محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چولستان میں پانی کا بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے اس بڑے صحرا میں جس کا رقبہ سینکڑوں کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، یہاں پانی کی شدید قلت ہے اور زیادہ تر علاقوں میں موسمی بارشوں پر گزارا ہوتا ہے۔ چولستان میں روایتی طور پر گڑھے یا ٹوبے یا تالاب سے بنا دئیے جاتے ہیں، جب بارش ہو تو پانی یہاں جمع ہوجاتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر اسی پانی سے جانور اور انسان استفادہ کرتے ہیں۔ اس سال گرمی معمول سے زیادہ ہے اور قبل ازوقت شروع ہوگئی۔ مارچ کے مہینے میں بارشیں ہوتی تھیں، اس بار سخت گرمی پڑی جبکہ اپریل بھی جھلسا دینے والا تھا اور مئی میں تو خاصے عرصے کے بعد بہاولپور سائیڈ پر ٹمپریچر پینتالیس سے بڑھ کر سنتالیس اڑتالیس ڈگری سنٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ اس شدید گرمی اور جھلسا دینے والی لو کے باعث چولستان میں تمام پانی کے ٹوبے خشک ہوچکے ہیں، پانی کی قلت سے انسان اور جانور مر رہے ہیں۔ وہاں سے آنے والی تصاویربڑی دلدوز اور کربناک ہیں۔ جگہ جگہ جانوروں کے لاشے پڑے ہیں۔ بحران اس قدر شدید ہوگیا کہ فوری مدد کی بڑی ضرورت ہے۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے، مگر جتنی ضرورت اور جیسی ایمرجنسی صورتحال ہے، ویسا بالکل نہیں ہو رہا۔ دراصل ملک میں سیاسی بحران اور انتشار یوں چل رہا ہے کہ حکومتیں بھی کسی اور جانب مصروف ہیں، کسی کے پاس اس بحران کو سنبھالنے کی ہمت اور استعداد نہیں ۔ ایک اچھا کام چیریٹی تنظیموں نے بھی کیا ہے۔ الخدمت اور بعض دیگر تنظیمیں بھی اس طر ف جا رہی ہیں۔ حکومت اور نجی شعبے کی ویلفئیر تنظیمیں پانی کے ٹینکر مختلف ٹوبوں میں ڈلوا رہی ہیں تاکہ بحران میں کمی لائی جا سکے۔ یہ اچھا ہے کیونکہ جو فوری ضرورت ہے اسے تو ہر حال میں پورا کرنا چاہیے۔یہ مگر شارٹ ٹرم حل ہے، اس مسئلے کا مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم حل نکالنا چاہیے ۔ اس حوالے سے معروف ماہر آب پاشی اور بلاگر انجینئر ظفر اقبال وٹو نے کچھ تجاویز دی ہیں۔ انجینئر ظفر اقبال وٹو صاحب مختلف صحرائی علاقوں میں اس طرح کے پراجیکٹس کرتے رہے ہیں، ان کا خاصا ایکسپوژر ہے۔ وہ بلوچستان میں سو ڈیم بنانے کے پراجیکٹ سے بھی وابستہ رہے جبکہ سوڈان کے علاقہ ڈارفر میں بھی ڈیم بنانے کی ٹیم میں شامل رہے ہیں۔ انجینئر ظفر اقبال وٹو لکھتے ہیں ’’پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً 17 فی صد سے زیادہ صحراوں پر مشتمل ہے جس میں تھل، چولستان ، تھر اور خاران شامل ہیں ہیں۔ ہر جگہ صورت حال روہی (چولستان)سے ملتی جلتی ہے لیکن کبھی ادھر توجہ نہیں دی گئی۔ آج کل صحرائے چولستان ایک انسانی المئے سے دوچار ہے جہاں کبھی گھاگھرا اورہاکڑا دریا بہتے تھے لیکن پھر ان کے منہ موڑنے سے ان دریاؤں کے کناروں پر قائم پرانی تہذیب درہم برہم ہوگئی۔پتہ نہیں یہ موسمیاتی تبدیلی تھی یا کچھ اور۔ بہرحال شمال سے آنے والے برہمائی پانی منہ موڑ گئے اور سات دریاؤں کی سرزمین پانچ تک محدود ہوگئی جو کہ سندھ طاس معاہدے کے بعد عملی طور پر دو دریاؤں کی سرزمین بن کر رہ گئی ہے۔ ’’چولستان کے پیاسے ٹوبوں میں پانی کے ٹینکر ڈلوا نے سے دل کو وقتی تسلی تو دی جاسکتی ہے کہ پیاسے انسانوں اور جانوروں تک پانی پہنچ گیا لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی فاقہ کش انسان تک ایک وقت کا کھانا پہنچانا یا پھر کسی کان میں پھنسے کان کن تک ایک چھوٹے سے سوراخ کے ذریعے ہوا پہنچانا۔ جب تک دستیاب وسائل اور حالات کے مطابق اس بحران کے کوئی فوری، وسط مدتی اور طویل مدتی حل نہیں ڈھونڈے جاتے یہ ہرسال چلتا رہے گا اور شدید سے شدید تر ہوتا جائے گا۔ چولستان میں پانی کا سارا دارومدار بارش پر ہے اور یہ بارش ہر سال کم ہوتی ہے یا پھر بہت کم۔ تاہم پھر بھی سالانہ اوسطا جتنی بارش چولستان میں ہوتی ہے اس سے کہیں کم دنیا کے دوسرے صحراؤں میں ہوتی ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے لیکن وہاں قطراتی نظام آب پاشی بلکہ آنسو نظام آب پاشی تک کی تکنیک اپنا کر پانی کی کمی کو پورا کیا گیا ہے۔ ’’ ہمارے ہاں بھی ویسا ہی کرنا چاہیے۔ جن ٹوبوں میں پانی کے ٹینکر ڈالے جارہے ہیں انہیں غور سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا یہ ڈالا گیا پانی کتنی جلدی ریتلی زمین میں جذب ہورہا ہے۔ ان ٹوبوں کے اندر پلاسٹک کی شیٹ یا کوئی پکی مٹی کا لیپ ہی کردینا چاہیے تاکہ یہ پانی ضائع نہ ہو۔پانی پہنچانے والے رضاکاروں اور تنظیموں کے جذبے کو سلام لیکن جیسے ہی یہ کرائسز سوشل میڈیا سے غائب ہوا، یہ ٹوبے پھر خشک رہ جائیں گے۔ لہذا جہاں ٹینکرز پہنچائے جارہے ہیں وہیں ان خطوط پر بھی سوچا جائے کہ مستقبل میں اس بحران سے کیسے بچا جائے؟ پانی کا ایک ایک قطرہ سنبھالنے اور اس کا بہتر سے بہتر استعمال کرنے والی سوچ پر کام کرنا ہوگا۔ ’’چولستان تک پہنچنے والی نہروں سے زائد پانی ان ٹوبوں اور کنڈوں تک پہنچانا ہوگا۔ دریائے سندھ کے زائد سیلابی پانیوں کو چولستان کی طرف موڑنا ہوگا ۔زیادہ نہیں تو کم ازکم چولستان میں بارشی پانی کو زیرزمین ٹوبوں میں منتقل کرنا ہوگا تاکہ نہ تو یہ پانی دھوپ سے بخارات بن سکے اور نہ یہ زیرزمین ریتلی مٹی میں جذب ہوکر غائب ہوجائے۔آج کل ایسی جدید تکنیکس آ گئی ہیں جن کی مدد سے بارش کے پانی کے بہاؤ اور ممکنہ نشیبی جگہوں کا اندازہ کرکیزیرزمین ٹوبوں یا ریتلے ٹوبوں کے لئے جگہیں ڈھونڈی جاسکتی ہیں۔ اسرائیل کے صحرائے نقب کی طرز پر اس ٹوبے کے کیچمنٹ کو مٹی ڈال کر نہ صرف فصلیں تیار کی جاسکتی ہیں بلکہ اس سطح کے اوپر بہنے والے بارش کے پانی کو بھی ریت میں جذب ہونے سے بچاکر زیرزمین ٹوبے تک لایا جاسکتا ہے۔ ’’یہ ٹوبا ایک ایسا تالاب ہوگا جس کا سائز بارش سے جمع ہونے والے پانی کی مقدار اور مقامی ضروریات کے مطابق طے کیا جائے گا۔ اس میں سے ریت نکال کر پہلے اس کے فرش پر پکی مٹی کی تہہ اور اطراف پر پکی مٹی کی دیوار بنیادی جائے تاکہ جمع ہونے والا پانی ریتلی زمین میں نہ تو نیچے جائے اور نہ ہی سائڈوں پر لیک ہو سکے۔ اس ٹوبے کو دوبارہ کھردری ریت سے بھر لیا جائے جس کے اندر اپنے حجم کے 50 سے 85 فی صد تک سوراخ ہوتے ہیں جن کے اندر بارش کے موسم میں پانی چلا جائے گا۔ ’’ریت کے اندر کا یہ پانی نہ تو دھوپ سے بھاپ بنے گا اور نہ ہی پکی مٹی کی دیواروں اور تہہ کی وجہ سے نیچے جائے گا اور سب سے اہم بات کہ یہ پانی آلودہ بھی نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ہینڈ پمپ لگا کر ایک حوض بنا دیا جائے جہاں سے حسب ضرورت انسان اور جانور کے پینے کے لئے پانی نکال لیا جائے۔ پانی کی مقدار اور ضرورت کے مطابق ان ٹوبوں کی تعداد اور سائز متعین کیا جاسکتا ہے۔ نہری اوردریائی علاقوں سے قریب کے ٹوبوں کو سیلابی پانی سے بھی سال میں ایک دو دفعہ بھرا جا سکتا ہے۔ ’’بارش کی صورت حال اور پیٹرن کو دیکھتے ہوئے ان ٹوبوں کا ایک جال بچھایا جاسکتا ہے اور ان کو باہم ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا بھی جاسکتا ہے تاکہ زیادہ استعمال ہونے والی جگہ پر دوسرے ٹوبوں سے پانی زیرزمین پائپوں سے آسکے۔ سب سے اہم بات کہ یہ ٹوبے کم وسائل میں مقامی میٹیرئیل اور مقامی لیبر تیار کرسکتی ہے۔ عام ٹوبوں کے مقابلے میں ان کا پانی دوگنا وقت تک استعمال کیا جاسکے گا۔بات صرف دانش مندی اورنیک نیتی سے عمل کرنے کی ہے۔‘‘ انجینئر ظفر اقبال وٹو کی تجاویز نہایت صائب اور عمدہ ہیں۔ ان ٹوبوں کو زیادہ دیر تک پانی سنبھالے رکھنے کے قابل بنانا چاہیے اور اس کے لئے زیادہ رقم بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گی۔ پنجاب حکومت کو اس جانب توجہ دینا چاہیے ۔ نجی شعبہ میں کام کرنے والی الخدمت جیسی اچھی چیریٹی تنظیموں کو بھی چولستان میں فوکس کرناہوگا۔ الخدمت کے سربراہ عبدالشکور صاحب نہایت نیک نیت اور درد دل رکھنے والے بزرگ ہیں۔ الخدمت پاکستان کے ہر کونے میں کسی بھی عوامی مشکل کے حل کے لئے پہنچتی ہے۔ تھر میں الخدمت نے بہت کام کیا۔ چولستان میں بھی انہیں اسی جذبہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بار پانی کے ٹینکر ڈلوانے کے ساتھ ان ٹوبوں کو بھی بہتر بنایا جائے تاکہ یہ پانی تیز دھوپ کی وجہ سے جلد بھاپ بن کر نہ اڑ جائے۔چولستان کے ستم رسیدہ باسی اپنے پاکستانی بھائیوں کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں، ان کی مدد کے لئے ہر ایک کو اٹھنا اور پہنچنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر