ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفسیات کی ایک اصطلاح ” فکسڈ آئیڈییشن ” یعنی ” فکر منجمد ” بھی ہے۔ اسی میں مبتلا ایک سابق مزدور رہنما نے مجھ سے سوال کیا کہ ” آزادی ، جمہوریت اور مساوات ” بارے آپ کا کیا خیال ہے آیا یہ ہمارے ملک میں موجود ہیں اور اگر نہیں تو انہیں پانے کی خاطر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نے چھوٹتے ہی کہا کہ یہ تینوں صفات ہمارے بلکہ آپ کے ملک میں موجود ہیں۔
آزادی یوں کہ چوک میں بیٹھ کے ہم بات کر رہے ہیں اور جیسی بھی بات کریں گے اسے کوئی بھی سن سکتا ہے۔ اگر میں اور آپ مل کے کوئی ریاست مخالف منصوبہ نہیں بنا رہے تو نہ ہم پر کسی نوع کی قدغن ہے اور نہ ہی گرفت۔
جمہوریت اس لیے کہ کم از کم تیسری بار ہے کہ ملک میں انتخابات کے ذریعے حکومت تبدیل ہوئی اور مساوات اس لیے کہ غیر ترقی یافتہ ملکوں میں مساوات اسی نوع کی ہوا کرتی ہے کہ کہیں غریبوں کے لیے تفریق نہیں ہے۔ آپ نے ستھرے کپڑے پہنے ہوں تو آپ پنج ستارہ ہوٹل میں گھس کے کم از کم اس کے لاونج میں کئی گھنٹے بیٹھ سکتے ہیں چاہے آپ کی جیب یکسر خالی ہو۔ ہاں مفت میں سروس تو آپ کو نہیں مل سکتی چاہے وہ خواب کا سا اشتراکی نظام والا ملک ہی کیوں نہ ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا سوال شاید یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں آزادی، جمہوریت اور مساوات کو کیونکر وسیع تر اور محکم بنا سکتے ہیں؟ اس کے لیے ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک میں جمہوری عمل جاری رہے۔ یہ سوچ کہ حکومت سازی میں متوسط یا غریب طبقات کے نمائندے بھی شامل ہوں، عبث ہے البتہ اگر انتخابات ہوتے رہے تو بہت ممکن ہے کہ تاریخی جبر کے تحت مقتدر حلقوں کی آئندہ نسلوں میں سوچ پیدا ہو جائے کہ غربت کا خاتمہ کیا جائے، متوسط طبقے میں اضافہ کیے جانے کی کوشش کی جائے اور آزادی و مساوات کے احساس کو فروغ دیا جائے۔
یہ اور بات ہے کہ جیسا انتخابی نظام پاکستان میں مروج ہے اس میں بذات خود کئی خامیاں ہیں جیسے ملک کے بالغ افراد کی آبادی کے صرف 12 سے 26 فیصد ووٹ حاصل کرنے والا رہنما بھی ملک کا حاکم بن سکتا ہے، کابینہ بنا سکتا ہے۔ یوں حاکم اور حکومت بقیہ74 تا 88 فیصد کی نمائندہ نہیں ہوتی البتہ حکومت میں آنے کا دعوی یہی کیا جاتا ہے کہ وہ اب تمام لوگوں کے نمائندہ ہیں اور بلاامتیاز سبھوں کی خدمت می کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ جبکہ اس کے برعکس ان کے بیانات اور رویوں سے حزب اختلاف کے ساتھ عناد و اختلاف واضح ہوتا ہے۔ اور تو اور اکثر حکومتیں اپنے سے پہلی حکومت کے منصوبوں کو یا آدھ میں چھوڑ دیتی ہے یا یکسر پس پشت ڈال دیتی ہے۔ اس قسم کے نقائص کی کسی حد تک اصلاح متناسب نمائندگی کا نظام اختیار کرکے کی جا سکتی ہے۔ مگر ملک عزیز میں اس طریق کو اختیار کرنے بارے ہئیت مقتدرہ اور سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے تحفظات موجود ہیں۔ اگرچہ آئندہ کے بلدیاتی انتخابات میں موجودہ حکومت نے متناسب نمائندگی کا طریقہ آزمانے کا فیصلہ کر دیا ہے۔
بات ہو رہی تھی فکسڈ آئیڈییشن اور آزادی، جمہوریت اور مساوات کی۔ مستفسر اور ان کے ہم عمر ساتھیوں کی خواہش غالبا” یہ تھی کہ میں ان تین صفات کے ملک میں یکسر مفقود ہونے سے بات شروع کروں گا اور تنظیم سازی، آدرش، مقاصد، حکمت عملی اور لائحہ عمل پہ بات تمام کروں گا۔ جیسے ہوتا رہا ہے اور جیسے اب بھی کیا جاتا ہے۔ ایسی ازکار رفتہ گفتگووں کے بعد سب کچھ کرنے کے جذبے سے لبریز ہو کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور اگلے روز اسی نظام سے جس میں آزادی، جمہوریت اور مساوات کے فقدان کا ذکر وہ خطبہ سننے کی مانند سننے کے عادی ہو چکے ہیں، استفادہ کرنے کے جتن کرنے میں مصروف ہو جائیں گے۔
پھر کسی اور شام پھر سے محفل سجے گی اور ایک بار پھر پانی کو باتوں کی مدھانی سے بلویا جائے گا یوں مکھن تو دور کی بات چھاچھ بھی نصیب ہونے سے رہی۔ میری کھری کھری باتیں سن کر وہ مایوس ہوئے اور مجھ پر الزام عائد کر دیا کہ میں خود کو عالم اور باقیوں کو جاہل مطلق تصور کرتا ہوں۔
یہ وہی چلن ہے جو ایک مذہبی فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کے کسی فرد کا اختلافی بیان سن کے اختیار کیا کرتے ہیں۔ ہم کوئی بھی نئی یا مختلف بات سننے کے عادی ہی نہیں ہو سکے ہیں۔ دوسرے کے کہی بات پہ کان دھرنا تو ایک طرف رہا ہم اس کے برعکس بیان دینے تک سے قاصر ہیں چنانچہ بات کرنے والے میں نقص نکال کر سمجھتے ہیں جیسے کوئی معرکہ مار لیا۔
مذکور محفل میں ایک سیانے نے کہا کہ مجھے آپ کی گفتگو میں غم، مایوسی اور اداسی محسوس ہوئے ہیں اور مجھے آپ پر ترس اور رحم آ رہا ہے۔ اگرچہ معاملہ مختلف تھا یعنی رجائیت پسندانہ کہ میں آزادی، جمہوریت اور مساوات کے موجود ہونے کی بات کر رہا تھا۔ مگر کیا کیا جائے، ہمارے محترم مزدور رہنما مرحوم دوست ملک انور کی بیگم بھابی ممتاز جو تعلیم نہ ہوتے ہوئے بھی بہت سیانی تھیں لفظ نظریہ اسی عقیدت سے بولا کرتی تھیں جیسے عقیدہ۔
اس کے برعکس اگر کوئی سابق سوشلسٹ کمیونسٹ مذہب کی جانب راغب ہو جائے تو وہ ہم خیال افراد کا نشانہ تضحیک بنتا ہے اور اگر ایسے ہی نظریات کے حامل لوگ سرمایہ داری کے فیض سے سربرآوردہ اور متمول ہو جائیں تو وہ ہم خیال افراد کے لیے باعث رشک یا موجب حسد ہوتے ہیں۔ انسان خواہشات کا پتلا ہے چاہے اس جہان کی ہوں اور کوئی این جی او بنا کے یا نجی کاروبارکی جانب راغب ہو کر انہیں پورا کر لے یا پورا کرنے کی سعی کرے۔ کوئی چاہے تو دوسرے جہان سے متعلق خواہشات کی تکمیل کے لیے مذہبی اعمال و عبادات کی جانب رجوع کر لے۔
ہمیں ایک دوسرے کو سپیس دینی چاہیے۔ فکسڈ آئیڈییشن سے جان چھڑانی چاہیے اور اختلافی باتوں پر غور کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ ایسا کرنے کی خاطر ہمیں نیا ادب ملکی و غیر ملکی پڑھنا چاہیے۔ غیرملکی سیاست اور دنیا میں بدلتے ہوئے رویوں اوررجحانات سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور ساتھ ساتھ گفتار اور کردار میں توازن پیدا کرنا چاہیے تبھی مقتدر طبقوں سے تقاضا کرنے کے قابل ہو پائیں گے کہ ملک میں پہلے سے موجود، آزادی، جمہوریت اور مساوات کے پیمانے وسیع اورعمیق کریں یعنی ایسے قوانین وضع کریں جو ان صفات کو محکم اور بیشتر کرنے میں ممد و معاون ہوں۔
ایک دوسرے سے منہ پھیر کر اور بے بنیاد الزامات لگا کر آپ جمہور کو کمزور کرتے ہیں، آزادی کو پابند اور مساوات کو متزلزل۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ