نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خاموشی کی زُبان||عاصمہ شیرازی

ساری زندگی سویلینز کو بلڈی سویلین سمجھنے والے آج کل سویلین بالادستی کے ‘پرچارکر‘ ہیں اور وہ بھی ایسے کہ مرحومہ عاصمہ جہانگیر بھی زندہ ہوتیں تو عش عش کر اُٹھتیں۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا نہیں کہ کوئی چُپ رہے اور آواز نہ آئے اور خاموشی بھی وہ جو معنی رکھتی ہو۔

ایسا بھی نہیں کہ کوئی غیر جانبدار رہے اور پتا بھی نہ چلے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ خاموشی کی بھی اپنی زُبان ہوتی ہے۔

بہر حال اب غیر جانبداری کے دن ہیں اور خاموشی باقاعدہ اسلوب بن چُکی ہے۔ اشاروں کی زُبان رائج ہے اور نگاہوں ہی نگاہوں میں معاملہ طے ہو جاتا ہے۔۔۔ اصل بات تو یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب خاموشی کی زُبان عمران خان سے کہیں زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

اب اگر کوئی اعلانیہ غیر جانبدار ہو اور سرکاری افسران کی تقرری تعیناتی میں چھان بین کا حکم نامہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے خاموشی سے وزیراعظم جاری کر دے تو تازہ تازہ سویلین بالادستی پر یقین رکھنے والے ادارے کا کیا قصور۔۔ ہاں البتہ "ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ لگانے والوں کو جنجھوڑ کر ہلایا ضرور جا سکتا ہے کہ حضور اب آپ کی حکومت ہے اور ووٹ کی عزت بھی اب آپ ہی کے ہاتھ ہے۔

صرف ایک ماہ اور ستائیس دن کی حکومت خاموشی کی زبان اس قدر سمجھتی ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کے اختیارات آئی ایس آئی کو بخش دیتی ہے اور کیوں نہ ہو آئی ایس آئی بھی بظاہر ایک سویلین ادارہ ہے جو براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہے۔۔۔ مانیں یا نہ مانیں سویلین بالادستی کا پورا مزہ اگر کسی نے ماضی قریب میں لیا ہے تو اُن کا نام عمران خان ہے۔

اب اگر اُنہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جناب شہباز شریف صاحب نے اپنے اختیارات کا جائز فائدہ اُٹھا لیا ہے تو رضا ربانی، فرحت اللہ بابر اور پرویز رشید جیسے اولڈ فیشنڈ بزرگواروں کو مسئلہ کیوں ہے۔

کل تک پارلیمان کی بالادستی پر لمبی تقریریں کرنے والے بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف ایسے درگُزر کر رہے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، کریں بھی کیا کہ نئی نئی دوستی کے دن ہیں اور ایک ووٹ پر کھڑی حکومت ایک صفحہ ڈھونڈ رہی ہے۔۔۔ وہی جس کے مزے گزشتہ حکومت نے خوب کیے تھے۔

ویسے عجب سویلین بالادستی کے غضب دن ہیں۔ وہ سیاست دان جو خود کو جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کی پیداوار کہتے تھے وہی اپنے ’باپ ادارے‘ کو کوستے دکھائی دیتے ہیں اور عسکری نرسری میں لگنے والے صحافتی پودے بے نقط سُناتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کل تک کنٹرولڈ جمہوریت کے حامی آج اسٹیبلشمنٹ کے ناقد ہیں جبکہ عمرانی صحافتی ٹولہ اپنے ہی سر پرستوں کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلاتا دکھائی دے رہا ہے۔

یہ دن بھی دیکھنا تھے کہ ریٹائرڈ بزرگ فوجی جرنیل ساری زندگی آئین کے خلاف سیاست میں کردار ادا کرتے رہے اور پھر اب فوج کو سیاست سے دور رہنے کے مشورے بھی دے رہے ہیں۔ گنگا مستقل اُلٹی بہہ رہی ہے اور تضاد ہے کہ کھُل کُھل کر سامنے آ رہا ہے۔

ساری زندگی سویلینز کو بلڈی سویلین سمجھنے والے آج کل سویلین بالادستی کے ‘پرچارکر‘ ہیں اور وہ بھی ایسے کہ مرحومہ عاصمہ جہانگیر بھی زندہ ہوتیں تو عش عش کر اُٹھتیں۔

بہرحال آمریت کے ساز پر فسطائیت کے سُر لگاتے یہ اشخاص سلطانی جمہور کے گن گاتے اور نقش کہن مٹاتے نظر آتے ہیں۔۔ یہ بغض جمہور نہیں حُب عمران ہے۔۔ تو سمجھ جائیے کہ حالات ویسے نہیں رہے صفحہ اُلٹ چکا ہے اور مُہرے بدلے جا چکے ہیں۔۔۔ اب یا تو لکیر پیٹیں یا پھر بلَا۔

ستتر برسوں بعد آج بھی ہم سیکھ ہی رہے ہیں، ارتقاء کا یہ عمل مکمل ہونے کو نہیں دے رہا۔

اداروں کی حدود کا تعین نہ جانے کب ہو گا اور بالادستی بغیر سر پرستی کس طرح عمل میں آئے گی، یہ کوئی نہیں جانتا۔ آزادی کو غلامی اور غلامی کو آزادی کانام دے کر مسلسل کنفیوژن اور دو رُخی معاشرہ کامیابی سے ترتیب دیا جا چکا ہے، کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے اب رگ رگ اُتر چکے ہیں جبکہ روٹی ترستے پیٹ کیسے بھریں گے اور پانی ترستے بے آب و گیاہ کس طور سیراب ہوں گے، یہ کسی نے نہیں سوچا۔

 

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author