ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرکیا سادے ہیں ،بیمار ہوئے جس کے سبب ۔۔۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں بھی اردو ادب کا ایک ایسا یادگار شعر ہے کہ ہر طرح کی صورتحال میں اس شعر کا استعمال ہمیشہ خوبصورت ہی لگتا ہے ۔شعر سے قطع نظر میر بالکل ہی سادہ نہیں تھے ان کو اگر اپنے عہد کا نوسٹرا ڈیمس یا پھر نعمت اللہ شاہ ولی کہا جائے تو غلط نا ہوگا اور اس شعر کو میر تقی میر کی پیش گوئی کہا جائے تو کسی حد تک جائز ہے ۔شائد میر کو ہمارے دکھوں کا اندازہ تھا ہماری بے بسی اور بے کسی کا بھی ادراک تھا۔اور اسی بے بسی کا اظہار میر نے اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں کیا ہے ۔
حالیہ سال کے نومبر میں ایک اہم ترین ریٹائرمنٹ کے بعد نئی اپوانٹمنٹ گویا سب کا مشترک دکھ ہے ۔ہر کوئی یہ اپوائنٹمنٹ کرنا چاہتا ہے مگر نہیں کرسکتا اور یہی بے بسی کھائے جارہی ہے ۔کل تک جو یہ تقرری کرسکتے تھے وہ اب بے اختیار ہیں اور کل کے بے اختیار اس نئی تقرری کی طاقت ملنے کے بعد پھولے نہیں سما رہے ۔بے اختیاری کے بعد بے کلی بڑھتی جارہی ہے بلکہ چڑچڑاپن بڑھنے لگا ہے لہجہ اور رویہ مزید کھردرا ہوتا جارہا ہے ۔مستقبل کے اندیشے کھائے جارہے ہیں۔الجھنیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ گھر بار چھوٹ گیا ہے ۔ایک سودا ہے جو سرمیں سما گیا ہے اب اس جنوں میں یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک والی کیفیت ہوچکی ہے
25 جولائی کو خلیفہ کے شہر کی سڑکوں پر جو جنگ لڑی گئی کیا وہ عوامی حقوق کی جنگ تھی ۔کیا محاز آرائی کرنے والے اور جتھے لے کر آنے والا عوام کی مشکلات اور تکالیف کے سبب بے چین تھا اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو اس کو بھی عیسیٰ کی بھیڑ سمجھو ۔نئے انتخابات کی تاریخ مانگنے میں اس قدر شدت کہ جیسے اپنے دور اقتدار میں دودھ شہد کی نہریں بہا دی ہوں جیسے خلق خدا کے لیے من وسلویٰ اترتا ہو اور راوی چین ہی چین لکھتا ہو۔کیا ہے دامن میں ایسا کہ نئے انتخابات کے لیے سنبھالے نہیں سنبھل رہے ۔بقول آصف علی زرداری کہ اپنے دور حکومت میں ایسا کیا کرلیا جو نئے انتخابات کا مطالبہ اتنی شدت سے کیا جارہا ہے ۔
نامہ اعمال پرغور تو کریں زرا اپنے دامن کے چھید تو ملاحظہ فرمائیں پھر کسی کے چاک گریباں کی طرف انگلی کھڑی کریں ۔قرضوں کی بھرمار، افراط زر ، بے روزگاری ، مہنگائی ، ملکی معیشت کا ستیا ناس، ہونق اور بدحواس ٹیم کے ساتھ عام آدمی کے مسائل سے مختلف عجیب وغریب بیانیہ ۔ غریب کی بھوک کی بات ہوئی تو ریاست مدینہ کی تشکیل کی کہانی سنانے بیٹھ گئے ۔تن ڈھانپنے کی بات ہوئی تو ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر دیگر اقوام کی بے راہ روی کے قصے سنانے بیٹھ گئے ۔ایک ڈرامہ تھا جو کم وبیش چار سال تک چلتا رہا ۔ایک ایسی کہانی جس کا عام آدمی کے مسائل سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔
احباب اعتراض کریں گے کہ کیا اس حمام میں ایک کپتان ہی ننگا ہے تو ان کا اعتراض بجا ہے حمام میں تو سب ننگے ہیں مگر دیگر میں سے کوئی یہ دعویٰ بھی تو نہیں کررہا کہ وہ حمام میں بھی کپڑے پہن کر نہا رہا تھا۔پارسائی کا یہ دعویٰ تو محض ایک شخص کررہا ہے ایک ایسا شخص جو خود کو ریاست مدینہ کا معمار کہتا ہے جو خود کونئے پاکستان کا بانی کہتا ہے ۔جس کو پارسائی کا دعویٰ ہے تو کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ پارسائی کا دعویٰ کرتے تھے بہت حضرت ،،، شیخ کو مگر ہم نے پارسا نما پایا۔
سوال یہ ہے کہ پھر مسلئہ کیا ہے تو جواب یہ ہے کہ نومبر میں ایک بہت اہم ریٹائرمنٹ کے بعد اس نشست پر ایک نئی تقرری ہونی ہے اور جھگڑا اسی بات کا چل رہا ہے کہ تقرری کون کرئے گا۔کپتان کا مطالبہ کہ جون میں نئے انتخابات کی تاریخ دی جائے اور ستمبر تک الیکشن کرا دئیے جائیں تاکہ وہ برسراقتدار آکر نئی اپوائنٹمنٹ کرسکیں جبکہ اتحادی چاہتے ہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں تاکہ ایک تو ملکی معیشت کو سنبھالا جاسکے اور نئی تقرری بھی وہ مشاورت سے خود کریں۔
اب اس صورتحال میں دوسرا سوال یہ کہ اب ہوگا کیا تو بہت سادہ سا جواب ہے کہ کم وبیش نومبر تک تو یہی اسمبلیاں کام کریں گی اور نئی تقرری بھی موجودہ اتحادی کریں گے اور پھر اس کے فوری بعد نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا۔انتخابی اصلاحات اور نیب قوانین میں تبدیلی کا بعد تیسرا اور آخری کام یہی بچ گیا ہے جو کہ پورا ہونا ہے اور اس وقت اتحادیوں کا پلڑا بھاری جارہا ہے ۔ہررکاوٹ مشکل سے مگر دور ہوتی جارہی ہے ۔سست رفتار سہی مگر آگے بڑھنے کا سفر شروع ہوچکا ہے ۔
تو پھر آخری سوال یہ کہ کیا سیاسی صورتحال یہی رہے گی تو جواب ہے کہ ہاں سیاسی صورتحال اسی طرح رہے گی جب تک کہ اگست گذر نہیں جاتا تب تک ملکی سیاسی صورتحال اتار چڑھاو کا شکار رہے گی۔جتھوں کے ساتھ بار بار قصر خلافت پر چڑھائی اور یلغار کی کوشش ہوگی اور بھرپور ہوگی ۔ہوسکتا ہے کہ مرنے اور مارنے کی صورتحال پیدا ہوجائے ۔ہر وہ قدم اٹھانے کی کوشش کی جائے گی ہر وہ حربہ ستعمال کیا جائے گا جس سے حکومت کے جانے کا یقین ہو۔اس میں کسی نفع و نقصان کی پروا نہیں کی جائے گی ۔اس لیئے اب ہر گذرتے دن کے ساتھ ساتھ پریشانی بڑھتی جائے گی اپوزیشن کی طرف سے تبدیلی کی خواہش شدید تر ہوتی جائے گی۔ایسے میں فالورز اور سپورٹرز کوتختہ مشق بنایا جائےگا اور ان کو روکنے کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جائے گا۔جس نے دیکھنا ہودیکھ لے کہ سیاسی اشرافیہ میں اقتدار کی جنگ کیسی ہوتی ہے ۔افسوس ہے تو اس بات کا کہ اس ساری جنگ سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ان کے لیے اچھے دن ہنوز دلی دور است کی طرح بہت دور ہیں ۔
۔
————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر