ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ملتان میں بڑا جلسہ ہوا، تحریک انصاف کی قیادت جلسہ کے شرکاء کی تعداد لاکھوں میں بتاتی ہے،یہ ٹھیک ہے کہ سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور سٹیڈیم میں تقریباً40 ہزار افراد کی گنجائش ہے۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اسلام آباد مارچ کی تاریخ دوں گا لیکن یہ بات انہوں نے ایک بار پھر ٹال دی اور کہا کہ آنے والے اتوار کو تاریخ دوں گا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کے مطالبے کے باوجود عمران خان نے ملتان کے جلسہ میں وسیب کی محرومی اور صوبے کے حوالے سے کوئی بات نہ کی۔ جس پر مقامی لوگوںنے مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے کہ صوبے کا ذکر نہ کر کے گویا عمران خان نے خود تسلیم کر لیا کہ ان کی طرف سے سو دن میں صوبے بنانے کا تحریری معاہدہ سیاسی چال تھا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر وسیب کی محرومی کے حوالے سے کوئی ایک لفظ بھی نہ بولنا محروم طبقات سے زیادتی کے مترادف ہے۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں لوٹوں کا ذکر کیا مگر وہ یہ حقیقت بھول گئے کہ 2018ء میں ان کی مرکز اور صوبے میں حکومت بنوانے کیلئے جہانگیر ترین نے جہاز پر لوٹے لاد کر عمران خان کی خدمت میں پیش کئے تھے۔ خواتین کا احترام لازمی ہے، عمران خان نے مریم نواز کے بارے میں جو نازیبا کلمات ادا کئیوہ مناسب نہیں۔ عمران خان یا ان کی جماعت کے کسی رکن نے اپنی حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، آئندہ کیلئے بھی کوئی ویژن نہیں دیا، عمران خان الیکشن الیکشن کی بات کرتے رہے، مجھے نیلسن منڈیلا کا قول یاد آیا کہ روایتی سیاستدان الیکشن کا سوچتا ہے جبکہ لیڈر آئندہ آنے والی نسلوں کا۔ عمران خان کے انداز سیاست سے مجھے حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار کی باتیں اور پیشین گوئیاں درست معلوم ہوتی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو ملکر حالات کو سنبھال لینا چاہئے ، بظاہر جو مشکل حالات سے نکلنے کا راستہ نظر آتا ہے وہ موجودہ حکومت کا استعفیٰ اور نئے الیکشن کی تیاری ہے، (ن) لیگ والے زیادہ گھبراہٹ کا شکار ہیں حالانکہ جلسوں اور پولنگ اسٹیشنوں میں فرق ہوتا ہے، شروع شروع میں ایسا ہوتا ہے مگر کچھ عرصہ بعد غباروں سے ہوا نکل بھی جاتی ہے ، سیاستدانوں کو بڑے دل اور بڑے فیصلے کرنے چاہئیں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے سرگودھا میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کا طوفان لانے سے بہتر ہے حکومت چھوڑ دی جائے، اگر ڈالر آسمان پر اور معیشت وینٹی لیٹر پر ہے تو اس کا ذمہ دار عمران خان ہے، سابقہ حکومت کی تباہی کا گند اپنے سر نہیں لے سکتے۔ مریم نواز کا بیان اہمیت کا حامل ہے، جو حالات چل رہے ہیں بہتر یہی ہے کہ پی ڈی ایم حکومت چھوڑ کر الیکشن کی طرف چلی جائی۔ سیاسی بحران اپنی جگہ رہا لیکن معاشی بدحالی خوفناک ہے۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستانی معیشت ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عمران خان روئیں ، پیٹیں یا چیخیں، الیکشن کا فیصلہ حکومت اپنی مرضی سے کرے گی، اگر دونوں بیانات کو سامنے رکھا جائے تو اس میں شہباز شریف حکومت اور مریم نواز کے بیانیہ میں واضح فرق نظر آتا ہے اور ن لیگ میں دو سیاسی گروپوں کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ باوجود اس کے کہ ن لیگ کو بہت بڑا اقتدار حاصل ہوا ہے مگر اس اقتدار کا ایک ایک پل مسلم لیگ (ن) کے خلاف جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کیلئے یہ مشکل کی گھڑی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کیلئے (ن) لیگ کی قیادت کیا قدم اٹھاتی ہے۔ وسیب میں (ن) لیگ کے اقدامات کو توجہ سے دیکھا جا رہا ہے ، وسیب میں مقامی افراد کے (ن) لیگ کیلئے بہت تحفظات ہیں ۔ بر سراقتدار آنے کے بعد (ن) لیگ کی قیادت کی زبان سے سرائیکی وسیب کیلئے ہمدردی کا کوئی جملہ ادا نہیں ہوا۔ چولستان میں بدترین صورتحال ہے۔ پیاس سے انسان اور جانور مر رہے ہیں، زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں ، بہت بڑی تعداد میں چولستان سے نقل مکانی ہو رہی ہے۔ وسیب میں پانی کی قلت کے باعث فصل خریف کاشت نہیں ہو پا رہی، نہروں میں پانی نہیں ہے ، ٹیوب ویل چلانے کیلئے ڈیزل اتنا مہنگا ہے کہ کاشتکار مہنگائی کا سن کر خاموش ہو جاتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ٹیوب ویل کے زیادہ استعمال سے سرائیکی وسیب کی بہت سی جگہوں پر زیر زمین پانی بہت نیچے چلا گیا ہے اور ٹیوب ویل ناکام ہو چکے ہیں، نئے بور پر کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے ، سرائیکی وسیب کے غریب کاشتکار کی معاشی حالت اتنی کمزور ہے کہ وہ کھاد کی بوری بھی سود پر حاصل کرتا ہے، زرعی ادویات کے تاجر دوگنے ، چوگنے منافع پر دو نمبر ادویات فروخت کرتے ہیں۔ وسیب کا کاشتکار پورا سال محنت کرتا ہے بلکہ گھر کے تمام افراد دن رات محنت کرتے ہیں اور جب فصل تیار ہوتی ہے تو پاکستانی معیشت کی طرح غریب کاشتکار کی معیشت کی حالت بھی یہ ہوتی ہے کہ سود اور قرضے اتارنے کیلئے اُسے مزید سود پر قرض حاصل کرنا پڑتا ہے۔ میاں حمزہ شہباز بر سراقتدار آئے تو ہمارے گائوں کے ایک کاشتکار نے کہا کہ دیکھنا اب مرغی کے گوشت کا ریٹ پانچ سو روپے کلو تک جائے گا پھر سب نے دیکھا کہ ایسا ہوا۔ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے سستا آٹا دینے کیلئے دو سو ارب کی سبسڈی کا اعلان کیا ہے تو اصل حقیقت یہ ہے کہ غریب کو سستا آٹا بھی نہیں ملے گا اور غریبوں کی جیب سے دو سو ارب بھی چلا جائے گا۔ خزانے میں جمع ہونے والی رقم غریبوں کے خون پسینے کی کمائی ہے ۔ میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے انہوںنے بھی سستی روٹی کے نام پر اربوں روپیہ خرچ کیا تھا ، ہم نے اپنے ملتان میں دیکھا کہ (ن) لیگ کے لیڈروں اور کارکنوں نے کاغذی طو رپر تندور بنوا لئے اور تمام رقم فلور ملز مالکان اور (ن) لیگ کے کارکنان میں تقسیم ہوتی رہی۔ نعرے سب لگاتے ہیں ،غربت کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے مگر عملی طور پر غریب کو ہی ذبح کیا جاتا ہے ، عمران خان نے بھی ملتان میں وسیب کو مایوس کیا، اب وسیب کے لوگ سوچ سمجھ کر ووٹ کا استعمال کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر