عادل علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اسے ازلی بدقسمتی کہیں یا سوچی سمجھی سازش کہ جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان آج تک حقیقی جمہوریت اور آزادانہ حقوق کو ترس رہی ہے۔
آزاد ریاست کا خواب اب تک ایک خواب ہی ہے جسے جب جب شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کی گئی تب ہی اس پر شب خون مارا گیا اور حکومتی ایوانوں پر قبضہ کر لیا گیا۔
میں اپنی تحریر کسی مارشل لا کی تشریح کی نظر نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اب تو سب ہی جان چکے ہیں کہ اصل میں معاملات میں بگاڑ کہاں سے پیدا کیا جاتا رہا ہے ہاں البتہ یہ سوال اب تک اپنی جگہ جواب طلب ہے کہ ایسا کرنے کی اصل وجہ کیا ہے؟
کیا واقعی یہ مان لیا جائے کہ ہمارے ملک کے معاملات بیرونی مداخلت پہ چلتے ہیں یا پھر ہم اسے اقتدار کی لالچ یا طاقت کا نشہ قرار دیں کہ ان کی انا سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ملک بھی نہیں !
بات صرف سرعام مارشل لا پر نہیں رک جاتی اس کے بعد سلسلہ شروع ہوتا ہے سیاسی انجنیئرنگ کا کہ اپنی خود ساختہ سیاسی فیکٹری میں سیاست دان تیار کیے جائیں اور انہیں بیک ڈور سپورٹ فراہم کر کے حکومتی ایوانوں میں پہنچایا جائے۔
دنیا میں ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور تمام تر امور ریاست میں ان کی شمولیت بھی بہت ضروری ہوتی ہے مگر کسی بھی چیز کا حد سے بڑھ جانا ہمیشہ سے ہی نقصان دہ ثابت ہوا ہے خواہ وہ کوئی بھی معاملہ کیوں نہ ہو۔
جس کا کام اسی کو سانجھے۔ جس طرح آپ سیاسی و عوامی معاملات کی گہرائی کو نہیں سمجھ سکتے اسی طرح ہر کوئی آپ کے کام کو نہیں سمجھ سکتا۔ بہتر ہے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کیا جائے۔
کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی اس کی معیشت ہی ہوتی ہے کیونکہ محکمہ دفاع بھی معیشت کے مستحکم ہونے سے ہی اپنی طاقت کو بحال رکھ سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں جو حال معیشت کا ہے اور جس طرح سے نااہل پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سابقہ حکومت نے ملک کی معیشت کو عالمی اداروں کے ہاں گروی رکھ دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
غلامی سے آزادی کے نعرے لگانے والے عوام کو اس بات سے گمراہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ معیشت پر غلامی تسلیم کرچکے تھے کہ جیسے آپ کہینگے ویسے ہی ہوگا اور اسی بنا پر ملکی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے بھی لیے گئے مگر کام کچھ بھی نہیں ہوا۔
جب آپ کے ملک کی اشیائے خورد نوش کی قیمتیں کیا ہونگی پانی بجلی گیس کی قیمتیں کیا ہونگی آپ اپنی عوام پر ٹیکس کا بوجھ کتنا ڈالینگے آپ کے ملک کی شرح سود کیا ہوگی کہ ہمارے قرضوں کی بھرپائی ہوسکے جب یہ سب آپ قرض فراہم کردہ اداروں کے احکامات پر طئے کرینگے تو آپ کے ملک کی عوام معاشی طور پر غلام ہی سمجھی جائیگی اور اس کا سہرہ کسی اور کے نہیں سابقہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کے سر ہی جاتا ہے جو کہ کبھی کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس دو سو معاشی ماہریں کی ٹیم موجود ہے اور ان کے چند وزرا ایوان بالا میں قیمتوں تعین انگلیوں پر کیا کرتے تھے۔
بحیثیت ایک جذباتی قوم ہم امریکا کی غلامی نامنظور کے نعروں پر تو مست الست نظر آتے ہیں مگر ان عالمی اداروں کی معاشی غلامی کا طوق گلے میں لیے سابق حکمران سے اس کے سینتیس ماہ کی کارگردگی پر سوال کرنے کے بجائے موجودہ مخلوط حکومت جسے ابھی چند ہفتے بھی نہیں ہوئے ان سے حساب مانگ رہے ہیں۔
مشکل فیصلوں کی باتیں عمران خان صاحب بھی کیا کرتے تھے۔
ان کے برائے نام ماہرین بھی عوام کو نوید سنایا کرتے تھے کہ قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے ہم مجبور ہیں۔ مگر ان سے کسی نے یہ سوال نہ کیا کہ آپ تو قرٖضے اتارنے کی خاطر آئے تھے تو پھر آپ نے قرضے لیے کیون؟ اور لیے بھی تو لگائے کہاں؟
جو ذی شعور یہ سوالات کریگا وہ مملکت خدادا میں پڑھے لکھے باشعور لوگوں کے بیچ نسل در نسل غلام کہلائیگا لہٰذا سوال اپنے رسک پہ کیجیے گا مگر !
مٹھی بھر لوگ جن کا پیٹ بھرا ہو وہ اندھے ہوسکتے ہیں پوری قوم نہیں۔
امریکا کی غلامی کی بازگشت معاشی غلامی کے لیے کیے گئے معاہدوں اور ان ملنے والے پیسوں میں سے اپنی تابناک چوریوں پر سے نظر ہٹوانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ہماری معیشت مظبوط ہو ہمارے ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے آئین کے دائرے میں رہ کر کام کریں تو کسی کی بھی سازش خواہ وہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو کامیاب نہیں ہوسکتی۔
عوام کو پاگل نہ سمجھیں!
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی