رمیض حبیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورٹ انسپکٹر کا بنگلہ !!
( ملک خدابخش سپیکر کی حویلی )
تحریر و تحقیق:
ریاض انجم ۔ رمیض حبیب
میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کے ریاض انجم صاحب نے اپنی اور میری تحریر کو ایک جگہ ملا کر کے معلومات کا خزانہ جمع کر دیا۔ میں نے ریاض انجم صاحب کی ایک ساتھ لکھی گئی تحریر میں ایک لفظ کا اضافہ یا کمی نہیں کی۔
—— ———————–
@ Post Shared by Riaz Anjum :
with the additional information of :—
☆ Ramiz Habib sahb :—
coordination by :–
☆ Asad Awaan &
☆ Shawaal Khan !
—————————–
@ گذشتہ ھفتے عشرے سے ، میں ، facebook پہ ایک پوسٹ شیئر کر رھا ھوں — جس کا عنوان ھے –
☆ ” جو ملے تھے راستے میں ”
@ دوستوں میں سے جس کسی نے بھی ، اس پوسٹ کا حصہ دوم ( Part 2 ) اگر پڑھا ھو ، تو اس میں — میں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے مسلم بازار میں واقع ایک شاندار حویلی کا ذکر کیا تھا ، جو اپنی بناوٹ ، طرزتعمیر اور خوبصورتی کے اعتبار سے نہایت انفرادیت کی حامل ھے !
اور ، میں نے اسے نام دیا تھا !
” کورٹ انسپکٹر والی حویلی ”
————————————–
☆ اسے یہ نام دینے کی بھی میری ایک وجہ تھی !
1958ء میں ، جبکہ میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا ، اپنی ھمشیرہ خورشید نواز کا رقعہ اس کی کلاس فیلو ، باجی حمیدہ کے پاس لایا کرتا تھا ، باجی حمیدہ کے والد چونکہ عدالت میں کورٹ انسپکٹر کے عہدے پر تھے – اور وہ لوگ اسی حویلی میں بطور کرائے دار رھائش پذیر تھے ، اس لئے ، ھم اسے کورٹ انسپکٹر والی حویلی کہا کرتے تھے !
@ پوسٹ تو میں نے send کردی – مگر اس بات کا تجسس ھی رھا کہ ———- یہ شاندار حویلی کس کی ملکیت ھو سکتی ھے !
—————————-
تو میرے استفسار پر ، جناب رمیض حبیب صاحب نے ، اپنی 6 دسمبر 2020ء والی پوسٹ کا حوالہ دیتے ھوئے بتایا کہ :—-
” یہ حویلی” ملک خدا بخش ” کی ملکیت ھے ، جو صوبہ سرحداسمبلی کے سابق سپیکر تھے !
ان کی پوسٹ کی تفصیلات پڑھ کر ، میری معلومات میں بھی اضافہ ھوا — اور میں نے رمیض صاحب سے وعدہ کیا کہ :—
انہی ” ملک خدابخش ، سپیکر سرحداسمبلی کی ایک نایاب تصویر میرے پاس موجود ھے ،
کوشش کروں گا کہ :
اسی ” حویلی ” ھی کے reference کے ساتھ share کروں — تو رمیض صاحب نے کہا کہ :– جی ! ضرور کیجئے گا !
———————-
@ چنانچہ آج :—-
میں اپنی سابقہ پوسٹ کے کچھ حصے کو ، جس کا تعلق ، اس حویلی سے ھے — رمیض حبیب صاحب کی فراھم کردہ معلومات کے ساتھ ، منسلک کر کے اضافہ شدہ پوسٹ کی صورت میں ، دوبارہ share کر رھا ھوں ، تاکہ بات ادھوری نہ رھے ، اور مکمل ھو جائے !
—————————
تو جو دوست ، حویلی سے متعلق ، میری سابقہ پوسٹ پڑھ بھی چکے ھوں — ان کیلئے بھی ، یہ نئی پوسٹ ، میری اور رمیض حبیب صاحب کی ، فراھم کردہ مشترکہ معلومات کی روشنی میں علمی اضافے کا باعث بنے گی !
———————————
@ ھاں !
ملک خدابخش صاحب سپیکر ، کی یہ نادر و نایاب تصویر ، مجھے کہاں سے اور کیسے ملی ، اس بارے مختصرا” جان لیجئے کہ :—-
@ اپنے زمانہ طالب علمی کے ادوار سے لے کر 2000ء تک ، جب کبھی ، میں لاھور جاتا تو ————- !
"چوک پرانی انارکلی” میرا جانا ضرور ھوتا تھا کہ :–
جہاں پہ شاندارعلمی کتابوں کی سیکنڈ ھینڈ بک شاپس ھوا کرتی تھیں — اور نہ صرف شاپس ، بلکہ وھاں کے فٹ پاتھ بھی ، آپکی پسندیدہ علمی کتابوں سے پر رھتے تھے !
جناب مستنصرحسین تارڑ ، اپنی کتاب ” خطوط ” میں لکھتے ھیں کہ ، وہ نہ صرف خود اس ذخیرہ کتب سے فائدہ اٹھا کر، وھاں سے سستی کتابیں سمیٹ لاتے — بلکہ حیران کن حد تک انہوں نے ، "شفیق الرحمن” جیسے عظیم ادیب کو ، وھاں سے کتابیں حاصل کرتے ھوئے بھی دیکھا !
تو میرے کہنے کا مطلب ! کتاب ایک ایسی قیمتی چیز ھے کہ چاھے آپ کو لندن بکڈپو پشاور یا فیروز سنز لاھور سے ملے — چاھے ، چوک انارکلی کے فٹ پاتھ سے — اس کی علمی حیثیت اور افادیت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا ! ھاں ، فٹ پاتھ پر سے خریدنے میں اپکو ، یہ فائدہ ضرور ھوتا ھے کہ وہ آپ کی جیب اور” استطاعت خرید” کے دائرے میں آ جاتی ھے !
—————————-
@ ملک خدا بخش صاحب کی یہ تصویر بھی مجھے ، ایک ایسی ھی شاندار تاریخی کتاب سے ملی ، جو چوک انارکلی کے اسی فٹ پاتھ والے کتابی ڈھیر سے حاصل ھوئی !
لندن بک کمپنی پشاور ، سے 1938ء میں چھپنے والی اس کتاب کی اصل قیمت ان وقتوں کے _/ 200 روپے کے برابر تھی ( جسے موجودہ -/ 1000 روپے کے برابر جانیئے )
مجھے یہ صرف — / 40 روپے ادا کرنے پہ دستیاب ھو گئی !
کتاب کا نام :—
@ The Evolution of North- west Frontier
Province.
written by :—-
” Rai Bahadur Diwan Chand Obhrai.
—————————
@ کتاب انگریزی زبان میں ھے اور واقعی پڑھنے لائق ھے کہ ان زمانوں کے صوبہ سرحد کی سیاسی سرگرمیوں کا نہ صرف احاطہ کرتی ھے ، بلکہ اس دور کی اعلےا سیاسی شخصیات کی تصاویر کا گویا ایک نایاب البم ھے – تاھم میں نے اپنی پوسٹ کے مطلب و مقصد کی خاطر یہاں سے صرف ، ملک خدابخش سپیکر ، کی تصویر ——– کتاب کے مصنف دیوان چند اوبرائے کی تصویر ، اور 1938ء والی طورخم بارڈر ( ھند و افغانستان ) کی منفرد تصویر ھی —- علیحدہ کی ھے ! تاکہ انہیں share , کیا جائے !
———————————–
@ تو ائیے ! پہلے اس حویلی سے متعلق اپنی پوسٹ کا وہ حصہ دوبارہ share کرتا ھوں ،——— جو میرے زمانہ طالب علمی کی یاداشتوں سے متعلق ھے !
اور پھر، بعد میں ، آپ اس کا وہ حصہ پڑھیں گے ، جو حویلی کے اصل مالک خدابخش کے حالات زندگی سے متعلق ھے ، اور جسے ، جناب Ramiz Habib نے اپنی 4 ماہ پہلے کی پوسٹ میں شیئر کیا تھا !
میں نے وھیں سے اخذ کرکے اسے مختصرا” بیان کیا ھے – تاکہ پوسٹ کی غیرضروری طوالت سے بچا جائے !
——————–
@ 1 — میری یاداشتوں والا حصہ !!
@ کورٹ انسپکٹر والی حویلی
( مسلم بازار ) ڈی آئی خان
——————————–
@ مسلم بازار ھی میں ھم مزید آگے بڑھے اور وھاں پہنچے ، جہاں پہ کبھی ڈاکٹرغلام قاسم خاکوانی کا کلینک ھوا کرتا تھا !
ڈاکٹرقاسم کب کے اگلی دنیا کو سدھار گئے ، کلینک کا نام و نشان نہ رھا ! لیکن :—
آج ، اسے یوں آزادانہ انداز میں کھلا اور بے حجاب دیکھ کر، میرے ذھن میں گویا ماضی کی یادوں کا ایک دریچہ کھل گیا !
کیونکہ :— اس شاندار اور پرکشش حویلی کے اندرون سے میری بچپن ، لڑکپن کی یادیں وابستہ تھیں !
چلیئے ! آپکو بھی ماضی کی ان یادوں سے آگاہ کرتا چلوں !
—————————
@ میری بڑی ھمشیرہ ، خورشید نواز کی ایک کلاس فیلو ھوا کرتی تھی — ” حمیدہ بیگم ” !
جو کسی ” کورٹ انسپکٹر” کی دختر تھی — کورٹ انسپکٹر کا نام مجھے بھی یاد نہیں !
یہ قصہ ھے 1958ء کا — جب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا !
باجی ، کبھی کبھار مجھے ایک رقعہ دے کراپنی اس کلاس فیلو کے ھاں بھیجا کرتی تھی — اور یوں ، مجھے آج سے 63 برس پہلے ، اس حویلی کا عظیم الشان گیٹ کھٹکھٹا کر اندر داخل ھونے کا بار بار موقع ملتا رھتا تھا !
مکان جتنا باھر سے پرکشش نظر آتا تھا — اندر سے اس کی نوابی شان ، مجھے اور بھی ورطہء حیرت میں ڈالتی تھی !
میں جب حویلی کے شاندار دالانوں سے گذر کر فانوس لگے مرکزی ھال کمرے میں پہنچتا تو جوتے اتار کر قالینوں کو روندتا ، وھاں پہ بچھے نرم صوفے میں دھنس جاتا ! اور تب
باجی حمیدہ ( جسے میں اپنی بڑی بہن کی نگاہ سے دیکھتا تھا ، میرے سامنے چائے کی پیالی اور بسکٹ رکھ کر باجی خورشید کا حال پوچھتی اور رقعے کا واپسی جواب دیتی !
@ تاھم چائے اور بسکٹ سے کہیں زیادہ ، مجھے اس مکان کی شانداربناوٹ اور طرزتعمیر میں کھو کر اس کے ——
درودیوار کو دلچسپی سے دیکھنے میں زیادہ لطف آتا تھا !
@ پھر ایک وقت آیا ،
جب کورٹ انسپکٹر صاحب ، ڈی ائی خان سے راولپنڈی یا شاید جہلم وغیرہ ٹرانسفر ھو گئے ! تو اس شاندار حویلی کا دروازہ ، مجھ پر ھمیشہ کیلئے بند ھو گیا ! کیونکہ اب نئے کرائے دار آچکے تھے ! جن سے میری کوئی جان پہچان نہ تھی !
مجھے اج تک پتہ نہیں کہ اس شاندار حویلی کا اصل مالک کون تھا ؟ یا کون ھے ؟
میں تو بس اسے ، کورٹ انسپکٹر والی حویلی ھی کہا کرتا تھا !
وقت بیشک گذرتا رھا – تاھم اس پرکشش حویلی کی اندرونی بناوٹ اور طرزتعمیر کی دلکشی کا جادو ، میرے ذھن پہ حاوی رھا !
@ اور پھر :— اج سے کوئی 6 سال پیچھے کی بات ھے -جب میری بڑی باجی خورشید بقیدحیات تھیں – ( ان کی وفات 2016ء میں ھوئی )
وہ موبائل فون پر کسی سے
بات کر رھی تھیں – میں ساتھ ھی بیٹھا تھا ! وہ مجھ سے مخاطب ھو کر بولیں !
ریاض ! یہ لو — بات کرو باجی حمیدہ سے !
کونسی باجی حمیدہ ؟
وھی میری پرانی کلاس فیلو
کورٹ انسپکٹر والی باجی حمیدہ !
وہ راولپنڈی سے بات کرنا چاہ رھی ھیں آپ سے !
اوہ ! تو میں واقعی حیران رہ گیا — باجی حمیدہ نہ یہ کہ صرف زندہ تھیں ، بلکہ نہایت اپنائیت کیساتھ ، مجھ سے مخاطب ھو کر کہہ رھی تھیں !
” ریاض بھائی ! کیسے ھیں آپ ؟
باجی ! بہت ٹھیک ھوں ! اور پورے 55 برس بعد آپ سے بات کر کے بہت خوشی محسوس کر رھا ھوں ! ھوں !
@ وہ بولی ! جی ھاں ! مجھے بھی وہ چھوٹے سے ریاض کا اپنے مسلم بازار والے مکان میں رقعہ لے کر آنا یاد ھے —- !!!
@ واہ ! کمال کے لوگ تھے ان زمانوں کے !
سادہ ! نیک طینت ، اپنے ماضی کو فراموش نہ کرنے والے اور پرخلوص !
@ بندھا ھوا اک اک تاگے میں
بھائی بہن کا پیار
راکھی ! تاگوں کا تیوھار !
————————-
@ ڈاکٹرقاسم کلینک کے سامنے کھڑے ھوئے —— پلک جھپکتے میں !
وہ سب کچھ ، میرے اگے سے ایک فلم کی مانند گذرتا چلا گیا ، تو میں نے شوکت منیر صاحب سے کہا کہ وہ ، اپنی
موٹرسائیکل حویلی کے اندر تک لے جائے ! کیونکہ اج اس کھلی حویلی میں بڑی بڑی دیگوں میں شادیوں کے پکوان پکائے جا رھے تھے ! لہذا حویلی کا بڑا گیٹ اور اندرونی حصہ آزادانہ آمدورفت کیلئے کھلا ھوا تھا !
میں نے پکوان تیار کرنے والوں سے مصافحہ کیا ، ان میں ایک نوید نامی نوجوان کی شوکت منیرصاحب سے جان پہچان بھی تھی – میں نے حویلی کے ایک حصے اور ڈیوڑھی کی تصویر لی – جس میں حویلی کے ایک پورشن کے ساتھ ساتھ حویلی کی شاندار ڈیوڑھی میں نوید اور شوکت کو بھی دیکھا جا سکتا ھے !
میری کھینچی ھوئی ان تصاویر کو دیکھ کر ڈیرہ شہر کے دوست عموما” اور مسلم بازار کے آس پاس بسنے والے ساتھی خصوصا” اس شاندار حویلی کو ضرور پہچان لیں گے
————————————
@ اور ائیے ! اب :—-
☆ رمیض حبیب صاحب کی پوسٹ کے حوالے سے — حویلی کے اصل مالک ” ملک خدابخش صاحب ” کا احوال جانتے ھیں !
@ حویلی ملک خدابخش ( سپیکر ) !!
————————–
☆ مسلم بازار میں واقع ، یہ سو سالہ تاریخی حویلی ، قیام پاکستان سے قبل ، دیودار کی قیمتی اور شاندار لکڑی سے ، 1920ء میں تعمیر کی گئی !
یہ حویلی ، صوبہ سرحد اسمبلی کے سابق سپیکر ، ملک خدابخش کی ملکیت تھی ! جن کا تعلق شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا !
تقسیم سے قبل ، اس حویلی میں بہت رونق رھتی تھی – فلاحی کاموں کیلئے ، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ، ھندو بھی یہاں آتے جاتے تھے !
ملک خدا بخش ، ڈیرہ کے ایک متوسط گھرانے میں 1889ء میں پیدا ھوئے — آپ وکٹوریہ بھراتری سکول ڈیرہ کے طالب علم تھے — 1905ء میں میٹرک ، 1907ء میں ایف اے اور 1909ء میں بی اے کے امتحانات پاس کئے !
ھر امتحان میں اول آئے — 2 سال بعد ایل ایل بی ( قانون ) کا امتحان پاس کرکے وکالت کا پیشہ اختیار کیا !
تحریک خلافت میں حصہ لیا – 3 سال جیل بھی کاٹی — قرآنی تعلیمات سے بھی بصیرت حاصل کی !
ملک خدابخش صاحب ، نہایت شریف ، سادہ مزاج ، ملنسار اور ھردلعزیز انسان تھے –
1932ء میں ، سرحد لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ھوئے !
آزاد پارٹی لیڈر بنے ، 1937ء میں سرحداسمبلی کے سپیکر چنے گئے اور کئی سال اس عہدے پر فائز رھے – قانونی قابلیت کی بنا پر ، ایڈووکیٹ جنرل بنائے گئے — اس کے بعد ایڈیشنل جوڈیشنل کمشنر ھوئے ! — وائسرائے کی نیشنل ڈیفینس کونسل کے رکن بنے اور اپنی اصابت رائے کی بنا پر ، ملک گیر شہرت حاصل کی !
ملک خدابخش ، 27 جنوری 1957ء کو لاھور میں انتقال کر گئے !
☆ 1- رمیض حبیب صاحب :—
بہ تعاون و شکریہ !
☆ 2 – بھائی اسد اعوان
☆ 3 – شوال خان
—————————————-
@ پوشٹ کی طوالت پر معزرت خواہ ھوں !
تاھم ! دونوں posts کے مواد کو یکجا کر کے ایک
مکمل پوسٹ بنا کر ، بھیجنے کی وجہ سے آپکو زیادہ
مواد کا سامنا کرنا پڑا !
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی