رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانوں کی زندگی میں چند لمحات ایسے ضرور آتے ہیں جب وہ جانتے بوجھتے ایسا بلنڈر مارتے ہیں جس کا انہیں علم ہوتا ہے کہ نقصان ہوگا۔ کسی کا کیا نام لوں یا دوش دوں‘ میں خود ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے یہ جانتے ہوئے کچھ ایسے کام کئے جن کے بارے میں عقل کہہ رہی تھی کہ نقصان ہوگا۔ میں نے کوئی فیصلہ کرنا تھا‘ کئی دن تک میرا دماغ مجھے روکتا رہا‘ میں اپنی کونسلنگ تک کرتا رہا کہ یہ کام نہ کروں کیونکہ اس میں نقصان ہوگا۔ میں نے پہلی دفعہ محسوس کیا کہ انسانی فطرت کتنی خوفناک چیز ہے‘ انسانی اَنا کتنی اہم ہے اور کس طرح یہ آپ کے دل و دماغ پر حاوی ہوجاتی ہے۔ آپ کا دماغ آپ کو لاکھ سمجھاتا رہے لیکن آپ نے کرنا وہی ہے جو آپ کی فطرت آپ کو ڈکٹیٹ کرے گی۔ میں نے تمام تر کوشش کرکے وہ کام یا فیصلہ کیا جس کا مجھے پتہ تھا کہ اس کا نقصان ہوگا۔ ہوسکتا ہے آپ کہیں کہ آپ بیوقوف انسان ہیں کہ جانتے بوجھتے ایسا کام کیا جس کا نتیجہ پہلے سے معلوم تھا۔ آپ کسی کو الزام نہیں دے سکتے۔ میں کسی کو الزام دے بھی نہیں رہا‘ اپنی بیوقوفی کو ہی دے رہا ہوں۔
ایک پرانا قول ہے کہ جب بربادی ہونا ہوتی ہے تو قدرت دماغ مائوف کر دیتی ہے۔ اس کے بعد بندہ خود کو اپنے غلط فیصلوں سے تباہ کرتا رہتا ہے۔ اس واقعے کے بعد میں نے بڑی حد تک لوگوں کو جج کرنا کم کر دیا کہ اگر میں خود اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوں تو پھر دوسروں کو غلطیوں پر کیا دوش دوں؟ ہوسکتا ہے بعض لوگ کوئی فیصلہ کرتے وقت خود کو نہ سمجھا پاتے ہوں کہ کیا نقصان ہوگا‘ لہٰذا بعد میں پچھتاتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جس کو سب علم ہوکہ فیصلہ غلط ہو گا لیکن طبیعت‘ مزاج یا اَنا آپ سے زبردستی وہ فیصلہ کرائیں اور آپ ایک مجبور تماشائی کی طرح اپنا تماشا بنتے دیکھتے رہیں۔ لگتا ہے یہی کچھ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ عمران خان کے ہاتھوں اتنے تنگ تھے کہ یہ بھول گئے کہ ان کو سبق سکھاتے سکھاتے وہ اپنا بڑا نقصان کر بیٹھیں گے۔ شاید انسان خود کو تسلی دے دیتا ہے کہ کوئی نہیں سب ٹھیک ہوگا۔ آپ کی اَنا اور غصہ حاوی ہوجاتا ہے۔
اب اندازہ کریں‘ یہ عمران خان کا وزیراعظم ہاؤس میں آخری سال تھا۔ ان کی حکومت مشکلات میں تھی‘ یار دوستوں اور ان کے اپنے سکینڈلز باہر آنا شروع ہوگئے تھے۔ معیشت کا برا حال تھا۔ ڈالر 180 روپے سے اوپر جارہا تھا‘ معیشت ساری آئی ایم ایف کے حوالے کر چکے تھے‘ فارن ریزروز تیزی سے نیچے گررہے تھے۔ سعودی عرب اور چین مدد کرکر کے تھک چکے تھے اور انہوں نے بھی اب ہاتھ اٹھا لیا تھا۔ اور تو اور ڈیزل خریدنے کیلئے بھی پیسے نہیں تھے اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اپنے آخری دورۂ چین میں چینی قیادت سے ڈیزل مانگنے گئے تھے۔ عمران خان کے اتحادی پریشان تھے کہ وہ اگلا الیکشن کیسے لڑیں گے کیونکہ مہنگائی نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دی تھیں۔ خود مریم نواز روز یہ طعنے عمران خان اور ان کے وزیروں کو دے رہی تھیں کہ وہ عوام میں نکل کر دکھائیں۔ خان صاحب کی پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ اداروں اور وزیراعظم ہاؤس میں فاصلے بڑھ رہے تھے۔ ون پیج کب کا پھٹ چکا تھا۔ خان صاحب پاکستان کے تین بڑے عالمی پارٹنرز یا فرینڈز سعودی عرب‘ یورپ اور امریکہ سے تعلقات خراب کر چکے تھے۔ ایسا کوئی ادارہ رہ نہیں گیا تھا جس کے ساتھ وہ لڑائی نہ کر چکے ہوں بلکہ وزیراعظم ہاؤس کی آخری شام انہوں نے خود صحافیوں کو بلایا ہوا تھا اور خود پوچھا کہ کوئی رہ تو نہیں گیا جس سے ان کی لڑائی نہ ہو یا وہ ان کے خلاف نہ ہو۔ امریکہ سے لے کر یورپ تک‘ عدلیہ‘ فوج اور میڈیا سے لے کر اپوزیشن تک سب سے وہ لڑ چکے تھے۔ اپنے سب روایتی دوستوں کو وہ دشمن بنا چکے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں اس وقت اکیلے تھے۔ اور تو اور وہ اپنے ووٹرز کو بھی خود سے دور کرچکے تھے۔ سب حالات ان کے خلاف تھے۔ عثمان بزدار کی کارکردگی اور اس پر عمران خان کی ضد نے ان کے اپنے ہمدردوں کو بھی ان سے دور کردیا تھا۔
وزیراعظم ان سب فورسز کیلئے ایک بوجھ بن چکے تھے‘ جو انہیں اقتدار میں لائی تھیں۔ وہ خود ان سے جان چھڑانے کے طریقے ڈھونڈ رہے تھے کہ اس دوران زرداری کو عمران ہٹائو ٹاسک مل گیا جبکہ خود ان سے چیزیں سنبھل نہیں رہی تھیں اور ان کے حامی تک پریشان تھے کہ خان صاحب اگلا سال کیسے نکال کر اگلا الیکشن لڑیں گے؟ ان حالات میں خان صاحب کی حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ ہوا‘ بلکہ جب شہباز شریف صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی تقریر تیار کی جارہی تھی تو تقریر لکھنے والوںنے پوچھا کہ کتنے عرصے کیلئے وہ وزیراعظم رہیں گے تاکہ اس کے مطابق پوائنٹس تیار کیے جائیں اور تقریر لکھی جائے۔ خود انہیں پتا نہیں تھا کہ حکومت تین ماہ رہے گی‘ چھ ماہ یا الیکشن اگلے سال ہی ہوں گے۔ کہا گیا کہ بس لکھ دو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی تیاری نہیں تھی‘ کوئی پلان نہیں تھا کہ عمران خان کے بعد ملک کیسے چلانا ہے۔ بس ایک ہی پلان تھا: عمران خان کو ہٹانا ہے۔ اب ہٹا لیا ہے تو کچھ پتا نہیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔ تین ماہ رہنا ہے اور پھر الیکشن کروانے ہیں یا چھ ماہ بعد یا پھر نومبر کے بعد‘ تعیناتی کرکے الیکشن کروانے ہیں۔
خود نواز لیگ اس گڑھے میں گر گئی ہے جو وہ اپنے تئیں عمران خان کیلئے کھود چکی تھی۔ اب وہ اگر فوری الیکشن کرواتے ہیں تو عمران خان ان کے خلاف ایسا بیانیہ بنا چکے ہیں کہ لوگ ان کے چار سالہ دور کے درجن بھر سکینڈل بھول چکے ہیں۔ لوگوں کے نزدیک ایک دفعہ پھر چور ڈاکو واپس آگئے ہیں۔ کپتان کی بری گورننس لوگ ایک ماہ میں بھول گئے ہیں۔ شریف خاندان اور زرداری صاحب نے بھی اس بھونڈے انداز میں حکومت گرائی کہ سب کو عمران خان مظلوم لگنے لگے۔ سندھ ہاؤس میں جو مناظر سامنے آئے انہوں نے رہی سہی کسر نکال دی۔ جب زرداری اور شریف برادران عمران خان کے اتحادیوں کی مدد سے حکومت گرا سکتے تھے اور آئینی طور پر اپنی حکومت بنا سکتے تھے تو خود کو سوداگر بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ شہباز شریف جو خود مقدموں میں ضمانت پر تھے انہیں کیوں وزیراعظم کا امیدوار بنا لیا گیا؟ رہی سہی کسر حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنا کر پوری کر دی۔ اگر کچھ کسر تھی تو جہاز بھر کر لندن پہنچ گئے کہ نواز شریف سے مشورہ کیا جائے‘ جو خود اس وقت قانون کی نظروں میں بھگوڑے ہیں۔ اب ایک اور کارنامہ سامنے آیا ہے کہ ایف آئی اے نے عدالت کو لکھ کر دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ مقدمات کو فالو نہیں کرنا چاہتی‘ مطلب یہ کہ اربوں روپے کا مقدمہ بند کر دیا جائے۔
اب بتائیں کہ جو کام کئے گئے‘ عمران خان کو ان سے زیادہ فائدہ کون دے سکتا ہے؟ وہ روز کی بنیاد پر عمران خان کو اپنے بارے نئے نئے ایشوز فراہم کررہے ہیں۔ ابھی شہباز شریف کو ایک ماہ پورا ہوا ہے اور ان کی حکومت غیر مقبولیت کی اس سطح پر پہنچ چکی ہے جس پر عمران خان ساڑھے تین سال کی حکومت کے بعد پہنچے تھے۔ شہباز شریف کو وزیراعظم بنے ابھی تیس دن ہوئے ہیں لیکن لگتا ہے جیسے وہ تیس برس سے وزیراعظم ہوں۔ عمران خان کی جتنی فیور شہباز شریف اور ان کی پارٹی نے کی اس کا انہیں شکر گزار ہونا چاہئے‘ ورنہ کپتان کے پاس اگلے الیکشن تک کارکردگی دکھانے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ اللہ بھلا کرے امریکہ میں پاکستانی سفیر کا جس نے ایک خط بھیج دیا ورنہ خان صاحب اگلے الیکشن میں شاید ہی دس سیٹیں نکال پاتے۔ اب وہ خط دکھا دکھا کر عمران خان ہر گلی محلے میں جارہے ہیں۔ عوام بھی خط دیکھ کر سنبھالے نہیں جارہے۔ پہلے پڑھتے تھے کہ لوگ اپنے پائوں میں خود گولی کیسے مارتے ہیں‘ یہاں تو ہماری آنکھوں کے سامنے شریف برادرز نے سیدھا بم دے مارا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر