ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا۔ منحرف کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ تا حیات نا اہلی بارے فیصلہ پارلیمنٹ کرے۔ آئین کے آرٹیکل 163 کی تشریح کیلئے صدر عارف علوی کی طرف سے سپریم کورٹ کو بھیجے گئے ریفرنس کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بینچ نے دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے کیا۔عمران خان کے مخالفین کی طرف سے اس اعتراض میں بھی وزن ہے کہ فیصلہ خلاف آئے تو گالیاں اور حق میں آئے تو اظہار تشکر۔ یہ ایک طرح سے ایسی دھاندلی ہے جس کا کسی بھی صورت میں خیر مقدم نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست میں انتہاء پسندی اور تشدد کے روجھان کو روکنا ضروری ہے اور لوٹا کریسی بھی ایک کینسر ہے جسے ختم ہونا چاہئے۔ سیاست میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والا عمل بھی قابل تعریف نہیں ہے۔ ہر معاملے میں تحمل اور برداشت ضروری ہے۔ منحرفین کی تاحیات نا اہلی بارے سپریم کورٹ نے گیند پارلیمنٹ کی طرف پھینک دی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے الیکشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ اتحادیوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی لیکن لگتا نہیں کہ اسمبلیاں مدت پوری کر سکیں۔ بحرانوں سے بچنے کیلئے بہتر راستہ یہی ہے کہ تمام جماعتیں الیکشن کی طرف چلی جائیں۔ (ن) لیگ کچھ دن پہلے فاتح کے طو رپر سامنے آئی تھی لیکن اس وقت سب سے زیادہ کمزور پوزیشن (ن) لیگ کی ہے۔ پیپلز پارٹی کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ آصف زرداری (ن) لیگ سے گن گن کر بدلے لے رہے ہیں۔ اب الیکشن میں جتنی بھی تاخیر ہو گی اس کا سیاسی نقصان (ن) لیگ کو ہو گا۔ ملتان میں 20 مئی کو تحریک انصاف کا جلسہ ہو رہا ہے۔ نوجوانوں میں بہت جوش خروش ہے۔ (ن) لیگ کی مقامی قیادت کے ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران خان ملتان کے جلسے میں ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالیں گے جس کے باعث وہ سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ پورا نہ کر سکے۔ اب میں دوسری طرف آتا ہوں، میرے کالم کا عنوان قومی معاملات اور چولستان کا المیہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چولستان کا المیہ کسی بھی صورت میں قومی معاملات سے الگ نہیں ہے۔ چولستان میں اب بھی پانی کی قلت ہے اور جانور اب بھی پیاس سے مر رہے ہیں۔ مقامی حکومت کی طرف سے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ ٹینکروں کے ذریعے پانی پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ محدود تعداد میں نہروں میں بھی پانی بھیجا گیا ہے مگر صوبائی اور وفاقی سطح پر بڑی امدادی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ ایک اچھا کام یہ ہوا ہے کہ بہاولپور میں سول سروس کے انسان دوست آفیسر راجہ جہانگیر انور کی کمشنر بہاولپور کی حیثیت سے تعیناتی ہوئی ہے۔ وہ وسیب کی تاریخی حیثیت سے باخوبی واقف ہیں۔ سابق ریاست بہاولپور کی پاکستان کیلئے عظیم خدمات کا علم رکھتے ہیں اور سرائیکی زبان و ادب سے محبت رکھتے ہیں۔ چولستان سے اُن کو ہمدردی بھی ہے اور محبت بھی۔ وسیب کے لوگ امید کرتے ہیں کہ ان کے آنے سے چولستان کے مسائل حل ہوں گے۔ مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو بیان کرنے کیلئے بھی وقت چاہئے۔ چولستان کے مسائل کے حل کیلئے کمیونٹی کو تجاویز دینی چاہئیں۔ میرے خیال کے مطابق چولستان کو آفت زدہ علاقہ قرار دے کر ایک کمیشن بنایا جائے جو نقصانات کا تعین کرے اور مرنے والے جانوروں کے مالکان کو حکومت معاوضہ دے۔ چولستان بہت بڑا صحرا ہے چولستان کو مختلف زونز میں تقسیم کرکے پانی اور دیگر امداد پہنچائی جائے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کوئی سماجی ادارے امداد کیلئے وہاں پہنچے تو ان کی حوصلہ شکنی ہوئی جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر امدادی کام کرنیوالوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ چولستان سے ملحقہ نہروں کو پورا پانی فراہم کیا جائے۔ انڈیا سے مذاکرات کرکے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کرائی جائے اور ستلج، راوی اور بیاس کیلئے پانی حاصل کیا جائے تاکہ ان دریائوں کی تہذیب مرنے سے بچ سکے۔ سابق ریاست بہاولپور میں تین نئے اضلاع اور ایک نئے ڈویژن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کا نام چولستان ہونا چاہئے۔ چولستان میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے ساتھ ایک بڑی اور عالمی سطح کی یونیورسٹی چولستان کے نام سے قائم کی جائے جس کا رقبہ کم از کم پانچ لاکھ ایکڑ ہو۔ اس یونیورسٹی میں ایگری کلچرل، میڈیکل، انجینئرنگ کالج و دیگر ذیلی ادارے موجود ہوں۔ پوری دنیا کے طالب علم اس میں داخلہ لیں گے اور چولستان ناجائز الاٹمنٹوں اور لینڈ مافیا کے عذابوں سے بچ جائے گا۔ مزید براں چولستان میں نئے سرے سے تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے اور حکومت پاکستان کی فوری توجہ کی اس بناء پر ضرورت ہے کہ صحرائے چولستان بھارت کا ملحقہ علاقہ ہے ۔ اگر بھارت کے صحرا راجستھا ن میں چولستان کے مقابلے میں کم سہولتیں ہونگی تو احساس محرومی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے ، چولستان عظیم تہذیبی و ثقافتی صحرا ہے ، وہاں بسنے والوں کی الگ دنیا ہے، الگ رسم و رواج ہیں ، وہاں کی شادیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ چولستان کے لوگوں کے خوبصورت لباس ان کی خوبصورت تہذیب کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چولستان کے نباتات پر تحقیق کی جائے تو وہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں ایک خود رو خوشبو دار پودے قطرن سے کشید کی جانیوالی خوشبو فرانس کی خوشبو سے اعلیٰ ہے ۔ پہناوے کے ساتھ چولستانیوں کے زیورات بھی الگ ہیں ۔ چولستان کے فنکاروں کی موسیقی دل موہ لینے والی ہے ۔ وہاں پیدا ہونے والا قدیم و جدید ادب اپنی مثال آپ ہے ۔ چولستان میں جھوک کے نام سے عارضی ٹھکانے ہیں، وہاں خانہ بدوش بھی ہیں جن کو مقامی زبان میں پکھی واس کہاجاتا ہے ۔ چولستان میں قدیم درگاہیں ہیں اور قلعے اس علاقے کی عظمت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چولستان کے اصل حسن کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ،اس مقصد کیلئے عرب شیوخ و دیگر شکاریوں کی چولستان سے بے دخلی ضروری ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر