نو منتخب وزیر بلدیات سردار اویس احمد خان لغاری سے اہلیان جام پور کی توقعات ۔
تحریر ۔آفتاب نواز مستوئی
وزارت بلدیات کا قلمدان مبارک !
بغیر کسی خوشامد اور لگی لپٹی کے اپنا ایک مشاہدہ ہے کہ دیگر علاقائی جاگیردار سیاستدانوں کی نسبت اللہ تعالی ا نے آپکو قوت برداشت سے نوازا ہوا ہے اور آپ نہایت خندہ پیشانی اور حوصلے سے بات کو سنتے ضرور ہیں
اور اسی پاک ذات زت آپ پر عنایت یہ بھی ہے کہ آپ اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے ہی سمجھدار اور فہم وفراست کے مالک ہیں کسی بھی
” جبری معزز اور نو رتنوں میں سے زبردستی کے رتن ” کی فرمائش پر کسی کو اپنی انتقامی کاروائی کا نشانہ نہیں بناتے اتنا تجربہ یا مشاہدہ اپنا بھی ہے کہ آپ جس کسی سے ناراض ہوتے ہیں اس سے قطع تعلقی کر لیتے ہیں
لیکن اسکے روزگار یا دیگر معاملات کے ” قاتل ” نہیں بنتے تسلسل کے ساتھ جام پور کا مقدمہ لڑتے لڑتے ہر ” صاحب اقتدار کے غصے سے زیادہ اس کے مصاحبین منشیوں اور وظیفہ خواروں ” کی مشق ستم کا نشانہ بنتے رہنے کے باوجود
اپنی اس ( بری بھلی ) عادت سے باز آنے والے ہم بھی نہیں وہ جو کہا جاتا ہے ناں ” سر ونجے تاں عادت ونجے
” بس وہی سمجھ لیجئیے اور معروضات کو بھی اپنی تحمل مزاجی اور بردباری کے طفیل قبول فرما لیجئیے شکریہ
اک وعدہ تھا آپکا پروفیسر رفیق حسین حیدری صاحب کی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں منعقدہ تقریب کے موقع پر کالج کے ایڈمن بلاک سے خواجہ فرید ہال تک چلتے ہوئے
تفصیلی تبادلہ خیال کے دوران ” جام پور ضلع ” کے قیام کی گزارش گوش گزار کی تھی اور ساتھ ہی مرحوم قاضی سیف اللہ صاحب نے بھرپور تائید کی تھی
جناب والا نے فرمایا تھا ” جام پور کا حق ہے اسے ضلع ضرور بننا چاہیے اور ہمارے پاس جب بھی اختیار آیا تو اس پر ضرور عمل کریں گے
اور آج اللہ تعالی ا نے وفاق اور صوبہ میں آپکو پورے وقار اور آن وشان کے ساتھ بھر پور اختیار و اقتدار سے نوازا ہے
اس دوران ” جام پور کے ہمدردو ں ” نے لگے ہاتھوں پٹواریوں سے لیکر افسران تک آپکے ذریعے اکھاڑ پچھاڑ ( تبادلہ جات ) پر زور لگا رکھا ہے ابھی آپکے پاس مبارکباد دینے
والوں کا تانتا بھی بندھے گا اور شاید نصف سے زائد ” حضرات گرامی کے پاس پیور ( خالص) ذاتی مفادات پر مبنی درخواستیں بھی ہونگی
ڈی ایس پی ایس ایچ او کو ” پارت ڈیووو چاء ” کے فون کروانے والے بھی ہونگے مگر ہمیں ان سے کوئی غرض نہیں ” ایسے عناصر ” گزشتہ چالیس سالوں سے ہر
صاحب اقتدار کے محل کی غلام گردشوں میں بارہا گھومتے پھرتے ہر ایک نے دیکھے ہوئے ہیں
اور ہم سادہ لوح لوگوں سے زیادہ آپ خود ( سیاستدان ) بہتر جانتے ہیں ۔
جام پور دھرتی کے باسی کی حیثیت سے ہمیں آپ سے کسی قسم کی ذاتی مراعات کی تمنا نہ پہلے تھی نہ اب ہے
اور نہ ہی ان شا اللہ آئندہ ہوگی البتہ دیگر علاقائی سیاستدانوں کی نسبت آپ سے کچھ توقعات وابستہ ضرور ہیں
جن میں پہلی اور ترجیحی خواہش ‘ آرزو ‘ توقع جام پور ضلع کا قیام ہے جو کہ لاکھوں مجبور بے بس
لوگوں کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے ۔۔۔اسکے علاوہ چند اہم گزارشات جن کا تعلق آپکی ذات اور آپکی وزارت سے ہو سکے تو غور فرما لیجیے گا
عوام کے فائدے کے ساتھ ساتھ شاید آپکو اور آپکی جماعت کو بھی سیاسی لحاظ سے مزید دوام مل جائے
1.
جب آپکے والد محترم صدر پاکستان تھے ( جنوری 1997) اور آپ اسی حلقے سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے
( اور پہلی انٹری میں ہی کامیاب قرار پائے تھے ) اس وقت 38 کروڑ روپے کی لاگت سے سوئی گیس کی پائپ لائن بچھائی گئی تھی
( وفاقی وزیر جاوید جبار نے با ہمراہی سردار محمد جمال خان لغاری ) افتتاح کیا تھا وہ دن اور آج کا دن وہی پائپ لائن منتظر ہے سوئی گیس کنکشن کی ۔آپکی تھوڑی سی کاوش سے یہ مسلہ حل ہو سکتا ہے ۔
2 ۔1993.94 سے جام پور کا جنرل بس اسٹینڈ بنا ہوا ہے آج تک چالو ہی نہیں کیا گیا جبکہ اڈہ فیس کے نام پر لا کھوں روپے سالانہ وصول کیے جاتے ہیں
گزارش ہے کہ تمام جدید سہولتوں سے آراستہ کر کے اسے فی الفور چالو کروا دیں اور شہر سے تمام غیر قانونی بس اسٹینڈ ٹیکسی اسٹینڈ ختم کروا دیں ۔
3.شہر میں دس واٹر فلٹریشن لگائے گئے تھے جب تک محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے زیر انتظام تھے کبھی بند نہ ہوئے تھے مگر اب یہ حال ہے کہ
نہ فلٹر وقت پر تبدیل ہوتے ہیں نہ کوئی چوکیدار نہ صفائی کا انتظام ( سرکاری رپورٹ میں اوکے ہیں ) آپ اپنے ذرائع سے خود تصدیق کروا لیں ۔
ایک پلانٹ بلدیہ کے جنوبی گیٹ نیشنل بنک سامنے ڈھانچہ بنا کھڑا صرف 35000 کے خرچہ کی وجہ سے نہیں چل سکا ( کیونکہ اس رقم میں کمیشن نہیں بچتا ناں یہ وہ پلانٹ ہے جو بہت پہلے موجودہ ماڈل بازار کی جگہ لگا تھا پرانی کمیٹی میں ) ۔۔
ایک اور پلانٹ میونسپل پارک کے شرقی گیٹ پر بنا کھڑا ہے مگر کب اور کس نے چالو کرنا ہے نہیں معلوم ۔۔
4 .آپ ہی کی جماعت کے اقتدار میں جام پور کو ماڈل سٹی پراجیکٹ کے نام سے پانچ ارب روپے کا پراجیکٹ ملا تھا
جو ڈیزائن یا نقشہ اور تخمینہ تھا اس پر شاید بمشکل 10 سے 15 فیصد عملدرامد ہوا ہو باقی جھولے لال ۔۔کہا یہی گیا کہ
فنڈز اورنج ٹرین کے منصوبے کیلیے لاہور واپس ہو گئے ہیں ۔
5 .اسی منصوبے کے تحت شہر میں توڑ پھوڑ ہوئی ٹریفک چوک سے تاریخی قدیم بڑ ” بوہڑ ” کا درخت کاٹ دیا گیا
کسی نے نہ سنی وہ وقت تو گزر گیا مگر صورتحال یہ ہے کہ
جن روڈز کو کھلا کیا گیا ( باقی تو طاقتور مافیاء نے رکوا دئیے تھے) ان کے عین درمیان میں بجلی اور ٹیلی فون کے پول بدستور موجود ہیں
6.
آپ کے والد محترم سردار فاروق احمد خان لغاری کی صدارتی گرانٹ سے بنایا جانے والا میونسپل پارک مکمل تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے
شاید دنیا کا واحد شہر جام پور ہے جسکے میونسپل پارک اور سپورٹس اسٹیڈیم کے اندر دیدہ دلیری کے ساتھ سیوریج لائینیں گزار دی گئی ہیں اور جب گٹر ابلتے ہیں پائپ پھٹتے ہیں غلیظ بد بو دار پانی کی جھیل شہریوں کا نہ صرف منہ چڑا رہی ہوتی ہے
بلکہ ارد گرد کی آبادی کا جینا محال ہو جاتا ہے اسی پارک کے ایک کونے میں لاکھوں روپےسے تعمیر شدہ ” ای لائبریری ” اعظم شہید لائبریری کی خوبصورت
عمارت گزشتہ کئی سالوں سے اپنی تعمیر سے لیکر اب تک تمام سہولتوں حتی ا کہ کتابوں سے محروم کسی رہبر کی راہ تک رہی ہے ۔
7 .
سماجی تفریحی سرگرمیواں کا مرکز "سول کلب جام پور ” جو آپ ہی کے صدارتی دور میں از سر نو تعمیر اور تزئین وآرائش سے آراستہ ہوا تھا اسکی حالت زار بھی دیدنی ہے ۔
8.,سرکاری رقبہ کو قبضہ مافیاء سے آزاد کرا کر گندگی کے
ڈھیر ختم کر کے عوام نے ایک عوام دوست آفیسر سیف الرحمان بلوانی کی سرپرستی میں ” مولانا عبید اللہ سندھی پارک ” اپنی مدد آپکے تحت بنایا اسکی چار دیواری اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اسی کے سامنے
” سید مسن شاہ بخاری چلڈرن پارک ” کی تعمیر اور کھوسہ کالونی سے ملحق ملاں والا پر وسیع وعریض سرکاری رقبہ پر ” خواجہ فرید پارک اینڈ سپورٹس گراونڈ ” کی تعمیر
بھی یہاں کے شہریوں اور نوجوانوں کی ضرورت ہیں
سردار محترم ! جام پور کے دکھوں اور محرومیوں کی داستان ( جس سے آپ بھی بخوبی واقف ہیں ) اس قدر طویل ہے کہ جی چاہتا ہے کہ
ایک مرتبہ مرتبہ کہیں سے الہ دین کا چراغ ہاتھ لگ جائے اور پلک جھپکتے ہی جام پور پیرس سے بھی
خوبصورت شہر بن جائے مگر یہ طلسماتی کرشمے ہم غریبوں کے نصیب میں کہاں ؟
بے شک اس پوری کائنات کا مالک و خالق اللہ تعالی ا ہی ہے سب کچھ اسکے اختیار میں ہے مگر اسی پاک ذات نے اپنے تخلیق کردہ انسان کو ہی دوسرے انسانوں کیلیے
وسیلہ قرار دیا ہے اور خدمت خلق کو سب سے افضل عبادت بھی قرار دیا ہے مولا علی کا فرمان ہے کہ ” جب آپکے پاس کوئی بھی اختیار اور طاقت ہو تو خلق خدا کے
ساتاح عجز و انکساری سے پیش آو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور اختیار کو مخلوق خدا کی خدمت کیلیے وقف کر دو اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اس قدر شفقت محبت اور پیار سے
پیش آو کہ تمہارے اقتدار واختیار چھن جانے کے بعد بھی لوگ اسی طرح آپکا احترام و عزت کریں
جس طرح وہ تمہارے اقتدار واختیار کے عرصہ میں کرتے تھے ”
اور بقول شاعر "اساں تاں توڑ نبھا چھوڑی اگوں جانڑیں یار نہ جانڑیں ۔۔۔۔۔۔
"
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون