ایسے ہی تو تڑپ تڑپ کر مر گئی تھی۔‘

’او چاچی صابراں، رہنے دے۔ اس کی جان دیکھی تھی تو نے، وہ تو دائمی بیمار تھی۔ چھنو تو جان والی کڑی ہے کر لے گی بچہ پیدا، تو ذرا صبر تو کر، اپنے نام کی تو لاج رکھ تو‘ ۔ غلام نذیر اکڑ کر بولا۔

صابراں کی آنکھیں سمندر بن چکی تھیں مگر سامنے کھڑے اندھے مرد کچھ بھی دیکھنے کو تیار نہیں تھے۔

’چل لے آ، چھنو کو، کسی اور ڈاکٹر کو دیکھتے ہیں جس کو پیسے کے لالچ میں اپنی چھنو کا پیٹ نہ کاٹنا ہو۔‘

صابراں سسکیاں لیتے ہوئے لیبر روم کی طرف چل دی۔ چھنو کی آنکھیں دروازے کی طرف لگی تھیں۔ ماں کو آتے دیکھ کر گھٹی گھٹی آواز میں بولی،

’ماں جلدی کر، اجازت دے دے، میں کانٹوں پر گھسٹ رہی ہوں ماں۔ ‘

’میری بیٹی، میری راج دلاری، تھوڑا اور انتظار کر۔ یہ اسپتال اچھا نہیں ہے، تیرا شوہر کسی اور ڈاکٹر سے پوچھ کر آیا ہے۔ ادھر چلتے ہیں، بس تھوڑی ہمت اور۔‘

صابراں برستی آنکھوں کو پونچھ کر بولی۔

’ماں، ماں، مجھے ماں نہیں بننا۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔ ماں تو ماں کیوں بنی؟ کیوں جنا تو نے مجھے؟ ماں مجھے کہیں اور نہیں جانا۔ مرنے دے مجھے اور ساتھ میں اس بچے کو بھی۔ مجھے اپنے جیسی ایک اور لڑکی نہیں جننی۔ ماں گاؤں کی لڑکیوں کو کہنا، بڑے ہوتے ہی گلا گھونٹ لیا کریں اپنا، یا پھندا درخت سے ڈال کر لٹک جایا کریں، کم از کم موت تو کم تکلیف والی ہوگی نا۔‘

’نہ میری دھی، ایسے نہیں کہتے۔ بس تھوڑی دیر اور۔‘

چھنو کو چارپائی پر ڈال کر وین میں رکھا جا چکا تھا۔ اتنی دیر میں سارے مرد اسپتال کی کینٹین سے دودھ پتی اور بن کھا کر تازہ دم ہوچکے تھے۔ وین کا ڈرائیور کسی اور ہسپتال کی تلاش میں تھا۔

چارپائی پر لیٹی چھنو کے ماتھے پر پسینہ آتا تھا، نبض کبھی رکتی کبھی چلتی تھی۔ چھنو کا ہاتھ تھامے، ماں اپنی سسکیوں پر بند باندھتے چھنو کے کان میں لوری گاتی تھی۔ ایسی لوری جو چھنو کو جگائے رکھے، سونے نہ دے۔

اگلا ہسپتال آ چکا تھا۔ چھنو کی چارپائی لیبر روم کے دروازے پر رکھی جا چکی تھی۔ آیا نے بڑی مشکل سے اسٹریچر کے ذریعے بستر پر ڈالا اور نرس کو آواز دی۔

سسٹر ذرا جلدی سے آنا، لڑکی کی حالت کچھ ٹھیک نہیں لگتی۔

نرس دوڑی آئی، بلڈ پریشر بہت کم تھا۔ نبض کی رفتار بہت ہی آہستہ۔ نرس نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا، ڈاکٹر نے الٹرا ساؤنڈ کیا تو بچے کے دل کی دھڑکن غائب تھی، بچہ رحم کی دیوار پھاڑتے ہوئے پیٹ میں انتڑیوں کے بیچوں بیچ آڑا ترچھا لیٹا تھا۔

’کیا کرتے ہیں آپ لوگ؟ پتا ہے آپ کو بچہ مرچکا ہے، بچے دانی پھٹ چکی ہے، رحم سے خون نکل نکل کر پیٹ میں جمع ہو رہا ہے۔ ‘

مریض کی جان ایک ہی صورت میں بچ سکتی ہے۔ آپریشن کرنا پڑے گا فوراً۔ 6 بوتل خون چاہیے۔ ہو سکتا ہے ہمیں بچے دانی نکالنی پڑے۔ جلدی کرو جلدی، خون کا انتظام کرو۔ سسٹر، خون آنے تک ڈرپ لگاؤ دونوں ہاتھوں میں، بے ہوشی کے ڈاکٹر کو بلاؤ۔ ’

ڈاکٹر اونچی آواز میں کئی لوگوں کو ہدایات دے رہی تھی۔
صابراں باہر کی طرف دوڑی،

’چھنو کے ابا، چھنو کے چاچا، غلام نذیر، جلدی کرو، چھنو مر رہی ہے، بچہ مرگیا ہے، جلدی کرو، خون کا انتظام کرو، شاید بچے دانی نکالنی پڑے۔ ‘

’کیا؟‘
’بچہ مر گیا؟‘
’ہسپتال والوں نے بچہ مار دیا۔‘
’یہ کیسا اسپتال ہے؟‘
’آتے ہی ہمارا بچہ مار دیا۔‘
’اب بچے دانی نکالنے کا منصوبہ۔‘
’یہ سب اسپتال تھوڑی ہیں، قصائی خانے ہیں۔ آؤ پھر ان سے اپنی چمڑی اترواؤ اور ان کا بل بھرو۔‘
’اب تو بچہ بھی مر گیا، اب کیوں آپریشن کروائیں؟‘

’ڈاکٹر سے کہو، ہاتھ ڈال کر کھینچ کھانچ کر نکال دے، جیسے پچھلے برس بکری کے اندر ہاتھ ڈال کر میں نے نکالا تھا۔ ان انگریزی ڈاکٹرنیوں کو بچہ کھینچ کھانچ کر نکالنا خوب آتا ہے۔ ‘

’ایسے ہی رعب جما رہی ہیں ہم پر۔ بچے دانی نکلوا دیں۔ ‘
’آئندہ بچہ کیسے پیدا ہو گا، کیا بانجھ رہے گی چھنو؟‘
صابراں دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی، ’چھنو، میری چھنو، میری بچی‘ ۔
’جا لے کر آ چھنو کو، سرکاری اسپتال چلتے ہیں‘ ، غلام نذیر بولا۔
’چھنو اس قابل نہیں ہے کہ کہیں اور جا سکے، میری بچی کو زندگی بخش دو‘ ، صابراں کی آواز بیٹھ چکی تھی۔
’جا ری، لے کر آ چھنو کو جلدی سے۔ ‘
صابراں لیبر روم کی طرف دوڑی۔
’ششٹر جی، ششٹر جی، میری بیٹی کو چارپائی پر ڈال دو، سرکاری اسپتال جانا ہے۔ ‘

سسٹر اور آیا اپنی جگہ پر چپ کھڑی تھیں۔ دونوں طرف ڈرپ لگے ہاتھ ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ چہرے پر موت کی ذردی کھنڈی تھی۔ ماں کہنے والی زبان تھک کر خاموش ہو چکی تھی۔ بے نور آنکھیں کہہ رہی تھیں، مجھے ماں نہیں بننا۔

وقت کا سفر جاری رہتا ہے، کیلنڈر پر ہندسے بدلتے رہتے ہیں، موسموں کا کھیل جاری رہتا ہے۔ خزاں، پت جھڑ، بہار، برسات، گرما، سرما۔ اگر کچھ نہیں بدلتا تو عورت کی زندگی کا موسم کبھی نہیں بدلتا۔ یہ بے بسی، نا قدری، بے چارگی اور اذیت کے قلم سے لکھی ہوئی کہانی ہے جو جاری رہتی ہے۔

برسوں پہلے منشی پریم چند کے شہرہ آفاق افسانے ’کفن‘ کی بدھیا نے اپنی پہلی زچگی میں یوں ہی تڑپ تڑپ کر جان دی تھی اور 21 ویں صدی میں پیدا ہونے والی چھنو کا انجام بھی سائنس کی تمام تر ترقی کے باوجود مختلف نہیں تھا۔

’جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے، اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا درد زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دل خراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔

گھیسو نے کہا، ’معلوم ہوتا ہے بچے گی نہیں۔ سارا دن تڑپتے ہو گیا۔ جا، دیکھ تو آ‘ ۔
مادھو دردناک لہجے میں بولا، ’مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا کروں‘ ۔

صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جا کر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت تھا۔ اس کے پیٹ میں بچہ مرگیا تھا۔

تب گھیسو اپنی خود غرضی پر پردہ ڈالتے ہوئے مادھو کو کچھ یوں تسلی دیتا ہے، ’کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا کے موہ کے بندھن توڑ دیے‘ ۔

کیا ستم ہے کہ مرد عورت کو شادی کے بندھن میں قید کر کے حاملہ کر کے اپنی مردانگی پر مہر لگواتا ہے۔ جب وہ اس کھیل میں موت سے ہارنے لگتی ہے تو اس کو اپنے ہاتھ کا سہارا دینے کے بجائے تاویلات گھڑتا ہے اور ایک نئے شکار کو نگل جاتا ہے۔

سوچیے اگر چھنو یہ جانتی کہ اس کے جسم پر مرضی کا اختیار اسی کا ہے تو آپریشن کروانے کی اجازت کے لیے شوہر یا باپ کی منتیں کیوں کرنا پڑتیں؟ اپنی زندگی کو خود سنبھالتی تو زندگی اسے روند کر یوں نہ گزر جاتی۔

جو عورت اپنے جسم سے زندگی کا تسلسل برقرار رکھتی ہے، جس جسم کی ٹوٹ پھوٹ سہتی ہے تو خود ہی سوچیے کہ اس جسم پر اختیار کس کا ہونا چاہیے؟

یہ ہے ہمارا فلسفہ!
بشکریہ ڈان اردو

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author